اپنی نشست پر بیٹھتے ہی میں نے دائیں طرف کی دیوار پر نگاہ کی تو دو تصاویر کو ایک ساتھ آویزاں دیکھ کر چونک اٹھا۔ جیسے یک دم تاریخ کی ایک کتاب میرے سامنے کھل گئی ہو۔ وقت کے سمندر میں اٹھتی ہوئی دو موجیں‘ جو ماضی میں مخالف سمت میں بہہ رہی تھیں‘ ان تصاویر میں حال (اور ہال) میں ہم قدم دکھائی دے رہی تھیں۔ میرے ذہن کے پردے پر تاریخ کی ایک نئی تفہیم رقم ہو رہی تھی۔ یہ باچا خان یونیورسٹی چارسدہ کا ہال تھا۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز‘ سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل سٹیج پر موجود تھے۔ برادر اسرار مدنی تھے۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر زاہد حسین بھی تھے۔ ہال میں داخل ہونے والے کسی فرد کیلئے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ ان تصاویر سے صرفِ نظرکرے۔ یہ قائداعظم اور خان عبدالغفار خان کی تصاویر ہیں جو ایک ساتھ آویزاں ہیں۔ ماضی کے حوالے سے دیکھیے تو دو مختلف نقطہ ہائے نظر۔ حال کے پہلو سے ایک مشترکہ وراثت۔
تاریخ کو دیکھنے کا ایک زاویۂ نظر تو یہ ہے کہ بیتے واقعات کو سینے سے لگائے‘ محبت اور نفرت کی مسلسل آبیاری کی جائے۔ جس اختلاف نے صدیوں یا عشروں پہلے جنم لیا تھا‘ اسے یادداشت سے محو نہ ہونے دیا جائے اور موقع بے موقع ان گزرے واقعات کو مبالغہ آمیزی کے ساتھ بیان کرتے ہوئے نفرت کے الاؤ کو بجھنے نہ دیا جائے۔ دوسرا زاویۂ نگاہ یہ ہے کہ تاریخی واقعات سے عبرت کشید کرتے ہوئے حال کی صورت گری کی جائے۔ اختلاف کو تاریخ کی امانت کے طور پر کتابوں میں محفوظ رکھا جائے اور اس سے حاصل اسباق کی روشنی میں اپنے عہد کو سنوارا جائے۔ ان تصاویر کو دیکھ کر مجھے یہ لگا کہ اس یونیورسٹی میں دوسرا راستہ اختیار کیا گیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ نئی نسل کی تربیت کا درست منہج یہی ہے۔
یہ معلوم ہے کہ باچا خان تقسیمِ ہند کے خلاف تھے۔ قائداعظم اس کے حق میں تھے۔ تاریخ نے دونوں کے دلائل کو محفوظ کر دیا ہے۔ برصغیر کے مسلم عوام کی اکثریت نے قائداعظم کی تائید کی اور تقسیمِ ہند واقعہ بن گیا۔ پاکستان اب ایک حقیقت ہے۔ ہمیں اس کو مان کر آگے بڑھنا ہے۔ ماضی سے ہم یوں فائدہ اٹھا سکتے کہ اپنے بزرگوں کی وراثت کے مثبت پہلوئوں کو قبول کرتے ہوئے‘ انہیں اپنے حال کا حصہ بنا دیں۔
سیاسی اختلاف سے قطع نظر‘ قائداعظم اور عبدالغفار خان دو علامتیں ہیں۔ دونوں شخصیات سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ قائداعظم سیاست میں آئینی جدوجہد اور دیانت کا استعارہ ہیں۔ انہوں نے اپنے طرزِ عمل سے یہ بتایا ہے کہ سیاسی اہداف کے حصول کے لیے آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے بھی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ پاکستان بننے کے بعد قائداعظم کی یہ خواہش تھی کہ ماضی کی تلخیاں‘ حال کا حصہ نہ بنیں۔ اسی لیے انہوں نے بھارت اور پاکستان کے تعلقات کو اس نہج پر آگے بڑھانا چاہا جس پر امریکہ اور کینیڈا کے تعلقات استوار ہیں۔ اگر وہ بھارت کے ساتھ ایسے تعلقات چاہتے تھے تو وہ یہ کیسے پسند کر سکتے تھے کہ پاکستان کے اندر بسنے والے ماضی کی تلخی کو سینے سے لگائے رکھیں۔دوسری طرف باچا خان سماجی تبدیلی کا استعارہ ہیں۔ انہوں نے عدم تشدد اور خدمت کی بنیاد پر اپنی قوم کی تعمیر کرنا چاہی۔ وہ خدائی خدمت گار تھے۔ انہوں نے تعلیم کی بات کی۔ باچا خان کی اولاد نے بھی اسی پاکستان کو اپنا ملک جانا۔ اس کے بنائو اور بگاڑ میں ان کا اتنا ہی حصہ ہے جتنا مسلم لیگ یا کسی دوسری جماعت کا۔
اقتدار کی سیاست کی اپنی حرکیات ہیں۔ مسلم تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے جب اس امت کے اعلیٰ ترین افراد نے سیاسی معاملات میں ایک دوسرے سے اختلاف کیا‘ یہاں تک کہ معاملہ مسلح جنگوں تک جا پہنچا۔ آج لیکن ہم اس تاریخ کو اپنا ورثہ کہتے اور اسے قبول کرتے ہیں۔ یہی معاملہ علم کی دنیا کا بھی ہے۔ علمی اختلاف کی بنیاد پر مستقل مکتب ہائے فکر وجود میں آئے۔ آج ہم کسی ایک کو ترجیح دیتے ہیں لیکن دوسروں کو بھی درست مانتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ماضی قریب کے بارے میں یہی رویہ اپنایا جائے۔
اس معاملے میں اہلِ دیوبند ایک اچھی مثال ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کو جمعیت علمائے ہند کا تسلسل سمجھا جاتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن خود کو مولانا محمود حسن اور مولانا حسین احمد مدنی کی روایت کا امین قرار دیتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے بھی ان کے نقطہ نظر کو درست سمجھتے ہیں۔ اس کے باوصف وہ اور ان کی آل اولاد اسی طرح پاکستانی ہیں جیسے کوئی مسلم لیگی پاکستانی ہو سکتا ہے۔ اگر پاکستان برصغیر کی مسلم روایت کا امین ہے‘ اور یہ بات درست ہے کہ پاکستان اسی دن بن گیا تھا جب یہاں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا‘ تو پھر پاکستان بننے سے پہلے کی روایت کو‘ اس کے تمام تر تنوع کے ساتھ‘ ہمیں اپنی روایت سمجھ کر قبول کر نا چاہیے۔
اس میں شبہ نہیں کہ خان عبدالغفار خان کے خاندان اور پاکستانی حکومت کے مابین تلخیوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ میں اسے اقتدار کی سیاست کا ایک حصہ سمجھتا ہوں۔ یہاں سب ایک دوسرے کو غدار قرار دے چکے ہیں۔ اس کے باوجود 'قومی مفاد‘ میں مل بیٹھتے ہیں۔ دودن پہلے گنڈاپورصاحب اسلام آباد پر چڑھائی کر رہے تھے۔ ابھی موٹروے کے گڑھے اور الفاظ کے زخم بھرے نہیں کہ مرکز نے جرگے سے مذاکرات کے لیے انہیں اپنا نمائندہ مقرر کر دیا۔ اقتدار کی سیاست اسی طرح آگے بڑھتی ہے۔
خیبرپختونخوا کے پختونوں میں باچا خان کے اثرات سے انکار ممکن نہیں‘ اگرچہ ان کے افکار سے وابستگی کے عملی مظاہر کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔ وہاں کے کلچر میں آج بھی بندوق فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ اگر باچا خان سے جذباتی وابستگی کے ساتھ‘ ان کی بات کو بھی مانا جاتا تو پھر بندوق کے بجائے محبت اور ایثارکی حکمرانی ہوتی۔ تشدد کا کہیں گزر نہ ہو تا۔ باچا خان کی شخصیت کا یہ پہلو کہ وہ عدم تشدد کے علم بردار تھے‘ نئی نسل کو پڑھانا چاہیے تاکہ معاملات کو مکالمے سے حل کرنے کا ہنرعام ہو۔
باچا خان یونیورسٹی کے ہال میں بیٹھا میں سوچ رہا تھا کہ کیا کسی جامعہ کے ہال میں علامہ اقبال اور مولانا حسین احمد مدنی کی تصاویر ایک ساتھ لگائی جا سکتی ہیں؟ کیا قائداعظم اور مولانا ابوالکلام آزاد کی تصاویر بھی ساتھ ساتھ آویزاں ہو سکتی ہیں؟ کیا قائداعظم اور مولانا مودودی کو بھی اسی طرح ہم قبول کر سکتے ہیں؟ کے پی میں باچا خان کے ساتھ ان کے صاحبزادے عبدالولی خان کے نام پر بھی ایک یونیورسٹی ہے۔ کیا اسی طرح تاریخ کی دوسری نامور شخصیات کے ناموں پر ادارے نہیں بن سکتے؟
ہمیں ماضی کو حال سے الگ کر کے دیکھنا ہو گا۔ پاکستان اس خطے میں مسلم تہذیب کا نمائندہ ہے۔ اس کے قیام کی بنیادی غرض ہی یہ تھی کہ مسلمانوں اور مسلم تہذیب کو پھلنے پھولنے کے لیے ایک سازگار ماحول میسر آئے۔ اگر اکثریت کی نظر میں‘ متحدہ ہندوستان میں اس کے امکانات روشن ہوتے تو شاید تقسیم کی نوبت نہ آتی۔ قیامِ پاکستان کے مقصد کو سامنے رکھا جائے تو ہمیں مسلم تہذیب کے ان مظاہر کو قبول کرنا ہو گا جن کا تعلق متحدہ ہندوستان سے ہے۔ ان مظاہر میں وہ سب شخصیات شامل ہیں‘ جن کا ابھی ذکر ہوا۔
باچا خان یونیورسٹی کی اس تقریب میں ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب نے طلبہ وطالبات کو بتایا کہ وہ قائداعظم کی شخصیت سے کیا سیکھ سکتے ہیں اور باچاخان کی زندگی میں ان کے لیے کیا سبق ہے۔ میں ہال میں بیٹھا خیالی گھوڑے دوڑاتا رہا کہ کیسے پاکستان برصغیر کی تہذیبی روایت کا امانت دار بن سکتا ہے۔ کیسے ماضی ا ور حال کو ایک سلسلے میں پرویا جا سکتا ہے؟ کیسے ماضی سے نکل کر حال میں قدم رکھا جا سکتا ہے؟