مقبوضہ جموں وکشمیر میں حالیہ انتخابی نتائج خطے کی پیچیدہ سیاسی تاریخ میں ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اگست 2019ء میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے بعد مقبوضہ جموں وکشمیر میں اہم سیاسی تنظیم ہوئی تھی۔ اس آئینی بندوبست کے تحت کشمیر ایک نیم خودمختار ریاست سے مرکز کے زیر انتظام علاقوں جموں وکشمیر اور لداخ پر مشتمل یونین ٹیرٹری بنا دیا گیا ۔ حالیہ انتخابات کے بعد سیاسی منظر نامے پر مواقع اور چیلنجز دونوں موجود ہیں‘ جو خطے میں مستقبل کی حکمرانی‘ آئینی حقوق اور اقتصادی ترقی کو تشکیل دیں گے۔ انتخابات کا بنیادی آئینی اثر آرٹیکل 370 کی منسوخی کے ارد گرد جاری بحث میں مضمر ہے جس نے تاریخی طور پر ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دی ہوئی تھی۔ اس حیثیت سے خطے کو دفاع‘ خارجہ امور‘ مالیات اور مواصلات کے علاوہ بیشتر معاملات پر اپنے الگ آئین اور قانون سازی میں خود مختاری کی اجازت حاصل تھی۔ لیکن اگست 2019ء میں ان دفعات کے خاتمے نے جموں و کشمیر کو مکمل طور پر انڈین یونین میں ضم کر دیا جس نے قانونی‘ سیاسی اور سماجی تنازعات کو جنم دیا‘ جو ابھی تک حل نہیں ہو سکے۔ انتخابات کے بعد ممکنہ طور پر نئی حکومت جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کے لیے اقدامات پر پوری توجہ مرکوز کرے گی اور اس سلسلے میں اپنے بیان کردہ ایجنڈے کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرے گی۔ نئی حکومت ایسا کر بھی سکتی ہے یا نہیں‘اس کا انحصار حکومت سازی کے عمل میں شریک دیگر اتحادیوں پر بھی ہو گا۔ اگرچہ یہ نا ممکنات میں سے نہیں کیونکہ ریاست کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے فوراً بعد ہی بھارتی حکومت نے ریاست کا درجہ بحال کرنے پر اپنی رضا مندی کا کئی بار اظہار کیا ہے لیکن سابقہ خصوصی درجہ بحال کرنے کی بات نہیں کی جس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کو اس کی سابقہ خصوصی حیثیت دیے بغیر بطور ریاست تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں لینے والی نیشنل کانفرنس‘ کانگریس اور پی ڈی پی کے علاوہ ہر ایک جماعت اور آزاد امیدواروں کے لیے بھی یہ ایک اہم آئینی مسئلہ ہے کیونکہ یونین ٹیرٹری سے ریاست کی حیثیت میں منتقلی کے بہت دور رَس اثرات ہوں گے۔
ریاستی حیثیت کی بحالی کی صورت میں ایک مکمل طور پر کام کرنے والی مقننہ کا دوبارہ قیام‘ جمہوری عمل کی بحالی‘ اس خطے کو بھارت کے وفاقی ڈھانچے میں مناسب جگہ فراہم کرنے کا بندو بست کرنا نئی حکومت کی فوری ترجیح ہو گی۔ اس کے علاوہ یہ انتخابات ممکنہ طور پر پارلیمنٹ میں مقبوضہ جموں وکشمیر کے مفادات کی نمائندگی پر بحث کو دوبارہ شروع کر سکتے ہیں۔ اس اعتبار سے نئی حلقہ بندی کی جو مشق ہوئی ہے اور حلقہ بندیوں میں توازن پیدا کرنے کی جو کوشش ہوئی ہے‘ اس پر عملدرآمد کا امکان ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ طے ہو گا کہ کس طرح سیاسی طاقت وادیٔ کشمیر اور جموں خطے کے درمیان تقسیم ہوتی ہے‘ جس نے تاریخی طور پر مذہبی اور علاقائی شناختوں کی بنیاد پر سیاسی مقابلہ دیکھا ہے۔ اس وقت جموں و کشمیر کا سیاسی ماحول ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جس میں علاقائی اور قومی پارٹیاں غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ انتخابات کے بعد بننے والے سیاسی اتحاد خطے کی حکمرانی پر نمایاں اثر ڈالیں گے۔ ان میں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے علاوہ دیگر علاقائی پارٹیاں شامل ہیں اور جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بحال کرنے کے بارے میں آواز اٹھاتی رہی ہیں۔ اس کے برعکس بھارتیہ جنتا پارٹی نے ترقی اور ہندو قوم پرستی کے وژن کو فروغ دیتے ہوئے باقی بھارت کے ساتھ انضمام کے لیے خود کو ایک طاقت کے طور پر کھڑا کیا ہے۔ اس طرح یہ انتخابی نتائج یا تو علاقائی جماعتوں کے استحکام کا باعث بن سکتے ہیں جو خود مختاری پر زور دے رہی ہیں یا بھارت کے ساتھ زیادہ انضمام کا باعث بن سکتے ہیں۔ اگر علاقائی جماعتیں اور اس کے اتحاد ی اپنے قدم جما لیتے ہیں تو بھارتی حکومت کو خود مختاری اور خصوصی ریاستی حیثیت کے معاملے پر بات چیت پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف بی جے پی کی طرف سے آرٹیکل 370 کے بعد کے حکم کے نفاذ کا مطالبہ ہو سکتا ہے جو علاقائی خود مختاری اور قومی یکجہتی پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ جموں و کشمیر کے معاشی مستقبل کا اس کے سیاسی استحکام سے گہرا تعلق ہے۔ اس خطے کو طویل عرصے سے اقتصادی چیلنجوں کا سامنا ہے جن میں بیروز گاری کی بلند شرح‘ محدود صنعتی ترقی ‘ حکومتی اخراجات اور زراعت پر بہت زیادہ انحصار کرنے والی معیشت شامل ہیں۔ سیاحت‘ جو کبھی کشمیر کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی‘ سیاسی غیریقینی اور تشدد کی صورتحال سے شدید متاثر ہوئی ہے۔ بھارتی حکومت نے آرٹیکل 370 کے بعد کئی اقتصادی وعدے کیے‘ جن میں انفراسٹرکچر‘ سیاحت اور زراعت میں سرمایہ کاری شامل ہیں‘ تاہم ان وعدوں کو پورا کرنے کا انحصار سکیورٹی کی صورتحال اور مقامی حکومت کی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی صلاحیت پر ہوگا۔ یہ انتخابات نو منتخب نمائندوں کے لیے خطے کی اقتصادی رفتار کو تشکیل دینے کے لیے اہم موقع کی نشاندہی کرتے ہیں۔
جموں و کشمیر میں ترقی کو اکثر اقتصادی استحکام کے بجائے قومی سلامتی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں اس وقت ایک جامع اقتصادی پالیسی کی ضرورت ہے جو بیروز گاری کو ختم کرے‘ سیاحت کے شعبے کو زندہ کرے اور بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنائے۔ روزگار کے مواقع پیدا کرے‘ بالخصوص دستکاری‘ ٹیکنالوجی اور تعلیم جیسے شعبوں میں استحکام پیدا کرے۔ انتخابات کے بعد کے منظر نامے میں جموں و کشمیر کے مستقبل کی سیاسی اور اقتصادی صورتحال غیر یقینی لیکن اہم ہے۔ آئینی بحثیں راتوں رات حل نہیں ہوں گی لیکن انتخابی نتائج ایک موقع فراہم کرتے ہیں کہ ایسا کیا جائے اور خطے کے لوگوں کی سیاسی حیثیت کو بحال کیا جائے۔ ان اقدامات سے جموں و کشمیرکی آئینی و قانونی حیثیت کا انحصار علاقائی سیاسی قیادت اور مرکزی حکومت کی بامعنی بات چیت میں شامل ہونے کی خواہش پر ہوگا۔
انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والے نئے سیاسی نظام کو علاقائی اُمنگوں اور قومی مفادات کے درمیان توازن قائم رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا۔ اس طرح اقتصادی استحکام اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بھی اہم ہو گا کہ جموں و کشمیر کے لوگ امن اور خوشحالی کے فوائد کا تجربہ کر سکیں۔ موجودہ انتخابی نتائج کے بعد آنے والے مہینے اور سال خطے کے مستقبل اور ریاست کے آئینی اور اقتصادی فریم ورک کے لیے ایک لٹمس ٹیسٹ ہوں گے۔ ریاست کی سابقہ حیثیت کی بحالی کے ساتھ ساتھ قانون سازی کے لیے مقننہ کا قیام‘ کشمیر میں انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی بحالی‘ سیاسی قیدیوں کی رہائی سمیت دیگر کئی اقدامات شامل ہیں جو نو منتخب حکومت کی فوری توجہ کے طالب ہوں گے۔ نئے منتخب ہونے والے نمائندے خطے میں امن کے قیام‘ پاکستان کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے مسائل کے حل کو بھی اپنے انتخابی ایجنڈے کا اہم نقطہ قرار دیتے رہے ہیں۔ اس وسیع ایجنڈے پر عملدرآمد کے لیے نومنتخب حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر تیز رفتار قدم اٹھانا ہوں گے۔