جماعت اسلامی ملک کی ایک متحرک مذہبی سیاسی جماعت ہے اور ملک میں دینی اقدار کے فروغ کیلئے اپنا کردار ادا کرتی رہتی ہے۔ ملک میں عوامی دلچسپی کے بہت سے موضوعات پر جماعت اسلامی اپنا مؤقف اور ردعمل دیتی رہتی ہے۔ والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر کے عمر بھر مذہبی جماعتوں اور ان کے قائدین کے ساتھ بڑے گہرے تعلقات رہے۔ جماعت اسلامی کے رہنما مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی اور میاں طفیل محمد‘ اسی طرح جمعیت علمائے اسلام کے مولانا مفتی محمود اور ان کے فرزند مولانا فضل الرحمن کے ساتھ اُن کے قریبی تعلقات تھے۔ آپ جہاں اپنی جمعیت کے پروگراموں‘ جلسوں اور اجتماعات میں شرکت کرتے وہیں ان جماعتوں کے سٹیج پر بھی خطاب کرتے نظر آتے تھے۔ والد گرامی کی رحلت کے بعد میں نے بھی دینی جماعتوں سے تسلسل کے ساتھ رابطہ رکھا اور منبر ومحراب سے وابستگی کے بعد دینی جماعتوں کے پروگراموں میں شرکت کرتا رہا۔ جماعت اسلامی کے سابق امراء قاضی حسین احمد‘ سید منور حسن اور سراج الحق صاحب کے ساتھ تسلسل سے ملاقاتیں رہیں۔ قاضی حسین احمد مرحوم میرے ساتھ بڑی شفقت کرتے اور ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ قاضی صاحب والد گرامی کے ہمعصر تھے اور ان کے ساتھ آپ کا بہت وقت گزرا تھا۔ والد صاحب کے حوالے سے بھی وہ اپنی یادوں کا بڑے خوبصور ت انداز سے اظہار کیا کرتے تھے۔ مجھے قاضی حسین احمد مرحوم کے ساتھ ملی یکجہتی کونسل میں بھی کام کرنے کا موقع میسر آیا۔
جماعت اسلامی کا نظامِ انتخاب بڑا مضبوط ہے اور نئے امیر کے چنائو اور انتخاب پر کسی بھی اعتبار سے کوئی شخص اثر انداز نہیں ہو پاتا۔ جناب سراج الحق نے جماعت اسلامی کی ترویج وترقی کے لیے بڑا نمایاں کردار ادا کیا لیکن حالیہ انتخاب میں حافظ نعیم الرحمن صاحب کو جماعت اسلامی کے امیر کے طور پر منتخب کیا گیا۔ حافظ نعیم الرحمن نے کراچی اور سندھ میں عوامی اور سیاسی سطح پر بڑی بھرپور جدوجہد کی اور اس جدوجہد کے نتیجے میں جماعت اسلامی کراچی کے ووٹ بینک میں خاطرخواہ اضافہ ہوا۔ نعیم الرحمن صاحب نے عوامی مسائل کے حل کے لیے یکسوئی اختیار کی اور عوام کی نظروں میں ایک مقبول رہنما کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے۔ اصولی طور پر حافظ نعیم الرحمن کراچی میں ناظم کے انتخاب کے لیے پسندیدہ امیدوار تھے لیکن بوجوہ سٹی ناظم نہ بن سکے۔ آپ کی اس تحریک اور فعالیت کی وجہ سے جماعت اسلامی نے آپ کو اپنے سربراہ کے طور پر منتخب کیا۔
حافظ نعیم الرحمن نے منتخب ہونے کے بعد جماعت اسلامی میں نئی تحریک اور ولولے کو بیدار کرنے کی کوشش کی اور بہت سے عوامی ایشوز کو زیر بحث لائے۔ معاشی عدم استحکام‘ مہنگائی‘ بجلی اور دیگر یوٹیلیٹی بلوں میں اضافہ یقینا ہر اعتبار سے ایک تکلیف دہ معاملہ ہے۔ اس معاملے پر عوام میں بڑی گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ اسی مناسبت سے راولپنڈی میں لیاقت باغ کے سامنے ایک بڑے دھرنے کا انعقاد کیا گیا۔ اس دھرنے میں شرکت کے لیے جماعت اسلامی وسطی پنجاب کے امیر برادر جاوید قصوری نے مجھ سے رابطہ کیا۔ میں جمعرات کے روز اس دھرنے میں شرکت کے لیے جب لیاقت باغ پہنچا تو برادر جاوید قصوری اپنے دوست احباب کے ساتھ استقبال کے لیے موجود تھے۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن سے بھی ملاقات ہوئی۔ ماضی کے امراء اور رہنمائوں کی طرح حافظ نعیم الرحمن کو بھی ایک شفیق اور دوست پرور شخص پایا۔ انہوں نے بڑی گرم جوشی سے ملاقات کی اور مختلف امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کے رہنما جناب لیاقت بلوچ بھی موجود تھے۔ لیاقت بلوچ کے ساتھ بھی کئی عشروں سے ملاقاتیں جاری و ساری ہیں۔ بلوچ صاحب ایک عوامی شخصیت ہیں۔ آپ کا متبسم اور کھلا ہوا چہرہ آپ کی پُرکشش شخصیت کے وقار میں مزید اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اس ملاقات کے بعد مجھے دھرنے سے خطاب کا موقع بھی ملا۔ میں نے اس موقع پر جن گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھا ان کو کچھ کمی بیشی کے ساتھ قارئین کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں:
پاکستان کا قیام ایک اسلامی فلاحی ریاست کے طور پر ہوا تھا اور اس ریاست کے قیام کے وقت عوام کے مسائل حل کرنے کے بھرپور عزم کا اظہار کیا گیا تھا لیکن بد نصیبی سے قیام پاکستان کے بعد ہمارا معاشرہ ایک مکمل فلاحی معاشرے کی شکل اختیار نہ کر سکا اور بہت سے طریقوں سے عوام کا استحصال کیا گیا۔ عوامی استحصال کی بڑی وجہ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ رویے تھے۔ سودی بینکاری کے نظام کی وجہ سے ملک کی معیشت کو زبردست دھچکا پہنچا۔ اس کے ساتھ ساتھ بعض منکرات کے فروغ کی وجہ سے بھی ہم اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت کے حصول سے محروم ہو گئے۔ ملک میں قحبہ خانوں‘ شراب اور جوئے کو عام کیا گیا۔ جب کوئی قوم اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناشکری کے راستے پہ چل نکلتی ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس سے اپنی نعمتوں کو چھین لیتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک ایسی بستی کا ذکر کیا جس کے پاس امن‘ اطمینان اور رزق کی نعمتیں تھیں لیکن جب انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنا عذاب مسلط کر دیا۔ سورۃ النحل کی آیت 112 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اللہ اس بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو پورے امن واطمینان سے تھی‘ اس کی روزی اس کے پاس بافراغت ہر جگہ سے چلی آ رہی تھی۔ پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے اسے بھوک اور خوف کا مزا چکھایا جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا‘‘۔ یہاں سے علم ہوا کہ منکرات کے فروغ کی وجہ سے جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتیں چھن جاتی ہیں وہیں حکمرانوں کی غفلت اور لاپروائی کی وجہ سے قوم کو بھی مختلف مصائب اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آئی پی پیز کے ساتھ ایسے معاہدے کیے گئے کہ جن کی وجہ سے بجلی کو بہت مہنگے نرخوں پر خریدا جا رہا ہے۔ عوام کو سستی بجلی کی ترسیل کے لیے حکومت کو آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کو منسوخ کرنا ہو گا۔ سودی نظام معیشت کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے اور معاشرے میں امن وسکون کے فروغ کے لیے معاشی اصلاحات کو یقینی بنا کر نبی کریمﷺ کے عطا کردہ معاشی نظام کو ملک میں نافذ کرنا ہو گا۔
اس موقع پر معاشی مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے المناک واقعہ پر بھی میں نے گہرے دکھ اور غم کا اظہار کیا اور ان کی خدمات کوخراجِ عقیدت پیش کیا۔ عوام الناس اسماعیل ہنیہ کا ذکر سن کر انتہائی پُرجوش اور جذباتی ہو گئے۔ اسماعیل ہنیہ کے ساتھ عوامی وابستگی کو دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا تھاکہ وہ فقط حماس یا غزہ کے لیڈر نہیں تھے بلکہ عالم اسلام کے لیڈر تھے۔ اس موقع پر میں نے عوام الناس کے سامنے اس بات کو بھی رکھا کہ پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے اور اس میں حرمت رسولؐ اور ختم نبوت پر سمجھوتے کی کوئی گنجائش موجود نہیں چنانچہ نبی کریمﷺ کی ختم نبوت کے منکرین کوکسی بھی طور اپنے لٹریچر کی نشر واشاعت کی اجازت نہیں ملنی چاہیے۔ اگر وہ اپنے لٹریچر کو چھاپتے ہیں تو حکومت کو اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے امتناعِ قادیانیت آرڈیننس کے تحت ان کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھنی چاہیے اور ان کو کسی بھی طور پر ایسے حقوق فراہم کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے جو قرآن و سنت اور آئین پاکستان کو تسلیم کرنے والے لوگوں کیلئے ہیں۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ منکرین ختم نبوت نہ تو کتاب و سنت اور اجماعِ امت کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں اور نہ ہی آئین پاکستان کو قبول کرنے پر تیار ہیں۔
دھرنے میں لوگوں نے مقررین کی تقاریر کو بڑی توجہ کے ساتھ سنا۔ اس موقع پر بہت سے دوست احباب سے ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ رات لگ بھگ نو بجے دھرنے کے حوالے سے بہت سی خوبصورت یادوں کو ذہن میں سموئے میں لاہور کی جانب عازمِ سفر ہو گیا۔