یکم جولائی سے پانچ اگست تک کے پانچ ہفتوں کے دوران بنگلہ دیش کے حالات نے جس طرح کروٹ لی ہے‘ اسے ایک ایسے زلزلے سے تشبیہ دی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں ملک کے اندر پندرہ برس سے برسراقتدار ایک طاقتور سیاسی رہنما حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ الٹ گیا۔ بنگلہ دیش میں اس تبدیلی کے اثرات علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔ اس کی وجہ بنگلہ دیش کا جغرافیائی محل وقوع ہے۔ اس محل وقوع کے دو نمایاں پہلو ہیں۔ ایک خلیج بنگال‘ جو زمانۂ قدیم سے اب تک بحرہند کے خطے کی تجارتی اور جنگی سرگرمیوں میں اہم کردار اداکرتا رہا ہے۔ دوسرا اس کی کمانڈنگ پوزیشن اور دنیا کی دو ابھرتی ہوئی طاقتوں‘ بھارت اور چین کی ہمسائیگی۔
اگر جنوبی ایشیا کے نقشے پر نظر ڈالیں تو بنگلہ دیش جنوب میں خلیج بنگال اور مشرق‘ مغرب اور شمال میں بھارتی علاقے سے گھرا ہوا نظر آئے گا۔ بنگلہ دیش کی بھارت کے ساتھ تقریباً چار ہزار کلو میٹر لمبی سرحد کا دنیا کی اُن چند سرحدوں میں شمار کی جاتی ہے جس کے آر پار غیر قانونی آمدورفت کو روکنا تقریباً ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش کے ساتھ انتہائی دوستانہ اور قریبی تعلقات کے ادوار میں بھی بھارت کو بنگلہ دیش سے مغربی بنگال اور آسام میں غیر قانونی باشندوں کی آمد پر شکایات رہی ہیں اور اسی بنا پر دونوں ملکوں کے سرحدی محافظوں کے مابین فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوتا رہا ہے۔ چین کے ساتھ بنگلہ دیش کی کوئی مشترکہ سرحد نہیں ہے مگر بنگلہ دیش کے شمال میں نیپال اور شمال مشرق میں واقع بھارت کی سات ریاستوں‘ جنہیں ''سیون سسٹرز‘‘ کہا جاتا ہے‘ کو ملانے والے انتہائی تنگ راستے سِلی گوری کوریڈور‘ جسےChicken's Neck بھی کہا جاتا ہے‘ کے پار صرف 170 کلو میٹر فاصلے کے بعد چینی علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ چین کے ساتھ سرحدی تنازع کے تناظر میں بھارت کے لیے نہ صرف نیپال بلکہ بنگلہ دیش کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات بہت ضروری ہیں کیونکہ Chicken's Neck شمال مشرق میں واقع بھارتی ریاستوں اروناچل پردیش‘ تری پورہ‘ آسام‘ ناگا لینڈ‘ میزو رام‘ منی پوراورمیگھالیا کے ساتھ نئی دہلی سے رابطے کا واحد تنگ راستہ ہے۔ یہ راستہ تنگ ہی نہیں بلکہ انتہائی دشوار گزار اور طویل بھی ہے جبکہ بنگلہ دیش کے راستے یہ فاصلہ ایک تہائی سے بھی کم رہ جاتا ہے۔ حسینہ واجد کے دور میں بھارت کو بنگلہ دیش سے گزر کر ان ریاستوں کے ساتھ رابطے کے لیے چار مقامات سے ٹرانس شپمنٹ کی سہولت دی گئی تھی۔ رواں برس جون میں بھارت کے دورے کے دوران وزیراعظم حسینہ واجد نے اپنے بھارتی ہم منصب نریندرمودی کے ساتھ بھارت کی ان سات ریاستوں کو سامان کی ترسیل اور مسافروں کی آمد و رفت کیلئے بنگلہ دیش کاریلوے نیٹ ورک استعمال کرنے کی اجازت دینے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ ریل اور سڑک کے ذریعے بنگلہ دیش کے راستے بھارت کو ملنے والی راہداری کی یہ سہولت نہ صرف مال برداری کے لیے اور وقت کے لحاظ سے بہت بڑی رعایت ہے بلکہ ان ریاستوں پر چین کے دبائوکا مقابلہ کرنے کے لیے بھی نہایت اہم سمجھی جاتی ہے۔ مگر بنگلہ دیش میں حالیہ سیاسی تبدیلی سے ان سہولتوں کا مستقبل مخدوش ہو گیا ہے کیونکہ حسینہ واجد کی مخالف سیاسی پارٹیاں خصوصاً بی این پی بھارت کو دی جانے والی ان سہولتوں کی سخت مخالف رہی ہے۔ بنگلہ دیش کے ریلوے نیٹ ورک کو استعمال کرنے کی اجازت دینے والے معاہدے کو بی این پی نے بنگلہ دیش کی سلامتی اور انٹیلی جنس کیلئے خطرہ قرار دیا ہے کیونکہ اس سے بنگلہ دیش ریلوے نیٹ ورک کی پٹڑیوں پر ''سامان‘‘ اور ''مسافروں‘‘ سے بھری ہوئی بھارتی ریلوے کوچز بلا روک ٹوک دوڑیں گی۔ عوامی لیگ کے مخالف حلقوں کے مطابق اس سامان میں چین کے خلاف بھارتی دفاع کو مضبوط کرنے والے ہتھیار اور گولا بارود اور مسافروں کے بھیس میں بھارتی خفیہ ایجنسی کے ایجنٹ بھی ہو سکتے ہیں۔ اس علاقے میں چین ایک اہم سٹیک ہولڈر کی حیثیت سے ابھرا ہے اور جنوبی ایشیا اور بحر ہند کے خطے میں اپنی نئی حکمت عملی کے تحت اس نے بنگلہ دیش کیساتھ نہ صرف معاشی بلکہ دفاعی شعبے میں بھی تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔
چین اور بنگلہ دیش کے درمیان ان تعلقات میں بہتری کا عمل 2009ء میں شروع ہوا تھا جس کے تحت اب تک چین بنگلہ دیش میں تقریباً 25 ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے۔ اسکے علاوہ کنسٹریشن کے شعبے میں 22.94 ارب ڈالر کی لاگت کے منصوبوں پر چینی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ دفاعی شعبے میں تعاون پر بھی چین اور بنگلہ دیش میں ایک معاہدہ موجود ہے جس کے تحت بنگلہ دیش اور چین نے گزشتہ مئی میں ایک مشترکہ بحری مشق بھی کی تھی۔ اسکے علاوہ بنگلہ دیش نے اپنی بندر گاہ چٹاگانگ کے قریب خلیج بنگال کے ساحل پر چین کی مدد سے آبدوزوں کا ایک اڈہ بھی تعمیر کیا ہے جہاں بیک وقت چھ آبدوزیں اور آٹھ جنگی جہاز لنگر انداز ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ چین نے بنگلہ دیش کو 205 ملین ڈالر کی رعایتی قیمت پر نئے سازو سامان سے آراستہ دو آبدوزیں بھی فراہم کی ہیں۔ چین اور بنگلہ دیش کے دفاعی تعلقات میں یہ اضافہ حسینہ واجد کے دور میں ہوا۔ اس لیے بھارتی میڈیا کے اس پروپیگنڈے میں‘ کہ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے میں چین کا ہاتھ ہے‘ کوئی وزن نہیں البتہ اقتدار سے محروم ہونے کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں حسینہ واجد نے الزام لگایا کہ انکی حکومت کا تختہ الٹنے میں امریکہ کا ہاتھ ہے کیونکہ انہوں نے خلیج بنگال میں سینٹ مارٹن کے جزیرے کو امریکہ کو دینے سے انکار کردیا تھا۔ سینٹ مارٹن خلیج بنگال کے انتہائی شمال مشرقی ساحل پر واقع ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے مگر خلیج بنگال کی دفاعی حکمت عملی میں اس کا اہم کردار ہے۔حسینہ واجد کے مبینہ بیان کے مطابق امریکہ اس پر جزیرے ایک بحری اڈہ تعمیر کرنا چاہتا تھامگر انہوں نے انکار کردیا اور اس وجہ سے امریکہ نے ان کی حکومت کا تختہ الٹنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اگرچہ حسینہ واجد کے بیٹے نے اس خبر کی تردید کی ہے کہ ان کی والدہ نے ایسا کوئی بیان دیا ہے تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ امریکی حکومت اور میڈیا حسینہ واجد کے سب سے بڑے مخالف ‘بنگلہ دیش میں موجود عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس کے حامی رہے ہیں اور سابقہ دور میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور آزادیٔ اظہار پر پابندیوں کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش میں جنوری میں ہونیوالے انتخابات پر امریکہ کو تحفظات تھے۔ ڈھاکہ میں متعین امریکی سفیر بھی حالیہ تحریک میں بہت سرگرم رہے اور اپوزیشن پارٹیوں کے رہنمائوں کیساتھ ملاقات کرتے رہے ہیں مگر بنگلہ دیش کے بحران میں امریکہ کے ایک سٹیک ہولڈرہونے کی اصل وجہ امریکہ سمیت جاپان‘ آسٹریلیا اور بھارت پر مشتمل وسیع تر سیاسی اتحاد Quadہے جس کا مقصد مشرقِ بعید سے بحرہند سے گزرتے ہوئے مشرقِ وسطیٰ تک کے وسیع خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے آگے بند باندھنا ہے۔ کوآڈ کی حکمت عملی میں خلیج بنگال کو خصوصی اہمیت حاصل ہے کیونکہ اسکے جنوب مشرقی حصے میں واقع بحر ہند کو سائوتھ چائنہ سی سے ملانے والی اہم آبی گزر گاہ آبنائے ملاکا واقع ہے۔ اس اہم آبی راستے سے دنیا کی کل تجارت کا 3.5 ٹریلین ڈالر کا حصہ گزرتا ہے جس میں 80فیصد حصہ چین کاہے۔ خلیج بنگال کے اس حصے میں کوآڈ میں شامل ملکوں کی بحری افواج ہر سال جنگی مشقیں کرتی ہیں۔ ان مشقوں کا مقصد امریکہ‘ جاپان‘ آسٹریلیا اور بھارت کی طرف سے آبنائے ملاکا پرہنگامی حالات میں کنٹرول قائم کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرنا ہے۔ اسی لیے امریکہ بنگلہ دیش میں حالات پر‘ یہ دیکھنے کیلئے گہری نظر رکھے ہوئے ہے کہ انکا کوآڈ کے منصوبے پر کیا اثر پڑتا ہے۔