تارکینِ وطن کی پسندیدہ جماعت عام طور پر ڈیموکریٹک پارٹی ہوتی ہے‘ کیونکہ اُن کی پالیسی تارکینِ وطن کیلئے نسبتاً نرم ہوتی ہے۔ امریکہ دراصل تارکینِ وطن پر احسان نہیں کرتا بلکہ وہ ساری دنیا سے جوہرِ قابل کو خریدتا ہے اور اُسے اپنے ملک کی سائنسی اور فنی ترقی کیلئے استعمال کرتا ہے‘ یہ لوگ اُن کے تحقیقی اداروں میں کام کرتے ہیں۔ پاکستانی تارکینِ وطن بالعموم منقسم رہتے ہیں‘ ملکی سیاسی جماعتوں کے مزارعین کے طور پر اُن کے نعرے لگاتے ہیں‘ مسلکی بنیاد پر بھی منقسم رہتے ہیں‘ اس لیے سیاسی جماعتوں میں اُن کی اہمیت بھارتی تارکینِ وطن جیسی نہیں ہوتی۔ کثیر الممالک صنعتی اور کاروباری اداروں میں بھارتی ماہرین بڑی تعداد میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں‘ وہ وائٹ ہائوس کی بیورو کریسی میں بھی شامل رہتے اور نفوذ رکھتے ہیں۔
اس سال کے انتخابات میں تارکینِ وطن‘ خاص طور پر مسلم ووٹروں کیلئے فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے‘ یہ صورتحال ''آگے کھائی اور پیچھے شیر‘‘ کی مانند ہے۔ مسلمان ووٹر بائیڈن کی ظالمانہ اسرائیل نواز پالیسی سے متنفر ہیں‘ لیکن اسرائیل نوازی میں ٹرمپ ان سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔ ڈیمو کریٹس کی پالیسی اگرچہ تارکینِ وطن کیلئے کسی حد تک نرم ہوتی ہے‘ لیکن بائیڈن کی معاشی پالیسیوں‘ یوکرین جنگ کی آگ کو بھڑکانے اور دیگر اقدامات نے کاروباری طبقے کو نقصان پہنچایا‘ ملازمتوں کے مواقع محدود ہوئے ہیں‘ مہنگائی ریکارڈ سطح تک بڑھی ہے‘ یہی حال شرحِ سود کا ہے۔ اس کے برعکس ٹرمپ کے پچھلے دورِ صدارت کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے معیشت کے حوالے سے لوگوں کی اُن سے توقعات زیادہ ہیں۔ ریپبلکن پارٹی سرمایہ داروں کی نمائندہ جماعت ہے اور اُن کا فلسفہ ہے کہ سرمایہ داروں کو ٹیکس میں مراعات دی جائیں‘ کیونکہ وہ لوگوں کو روزگار فراہم کرتے ہیں‘ معیشت کے پہیے کو رواں دواں رکھتے ہیں اور ریاست کو بڑی مقدار میں ٹیکس دیتے ہیں‘ ٹرمپ اُن کا حقیقی نمائندہ ہے۔
یوکرین کی جنگ نے بلاشبہ روس کو بڑا دھچکا دیا ہے‘ پیوٹن کیلئے یہ مہم جوئی مہنگی پڑی ہے اور اسے اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ امریکہ یوکرین کی پشت پر کھڑا ہے‘ نیز نیٹو ممالک کو بھی ایک ڈوری میں باندھ کر روس کے خلاف کھڑا کر دیا ہے‘ لیکن یورپی ممالک کو بھی اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے‘ مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح کو چُھورہی ہے۔ انہیں روس سے سستا ایندھن مل رہا تھا‘ روس پر تجارتی پابندیوں کے سبب یہ سب چیزیں حتیٰ کہ گندم اور اشیائے خوراک بھی اُن کیلئے مہنگی ہو گئی ہیں۔ حال ہی میں برٹش ہائی کمیشن اسلام آباد کی پولیٹکل کونسلر زی ویئر (Zoe Ware) سے ہماری ملاقات ہوئی‘ ہم نے اُن سے کہا ''پورا یورپ اپنی انا کو بھول چکا ہے‘ امریکہ کا تابعِ مُہمَل ہے‘ لگتا ہے کہ عالمی مسائل پر یورپ کا اپنا کوئی نقطۂ نظر ہے ہی نہیں‘ امریکہ سے جو حکم صادر ہوتا ہے‘ یورپ آنکھیں بند کرکے اس پر عمل پیرا ہو جاتا ہے۔ نیز موجودہ عالمی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ حکمران ہیں‘ سیاستدان ہیں‘ قائدین ہیں‘ لیکن مدبِّرین کا فقدان ہے اور مدبرین کا طبقہ ہی دنیا کو بحران سے نکال سکتا ہے۔ عملی (Defacto) صورتحال یہ ہے کہ امریکہ واحد سپر پاور ہے‘ مگر اس کے پاس دنیا کے کسی بحران کو حل کرنے کی صلاحیت اور عزم کا فقدان ہے‘ فلسطین اور یوکرین کا بحران اس کا واضح ثبوت ہے۔ بلاشبہ چین ایک ابھرتی ہوئی معاشی قوت ہے‘ دنیا کی بڑی معیشتوں میں اس کا دوسرا نمبر ہے‘ لیکن وہ کسی جنگ میں الجھنے اور امریکہ کے زیرِ قیادت مغربی طاقتوں سے تصادم کیلئے بالکل تیار نہیں ہے‘ کیونکہ اس کی معاشی ترقی کا انحصار یورپ اور امریکہ کی منڈیوں پر ہے‘ نیز ابھی وہ سائنسی ترقی اور اعلیٰ درجے کی ٹیکنالوجی میں امریکہ کا ہمسر نہیں ہے۔ امریکہ کو گلہ یہی ہے کہ ہم اربوں ڈالر خرچ کر کے تحقیقات کرتے ہیں‘ جدید ترین ایجادات کرتے ہیں‘ حربی اسلحہ بناتے ہیں‘ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کو آسمان کی بلندیوں پر لے جاتے ہیں اور چین تحقیقات پر پیسہ خرچ کیے بغیر اس کی نقل کر لیتا ہے‘ نقل کرنے میں چینی باکمال ہیں۔ بلاشبہ پاکستانی تارکینِ وطن نے یورپ‘ امریکہ‘ کینیڈا اور آسٹریلیا سمیت دیگر ممالک میں بہت ترقی کی ہے‘ معاشی لحاظ سے مستحکم ہیں‘ میڈیکل اور آئی ٹی کے شعبے میں بعض اعلیٰ کارکردگی دکھا رہے ہیں۔ جب ہمارے تارکینِ وطن اعلیٰ برانڈ کی گاڑیوں میں گھومتے ہیں‘ اعلیٰ مکانات میں رہتے ہیں تو بعض سفید فام بھی انہیں رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ایک طرح سے اُن میں احساسِ محرومی پیدا ہوتا ہے اور اسی احساسِ محرومی کو نسلی عصبیت میں ڈھال کر بعض نسل پرست گروہ سیاسی میدان میں اپنے لیے گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن تاحال اقتدار تک اُن کی رسائی نہیں ہوئی‘ کیونکہ مغربی معاشرہ متنوع ہے اور اُن کی ترقی کا راز اسی میں مضمر ہے۔ تھوڑی دیر کیلئے تارکینِ وطن کی نفی کر دی جائے تو اُن کی معیشت کی بلند وبالا عمارت دھڑام سے گر جائے۔ لہٰذا امریکہ اور مغربی ممالک میں تارکینِ وطن کیلئے مواقع پیدا ہوتے رہیں گے‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے ملک میں ہر شعبے میں عالمی معیار کے ماہرین تیار کیے جائیں‘ اُن کی طلب ہر جگہ موجود ہے۔
میں اپنے خطابات میں پاکستانی برادری کے لوگوں سے کہتا رہتا ہوں: آپ پاکستان سے آتے ہوئے ساری خرابیوں کو ٹرنک میں ڈال کریہاں لے آئے اور آج تک اُنہیں سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ ان ترقی یافتہ ممالک نے آپ کو آسائشیں‘ راحتیں اور ترقیاں تو بہت دی ہیں‘ لیکن ذہنی ارتقا نہیں ہو سکا‘ ابھی تک آپ اُسی دینی اور سیاسی ماحول میں جی رہے ہیں۔ نعت خوانوں اور قوالوں کو‘ مغنّیوں اور رقاصوں کی سطح پر لاکر اُن پر نوٹ نچھاور کرنے کا شعار اب بھی اپنائے ہوئے ہیں‘ جعلی عاملوں کے حصار میں رہتے ہیں۔ بیعت وارشاد سے بھی وابستہ ہونا ہو تو صاحبانِ علم‘ صاحبانِ ورع وتقویٰ اور صاحبانِ کردار اور مصلحین آپ کی ترجیح نہیں ہوتے۔ اس لیے یہاں بھی اصلاحی تحریک برپا کرنے کی ضرورت ہے۔
ٹینیسی سٹیٹ میں ڈاکٹر شہرام ملک اور ان کی اہلیہ دونوں ڈاکٹر ہیں‘ وہ ہمارے مہربان ہیں‘ جب بھی امریکہ جانا ہوتا ہے‘ اُن کے ہاں ضرور ایک طویل نشست ہوتی ہے‘ اُس میں شعبۂ طب‘ آئی ٹی اور تعلیم سے وابستہ خاندان مدعو کیے جاتے ہیں‘ اُن کے ساتھ سوال وجواب کی نشست ہوتی ہے۔ یہ مجلس دوطرفہ طور پر مفید ہوتی ہے‘ فریقین کو اِفادہ و استفادہ ہوتا ہے‘ ہم اُن کے علم سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور دینی معلومات فراہم کرنے میں اُن کی خدمت بجا لاتے ہیں۔ ہمارے ہاں نئی نسل میں لباس‘ وضع قطع‘ نشست وبرخاست اور بول چال میں مغرب زدہ ہونے کا رجحان واضح ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا سبب ذہنی مرعوبیت اور لاشعور میں احساسِ کہتری ہے‘ یعنی ہم تہذیب وثقافت کے اعتبار سے ایک مخلوط (Hybrid) نسل تیار کر رہے ہیں۔ لیکن وہاں جو حضرات وخواتین اور نوجوان نسل کے لوگ دین کے قریب ہیں‘ وہ یہاں کے مقابلے میں نہایت قابلِ قدر اور قابلِ تحسین ہیں۔ اُن پر مرعوبیت کے آسیب کا سایہ بھی نہیں ہوتا‘ خود اعتمادی ہوتی ہے‘ خودداری ہوتی ہے اور اپنے دین وایمان اور تہذیب وثقافت کی نفاست پر یقینِ کامل ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے چین نے آبادی کے دبائو سے نکلنے کیلئے ایک بچہ پیدا کرنے کی جو تحریک شروع کی تھی‘ اب وہ اُن کی فطرتِ ثانیہ بن گئی ہے۔ بھارت آبادی میں چین سے آگے نکل گیا ہے‘ اوسَط عمر میں اضافے کی وجہ سے مغرب اور چین میں عمر رسیدہ لوگوں کی کثرت ہوتی جا رہی ہے اور نوجوان آبادی کی قلت کا مسئلہ درپیش ہے۔ اب چین بھی اپنی صنعتوں کیلئے بیرونِ ملک مواقع کی تلاش میں ہے‘ لیکن ظاہر ہے کہ اس کیلئے سرمائے اورجان ومال کے تحفظ کی خاطر آئینی اور قانونی ضمانتیں اور نظام میں استحکام درکار ہوتا ہے۔ پاکستان کو اپنے داخلی استحکام پر توجہ دینے اورحاکم کے قانون کے بجائے قانون کی حاکمیت قائم کرنے کی ضرورت ہے‘ لیکن یہ محض طفل تسلیوں اور دعووں پر مبنی نہ ہو‘ بلکہ نظر بھی آنی چاہیے۔