شہر یا تو قرطبہ جیسا ہو یا پھر پراگ‘ بوداا پسٹ اور ویانا جیسا ہو تو الگ بات ہے وگرنہ اکثر شہر اب ایک جیسے ہو چکے ہیں۔ تھوڑی بہت مختلف اشکال پر مشتمل بلند و بالا عمارتیں‘ پُرہجوم سڑکیں اور ایک جیسی بنیادی شکل و صورت کے مکانات۔ بہت کم شہر ہیں جن میں کچھ نیا پن ہے اور مزے کی بات ہے کہ ان شہروں کا سارا نیا پن دراصل ان کی قدامت میں پوشیدہ ہے۔ یہ مسافر شہروں میں جاتا تو ہے کہ ان سے مفر ممکن نہیں مگر اسے سدا سے ویرانے‘ جنگل‘ پہاڑ‘ ندی نالے اور زمانۂ قدیم کی نشانیاں آواز دیتی ہیں۔ کچھ مختلف دیکھنے کی لگن اور ہجوم سے نکلنے کی دھن سر پر سوار رہتی ہے۔ آسٹریلیا میں چند روز بیٹی کے پاس گزارنے کے بعد سامان اٹھایا اور اپنے جیسے ایک اور سیلانی کے ساتھ کچھ نیا دیکھنے کی ٹھرک پوری کرنے چل پڑا۔ سفر ویسے بھی کوئی آرام دہ شے نہیں ہے اور اگر ہمراہی ہم خیال نہ ہو تو مسافر کیلئے فرحت کے بجائے کوفت کا باعث بن جاتا ہے۔ جس کے دل میں شوقِ سفر کا بسیرا اور طبیعت میں مسافرت کا جنون نہ ہو اسے سفر میں ہمراہی بنانے سے بہتر ہے بندہ اکیلے سفر کر لے۔ برطانیہ میں بابر ہے جس کے ساتھ یہ مسافر سفر کی کلفت سے محفوظ رہتے ہوئے سفر سے لطف لیتا ہے اور ادھر آسٹریلیا میں ڈاکٹر تصور اسلم ایسا ہم سفر ملا ہے جس کے ساتھ اس خانہ بدوش نے سفر کا مزہ لیا ہے۔ ہم خیال دوست کے بارے میں عمیر نجمی کا شعر ہے:
ملتے ہیں مشکلوں سے یہاں ہم خیال لوگ
اے دوست تیرے چاہنے والوں کی خیر ہو
ہم سفر اگر اندر سے سیلانی طبیعت کا نہ ہو تو وہ سراسر بوجھ ہے اور بھلا سفر میں بوجھ اٹھانا کون سا آسان کام ہے۔
سفر میں بوجھ اٹھانا محال تھا‘ سو ہم
تمام خواب تمہارے ہی پاس چھوڑ آئے
برسبین میں دو روز بمشکل ہی گزارے اور جہاز پکڑ کر آسٹریلیا کے شمال مشرقی کونے کے قریب واقع چھوٹے سے شہر کینز (Cairns) پہنچ گئے۔ کینز دنیا کے ایک قدرتی عجوبے کا داخلی دروازہ ہے۔ آسٹریلیا کے شمال مشرقی ساحل سے تھوڑا ہٹ کر دنیا کا سب سے بڑا کورل ریف ہے۔ یہ گریٹ بیریئر ریف (Great Barrier Reef) ہے۔ قدرت کا شاہکار یہ عجوبہ 1977ء میں سی این این کی جانب سے بنائی گئی سات قدرتی عجائباتِ عالم کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔
جس طرح براعظم افریقہ بحر اوقیانوس اور بحر ہند کے درمیان حدِ فاصل اور براعظم شمالی و جنوبی امریکہ بحر اوقیانوس اور بحرالکاہل کے درمیان حدِ فاصل ہے‘ اسی طرح آسٹریلیا بھی بحر ہند اور بحرالکاہل کے مابین حدِ فاصل ہے۔ آسٹریلیا کے مغرب میں بحر ہند ہے اور مشرق میں دنیا کا سب سے بڑا سمندر بحرالکاہل ہے۔ آسٹریلیا کے شمال مشرقی کونے پر بحرالکاہل کے اندر ایک اور فرضی سمندر تصور کرتے ہوئے اسے بحیرہ کورل (Coral Sea) کا نام دیا گیا ہے۔ کورل دراصل سنگِ مرجان سے تشکیل پانے والی وہ چٹانی ترتیب ہے جسے سمندر میں رہنے والے نہایت ہی چھوٹے جاندار جنہیں ''Coral Polyps‘‘ کہا جاتا ہے‘ تعمیر کرتے ہیں۔
ایمانداری کی بات ہے کہ میں نے بہت کوشش کی کہ کورل ریف کا کوئی آسان فہم اردو ترجمہ تلاش کر لوں مگر یہ ترجمہ بذاتِ خود اتنا مشکل ہے کہ اس کا مزید ترجمہ کرنے کی ضرورت ہے مگر فی الحال یہ نالائق لکھاری اس صلاحیت سے عاری ہے اور اس کا یک لفظی ترجمہ کرنے میں سراسر ناکام ہے۔ انگریزی اردو لغت کے مطابق اگر گریٹ بیریئر ریف کا ترجمہ کروں تو اسے ''عظیم سدِ مرجان‘‘ کہا جا سکتا ہے مگر یہ ترجمہ عملی طور پر بالکل بیکار ہے کہ بلا وضاحت اس ترجمے کو سمجھنا بھی کارِ دارد ہے۔
ریف مونگے اور مرجان کے تشکیل کردہ اُس خوبصورت چٹانی سلسلے کو کہا جاتا ہے جو سمندر کے نیچے ایک چھوٹا سا جاندار صدیوں کی محنت سے تعمیر کرتا ہے۔ مونگے اور مرجان کا یہ چٹانی سلسلہ کیا ہے؟ یہ خوبصورت اور حسین پتھریلی چٹانوں کا میل ہا میل تک پھیلا ہوا چمن زار ہے جو اپنی رنگینی اور تابناکی میں اپنی مثال آپ ہے۔ ایسے غیرمعمولی ڈیزائن اور ایسے انوکھے پیٹرن کہ آنکھیں حیران اور عقل دنگ رہ جائے۔ تنوع ایسا کہ ایک ہی مادے سے بنائے گئے مرجانی سلسلے میں بے شمار رنگ اور اَن گنت نمونے ہیں جو اپنی ہیئت ترکیبی اور شکل میں ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ پانی کے نیچے رنگ و نور کا ایسا گلستان پوشیدہ ہے جسے انسانی آنکھ محسوس تو کر سکتی ہے مگر اسے لفظوں میں بیان کرنا کسی بڑے سے بڑے لسان العصر کے لیے بھی ممکن نہیں‘ یہ عاجز بھلا کس کھیت کی مولی ہے۔
جس جگہ ہماری رہائش تھی وہاں سے چند منٹ کے فاصلے پر ہی اُن سٹیمروں اور چھوٹے جہازوں کا سمندری ٹرمینل تھا جہاں سے اندر سمندر میں 50سے 100کلو میٹر کے فاصلے پر سلسلہ ہائے سنگ مونگا و مرجان کا آغاز ہوتا ہے۔ میں اور ڈاکٹر تصور اسلم علی الصباح ادھر روانہ ہو گئے تاکہ بروقت گریٹ بیریئر ریف کی جانب جانے والے اپنے بجرے پر سوار ہو سکیں۔ ایک دنیا تھی جو اس عجوبۂ عالم کو دیکھنے کیلئے دنیا بھر سے اس چھوٹے سے شہر میں آئی ہوئی تھی۔
اس مونگے و مرجان کے رنگین سلسلے کی وسعت اور نیرنگی ایسی حیران کن ہے کہ عقل اس چھوٹے سے جاندار کی صناعی پر دنگ رہ جاتی ہے۔ خوردبینی مخلوق نے ایسی وسیع و عریض سلطنت قائم کی ہے جو اوپر خلا سے بھی دکھائی دیتی ہے اور بھلا کیسے دکھائی نہ دے؟ اس عظیم مجموعہ ہائے سنگِ مرجان میں تین ہزارسے زائد منفرد چٹانی سلسلے ہیں جن میں نو سو کے لگ بھگ جزیرے ہیں۔ دنیا کے اس سب سے بڑے کورل ریف کا رقبہ 23 ہزار مربع کلو میٹر سے زیادہ ہے جو سمندر کے تقریباً تین لاکھ 44 ہزار مربع کلو میٹر علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ اس کی وسعت کا اندازہ آپ اس بات سے لگالیں کہ صوبہ پنجاب کا کل رقبہ دو لاکھ پانچ ہزار 344مربع کلو میٹر ہے۔ پنجاب سے ڈیڑھ گنا زیادہ وسیع ان مرجانی چٹانوں کو اربوں کھربوں خوردبینی جانداروں نے صدیوں میں تشکیل دیا ہے۔ اس نادر قدرتی عجوبے کو اقوام متحدہ نے 1981ء سے ورلڈ ہیریٹیج سائٹ قرار دیتے ہوئے عالمی ورثے کا درجہ دے رکھا ہے۔
پونے دو گھنٹے تک مسلسل نیلگوں سمندر میں سفر کرنے کے بعد ہمارا بجرا ایک ایسی جگہ رک گیا جہاں تاحدِ نظر سمندر زہر مہرے رنگ کا ہو چکا تھا۔ فنِ تیراکی سے مکمل نابلد یہ مسافر جب لائف جیکٹ‘ آنکھوں پر حفاظتی عینک اور سنورکلنگ پائپ منہ میں دبا کر بجرے کے عقبی ڈیک سے سمندر میں چھلانگ لگانے لگا تو وہاں موجود لائف گارڈ نے پوچھا کہ آپ کو تیرنا آتا ہے؟ میں نے کہا: اگر تیرنا آتا تو کیا یہ لائف جیکٹ پہنتا؟ اس نے پوچھا کہ پہلے کبھی سنورکلنگ کی ہے؟ میں نے کہا: بندہ ہر کام کبھی نہ کبھی تو پہلی بار کرتا ہی ہے۔ آج میں بھی یہ کام پہلی بار کر رہا ہوں۔ یہ کہہ کر میں نے سمندر میں چھلانگ لگا دی۔ لائف گارڈ نے بھی میرے پیچھے چھلانگ لگا دی۔ آنکھوں پر چڑھی حفاظتی عینک اور سنور کلنگ پائپ کے ذریعے منہ سمندر کے پانی میں ڈالا تو نیچے ایک ایسی دنیا تھی جس کا تصور بھی محال تھا۔ مونگے و مرجان کی چٹانوں سے ترتیب پائی ہوئی ایک ایسی رنگین دنیا زیرِ آب تھی کہ ایسے رنگ اس مسافر نے کبھی زمین پر نہیں دیکھے تھے۔ اسے سنگی گلستان کہوں یا رنگوں کی کہکشاں کہوں‘ سچ تو یہ ہے کہ لفظ اس حسن کے سامنے کسی عاجز کی طرح ہاتھ باندھے کھڑے تھے اور اظہار سے قاصر تھے۔ رنگ و حسن کی ایسی قوسِ قزح اس مسافر کے دل و دماغ پر ایسے نقش ہے کہ تازندگی انگریزی محاورے ''A thing of beauty is a joy for ever‘‘ کی عملی صورت بن کر اس مسافر کی یادوں کا حصہ رہے گی۔