قریب ایک ہفتہ قبل شامی اپوزیشن کے ایک دھڑے ہیئۃ التحریر الشام نے ملکِ شام کے دوسرے بڑے شہر حلب پر حملہ کرکے اپنا قبضہ جمایا تو پوری دنیا میں حیرانی کی ایک لہر دوڑ گئی کیونکہ یہ ایک غیر متوقع پیشرفت تھی۔ شامی فوج کا آرٹلری سنٹر حلب میں ہے اور وہاں کئی روسی ایڈوائزر بھی تھے۔ واضح رہے کہ اس اہم شہر پر 2016ء میں بھی ایک بار قبضہ ہوا تھا مگر کچھ ہفتوں بعد بشار الاسد کی حکومت نے روسی عسکری مدد سے اسے باغیوں سے آزاد کرا لیا مگر پھر مخالفین نے تیزی سے پیش قدمی کی اور پہلے شام کے چوتھے بڑے شہر حمہ پر قبضہ کیا جو بشار الاسد حکومت کے مخالفین کا عرصے سے گڑھ رہا ہے۔ یاد رہے کہ اسی شہر میں حافظ الاسد کے دور میں حکومت نے قتلِ عام کرایا تھا۔ گو کہ اس بات کو چالیس سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے لیکن حمہ کے لوگ اس سانحے کو نہیں بھولے۔ پچھلے ایک ہفتے سے کئی مبصر کہہ رہے تھے کہ حکومت مخالفین کے حملے کو امریکہ‘ اسرائیل اور ترکیہ کی اشیرباد حاصل ہے۔ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل بشار الاسد حکومت کو پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ روس اور ایران سے دوستانہ تعلق رکھتی تھی۔ وہ حزب اللہ کی حامی بھی تھی اور حمایت کا یہ رشتہ دو طرفہ تھا۔ حزب اللہ کے سپاہی ''عرب بہار‘‘ کے نتیجے میں ہونے والی سول وار میں شامی اپوزیشن کے خلاف لڑتے رہے اور اس وقت بھی شام میں موجود ہیں۔ اسرائیلی حملوں سے ہی حزب اللہ شام اور لبنان دونوں جگہ کمزور ہوئی۔
اب دیکھتے ہیں کہ ترکیہ بشار الاسد پر کیوں دبائو بڑھا رہا تھا۔ دراصل ترکیہ چاہتا ہے کہ شام وہ لاکھوں مہاجرین واپس لے جو سول وار کے بعد ترکیہ کے کیمپوں میں پناہ گزین ہیں۔ صدر اردوان یہ بھی چاہتے ہیں کہ شمالی شام میں ایک بفر زون بنایا جائے جہاں مسلح افراد نہ ہوں۔ قارئین کو معلوم ہوگا کہ ترکیہ‘ ایران اور عراق کے علاوہ شمالی شام میں کرد کافی تعداد میں ہیں اور وہ ترکیہ کے علیحدگی پسند کردوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔ ترکش لیڈرشپ کو عمومی طور پر یہ شکوہ رہا ہے کہ بشار الاسد کسی کی بات آسانی سے نہیں مانتا لہٰذا شامی صدر پر پریشر بڑھانے کا کوئی موقع ترکیہ نے جانے نہیں دیا۔
شام رقبے اور آبادی کے اعتبار سے بہت بڑا نہیں لیکن اس کا محل وقوع پاکستان کی طرح‘ بہت اہم ہے۔ روس کا بیرون ملک اکلوتا نیول بیس شام میں‘ طرطوس کی بندرگاہ پر واقع ہے‘ جو بحیرہ روم کے ساحل پر ہے۔ یوکرین کے ساتھ جنگ کی وجہ سے روس کی توجہ شام پر مرکوز نہیں رہی اور شامی اپوزیشن نے اس کا بھرپو فائدہ اٹھایا۔شام میں 1970ء سے اسد فیملی کی حکومت تھی۔ 2000ء میں صدر حافظ الاسد کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے بشار الاسد کو اقتدارملا۔ اسد فیملی کا تعلق ساحلی علاقے لاذقیہ سے ہے اور یہ عقیدے کے اعتبار سے علوی ہیں۔ تہران حکومت بشار الاسد کی مضبوط حمایتی تھی اور شامی حکومت بھی ایران کو حزب اللہ کو کمک پہچانے میں مدد کرتی رہی مگر شام کی اسّی فیصد آبادی کا مسلک شافعی سُنی ہے اور یہ لوگ اپوزیشن کے حامی ہیں۔ حمہ شہر سُنّی اپوزیشن کا مرکز رہا ہے۔
ہیئۃ التحریر الشام کے لیڈر کا نام ابو محمد الجولانی ہے۔ ماضی میں اس گروہ کا القاعدہ سے تعلق رہا ہے۔ ابو محمد الجولانی بھی عراق میں امریکہ کے خلاف لڑتے ہوئے پکڑا گیا تھا اور پانچ سال جیل میں رہا۔ کہا جاتا ہے کہ 2017ء میں اس گروپ نے القاعدہ سے اپنی راہیں جدا کر لیں لیکن سیکولر ذہن والے شامیوں کا خیال ہے کہ شدت پسندی اس گروہ کے ذہن میں اب بھی راسخ ہے۔ حلب پر اپوزیشن کے قبضے کے بعد میرے ایک شامی دوست نے فیس بک پر لکھا کہ حلب دوسرا قندھار بن رہا ہے۔
بشار حکومت کی صورتحال بھی دلچسپ تھی۔ کہنے کو تو یہ بعث پارٹی کی سیکولر حکومت تھی لیکن دراصل اس پر عسکری ادارے کا کنٹرول تھا۔ شام میں فوجی افسر بعث پارٹی کے ممبر بن سکتے تھے۔ جب 1970ء میں حافظ الاسد عسکری انقلاب کے ذریعے ملک کے صدر بنے تو وہ شامی فضائیہ کے چیف تھے۔ ان کے عہد میں نام نہاد الیکشن بھی ہوتے تھے اور وزیراعظم عمومی طور پر سُنّی ہوتا تھا لیکن سیاسی جماعتیں برائے نام تھیں۔ ملک کو بعث پارٹی ہی چلاتی تھی۔ یہ ایک ہائبرڈ سسٹم تھا جو چالیس سال تک تو خوب چلا لیکن پھر سخت دبائو میں آ گیا۔
آج کل شام کی اقتصادی حالت بہت خراب ہے۔ کرنسی کا برا حال ہے۔ سرکاری ملازمین مشکل سے گزارہ کر رہے ہیں لہٰذا رشوت میں اضافہ ہوا ہے۔ حلب پر قبضے کے بعد حکومت تاش کے پتوں کا محل ثابت ہوئی۔ تہران اور ماسکو سے مدد آ سکتی تھی لیکن ان ممالک کے اپنے مسائل ہیں۔ حکومت پاکستان سفارتی سطح پر شامی حکومت کی اصولی حامی رہی ہے۔ ہمارا استدلال یہ تھا کہ شام میں بیرونی مداخلت ہوئی ہے اور پاکستان بیرونی مداخلت کے سخت خلاف ہے کیونکہ ایسی ہی مداخلت کے نتیجے میں ہمارا ملک 1971ء میں دولخت ہوا تھا۔
خیال تھا کہ فیصلہ کن جنگ حمص میں ہو گی کہ اس شہر کی سٹرٹیجک اہمیت ہے۔ یہ ترکیہ جانے والی مرکزی شاہراہ پر واقع ہے۔ یہ تاریخی شہر ہے جہاں سیف اللہ حضرت خالدؓ بین ولید مدفون ہیں۔ جب یہ شہر اپوزیشن کنٹرول میں گیا تو دمشق کا ساحلی علاقے سے رابطہ ختم ہو گیا اور بشار الاسد کی حکومت سخت دبائو میں آ گئی۔
امریکہ اور اسرائیل کی مڈل ایسٹ پالیسی اب تک خاصی کامیاب رہی ہے گو کہ عرب عوام میں دونوں کے لیے سخت نفرت کے جذبات ہیں تاہم بشارالاسد کی شکست سے ایک اور اسرائیل مخالف عرب حکومت گر گئی ہے ‘لیکن شام میں آئندہ آنے والی حکومت بھی اسرائیل دوست نہیں ہوگی۔ اول تو اس کا خمیر اسلامی اور جہادی ہو گا۔ دوم‘ جب تک اسرائیل گولان پر قابض ہے کوئی بھی شامی حکومت اسرائیل دوست نہیں ہو سکتی۔سب سے پہلے امریکہ اور اسرائیل نے کیمپ ڈیوڈ میں مصر کو مالی امداد کے ذریعے رام کیا۔ پھر عراق پر مہلک ہتھیاروں کو بہانہ بنا کر چڑھائی کر دی۔ حزب اللہ کے بڑے بڑے لیڈروں کو ایک ایک کرکے شہید کیا اور پھر شام کی باری آئی۔ کاش بشار الاسد اتنے ضدی نہ ہوتے اور حسنی مبارک کی طرح اقتدار چھوڑ کر الیکشن کرا دیتے۔ ان کا اقتدار سے ہرصورت چمٹے رہنا شام کو بہت مہنگا پڑا ہے۔