"JDC" (space) message & send to 7575

شام میں ناکام بغاوت

دمشق میری اولین سفارتی پوسٹنگ تھی اور اس اعتبار سے مجھے شام کے حالات سے ہمیشہ دلچسپی رہی ہے۔ گزشتہ دسمبر جب بشار الاسد کی طویل حکومت آناً فاناً ختم ہوئی تو یہ امر سب کے لیے حیران کن تھا۔ اسد فیملی نے پچاس سال سے زائد شام پر حکومت کی اور پھر چند روز میں اس کا تختہ الٹ گیا۔ نئی لیڈر شپ ہیئۃ تحریر الشام کے قائد احمد الشرع پر الزام لگا کہ وہ القاعدہ اور داعش کے قریب رہا ہے۔ البتہ اس نے حکومت سنبھالنے کے بعد اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی اور بڑی حد تک اس میں کامیاب رہا۔
جہاں طویل اور مضبوط حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے تو نئی لیڈر شپ کو پائوں جمانے میں وقت لگتا ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ نئی قیادت کے خلاف معکوس انقلاب یعنی Counter Coup کرنے کی سنجیدہ کوشش بھی ہوتی ہے یہی کچھ شام میں بھی ہوا لیکن اس بغاوت پر چار دنوں میں قابو پا لیا گیا اور اس دوران تقریباً ایک ہزار لوگ جان سے گئے۔
میرا شام میں چند دوستوں سے سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کے بیانیے مختلف ہوتے ہیں۔ دمشق شہر میں موجود میرے دوست کا کہنا ہے کہ یہ باقاعدہ ایک بین الاقوامی سازش تھی جو شام کی نئی حکومت کے خلاف کی گئی۔بقول اُن کے حزب اللہ کے لیڈر حسن نصراللہ کے جنازے میں آنے والے متعدد ایرانی اور عراقی سمندر کے راستے لاذقیہ اور طرطوس آئے۔ یہ دو ساحلی شہر سابق صدر بشار الاسد کے حامیوں کی خاصی بڑی تعداد رکھتے ہیں اور اس علاقے کی اکثریت علوی عقیدے سے تعلق رکھتی ہے۔ ترکیہ کی حکومت کو سازش کا علم ہو گیا اور اس نے دمشق میں نئی حکومت کیلئے اپنی سپورٹ کا برملا اظہار کیا۔ شنید ہے کہ ترک ایئر فورس کے طیارے بھی شامی فضا میں دیکھے گئے۔ بغاوت کی ناکامی کے بعد میرے دمشق والے دوست کی خوشی دیدنی ہے۔ میرے دوسرے شامی دوست کا تعلق ترکیہ کے قریب شمالی علاقے سے ہے۔ یہاں کی آبادی ملی جلی ہے لیکن کرد بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ اکثر کرد ترکیہ کے متعلق منفی جذبات رکھتے ہیں۔ میرے یہ دوست بھی کرد نسل کے شامی ہیں اور سوچ کے اعتبار سے مکمل طور پر سیکولر ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ ہیئۃ تحریر الشام کے لوگ بشمول احمد الشرع دہشت گرد ہیں اور سوچ میں افغان طالبان کے خاصے قریب ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ انتہا پسند سوچ رکھنے والوں کو شام پر حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں ہونا چاہیے۔
چار دن میں ایک ہزار جانوں کا ضیاع معمولی بات نہیں۔ دمشق حکومت کا کہنا ہے کہ آرمی اور سکیورٹی فورسز پر حملے بشار الاسد کے حامیوں نے شروع کیے اور ان کا خیال تھا کہ حکومت نئی ہے‘ اس کے پائوں بھی نہیں جمے لہٰذا اسے آسانی سے اقتدار سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب کا بیانیہ بالکل مختلف ہے کہ حکومتی فوجیوں نے بے گناہ عورتوں‘ بچوں اور بوڑھوں کو سفاکانہ طریقے سے مارا۔ کون صحیح ہے اور کون غلط‘ میرے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے۔
شام ایک شاندار تاریخ کا حامل ملک ہے۔ یہاں کی امیہ مسجد میں حضرت یحییٰ بن زکریا علیہ السلام مدفون ہیں۔ مسجد کے دوسرے کونے میں سلطان صلاح الدین ایوبی کا مقبرہ ہے۔ دمشق سے کوئی تیس کلو میٹر کے فاصلے پر حضرت ہابیل کی قبر ہے۔ دمشق کے مضافات میں ایک جگہ ہے جسے اربعین کہتے ہیں۔ روایت ہے کہ اس مقام پر چالیس پیغمبروں نے مختلف اوقات میں عبادت کی۔ لیکن دمشق میں جو مزار مرجع خاص و عام ہے وہ حضرت بی بی زینبؓ کا مزار ہے۔ یہ عظیم خاتون ہمارے نبیﷺ کی نواسی ہیں اور واقعہ کربلا کے بعد جرأت‘ بلاغت‘ صبر اور راست گوئی کی علامت بن گئیں۔ یزید کے دربار میں کلمۂ حق کہا۔
دمشق دنیا بھر میں مسلسل قائم رہنے والا قدیم ترین دارالحکومت ہے۔ جب محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ کیا تو دمشق ہی سلطنت امیہ کا دارالخلافہ تھا۔ دنیا کا قدیم ترین اِن ڈور ہسپتال دمشق میں قائم ہوا‘ اسے بیمارستان کہا جاتا تھا۔ دنیا کے قدیم ترین چرچ شام میں ہیں۔ سینٹ پال کو دمشق میں قید رکھا گیا۔ اللہ تعالیٰ کے آخری نبیﷺ اپنے بچپن میں شام ایک تجارتی قافلے کے ساتھ آئے۔ یہ ملک صدیوں سے انٹرنیشنل تجارتی روٹ پر ہے۔ شام کے لوگ کامیاب تاجر اور صنعتکار مانے جاتے ہیں۔ عالمی شہرت کے آئی ٹی صنعتکار اور ایپل کے بانی سٹیو جابز کے والد کا تعلق شام سے تھا۔
چند روز قبل شام میں ایک اور اہم پیشرفت ہوئی۔ 10مارچ کو سیرین ڈیمو کریٹک فورسز (SDF) کے لیڈر مظلوم عبدی نے صدر احمد الشرع سے تحریری معاہدہ کیا ہے۔ ایس ڈی ایف شام کے شمالی علاقوں میں قائم کرد ملیشیا ہے‘ جو امریکہ کی چھتری تلے داعش سے برسرپیکار رہی ہے۔ حکومت نے اس ملیشیا کے جنگجوئوں کو اپنی فوج میں ضم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ بدلے میں دمشق حکومت شمالی علاقے کو قدرے خود مختاری اور کلچرل شناخت دے گی۔
ابھی تک یہ بات واضح نہیں تھی کہ امریکی حکومت نئی شامی قیادت کی سپورٹ کرے گی یا نہیں۔ امریکہ کا کردار اس لیے بھی اہم ہے کہ شام پر اب تک اقتصادی پابندیاں عائد ہیں۔ جب دسمبر میں بشار الاسد کی حکومت ختم ہوئی تو ہیئۃ تحریر الشام کے احمد الشرع امریکی حکومت کی دہشت گردوں کی لسٹ میں شامل تھے۔ ان کے سر کی قیمت بھی رکھی گئی تھی جو بائیڈن حکومت نے اپنے آخری دنوں میں ختم کردی تھی۔ امریکہ میں صدر ٹرمپ نے عنانِ اقتدار سنبھالی تو یہ واضح نہیں تھا کہ ان کا رویہ شامی قیادت کے ساتھ کیا ہوگا اور شام پر لگائی گئی اقتصادی پابندیاں کب ختم ہوں گی۔ اب ایس ڈی ایف جیسی امریکہ نواز ملیشیا کا دمشق حکومت سے معاہدہ ہونا اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ معاملات طے پا گئے ہیں۔ ترکیہ میں بھی کردوں اور حکومت کے مابین معاملات طے پا رہے ہیں۔ احمد الشرع اور مظلوم عبدی کے مابین معاہدے سے شام کی تقسیم کا خطرہ بھی ٹل گیا ہے کیونکہ کرد تنظیم دمشق حکومت کا حصہ بن جائے گی۔نئی شامی حکومت کے لیے بین الاقوامی تائید بہت اہم ہے۔ اس حکومت کو تباہ شدہ انفراسٹرکچر بحال کرنے کیلئے مالی وسائل درکار ہیں جو خلیجی ممالک سے مل سکتے ہیں۔ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک دمشق کی موجودہ حکومت کی حمایت کا اعلان کر چکے ہیں۔ یہ امر نئی شامی حکومت کیلئے حوصلہ افزا ہے۔ یاد رہے کہ احمد الشرع نے اپنا پہلا سرکاری دورہ سعودی عرب ہی کا کیا تھا۔ امریکہ‘ سعودی عرب اور ترکیہ ایک بات پر متفق ہیں کہ شام میں ایرانی اثر و نفوذ دوبارہ نہ آنے پائے تاکہ لبنان میں حزب اللہ کو زمینی راستے سے کمک نہ پہنچ سکے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ایس ڈی ایف کے جنرل مظلوم عبدی دس مارچ کو معاہدے پر دستخط کرنے کیلئے امریکی طیارے سے دمشق پہنچے۔ اس معاہدے کے بعد الحسکہ شہر‘ جو شمال میں ہے پھر سے شامی حکومت کے کنٹرول میں آ جائے گا اور اس کے ارد گرد آئل فیلڈز بھی دمشق حکومت کو مل جائیں گے۔
شام کا رقبہ تقریباً ہمارے صوبہ سندھ جتنا ہے۔ 85 فیصد آبادی سنی مسلمان ہیں‘ 10 فیصد آبادی علوی ہے اور بقیہ پانچ فیصد عیسائی اور درُوز ہیں۔ لوگ تیرہ سال سے جاری سول وار سے تنگ ہیں اور استحکام چاہتے ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دمشق کے باسیوں کو چوبیس گھنٹوں میں صرف تین گھنٹے بجلی میسر ہے۔ کرنسی کا برا حال تھا جو بتدریج بہتر ہو رہا ہے۔14 سال سے کئی بچے سکول نہیں گئے۔ لوگ علم دوست اور ترقی پسند ہیں اسی لیے وہاں امن اور استحکام کی خواہش قوی بلکہ شدید ہے۔ اللہ کرے کہ نئی حکومت میں سُنی‘ علوی‘ عیسائی‘ درُوزاور کرد سب شامل ہوں تاکہ اس آفت زدہ ملک میں استحکام آئے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں