"SBA" (space) message & send to 7575

77ویں مبارک باد دیں کس کو؟ … (1)

نوجوانو! گزرا ہوا یومِ آزادی مبارک!!
آج‘ جس وقت یہ سطریں ضبطِ تحریر میں لائی جا رہی ہیں‘ 15اگست ہے۔ سنا ہے ہمار ے مشرق کا کوئی ملک ہے جہاں کا نظام بری طرح بیٹھ گیا ہے۔ اُس نظام کی سب سے بڑی ناکام بات آپ کو بتا دیتے ہیں جس کی بنیاد پر آپ تقابل کر کے اپنی تاریخ ساز کامیابی اور اُس ملک کی ناکامی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ہم دونوں ایک ہی رات میں آزاد ہوئے۔ 14 اور 15 اگست 1947ء کی درمیانی رات۔ ہم ایشین ٹائیگر بن گئے‘ ہم نے اس ملک کے شہروں کو پیرس بھی بنا کر دکھا دیا۔ تاریخی تسلسل کے اس مسلسل کامیاب سفر کے 77 سال مکمل ہونے پر آٹھ ارب امریکی ڈالر کی اکانومی کھڑی کر دی۔ اس کرشمے میں مبارکباد والی بات یہ ہے کہ بغیر کسی محنت کے ہم نے یہ آٹھ ارب ڈالر چین‘ قطر‘ سعودی عرب اور ایک دو چھوٹے مغربی کنسورشیم سے حاصل کیے۔ پرانے زمانے کے جس سیانے نے ''ہینگ لگے نہ پھٹکری‘ رنگ بھی چوکھا‘‘ بولا تھا‘ وہ ہمارے بارے میں ہی ایسا بول کر ہماری تاریخ ساز قربانیوں کے انتظار میں قربان ہو گیا۔ دوسری جانب اُس ملک کی اکانومی ابھی تک 700 ارب ڈالر تک ہی پہنچ پائی ہے۔ قربانی سے یاد آیا کہ ایک اور سیانے نے کسی کو مخالف کے گردش کی زد میں آنے پر خوشیاں منانے پہ یہ طعنہ دیا تھا:
چراغ سب کے بجھیں گے‘ ہوا کسی کی نہیں
میں چراغ حسن حسرت صاحب کا ذکر نہیں کرنے لگا بلکہ ایک ممتاز صحافی ہیں جن کی 30 جولائی 2024ء کی ایک ٹویٹ کسی نے بھیج کر اس جانب توجہ دلائی ہے۔ انہوں نے حسنِ ظن میں پبلک کو یہ پیغام دیا ''فائر وال نے صرف چار دن میں ... کی گردان کرنے والوں کا بھرکس نکال دیا ہے‘‘۔ پھرمستقبل میں جھانکتے ہوئے مزید لکھا کہ ''لاکھوں بوٹ اکاؤنٹس فائر وال کا نمک گرانے سے چُر مُڑا کر فنا کے گھاٹ اُتر گئے‘‘۔ ملک کو مزید ترقی کی راہ پر چلانے کے لیے سوشل میڈیا فائر وال پر مبینہ طور پر جو41 ارب روپے خرچ ہوئے اس پہ فیصلہ سازوں کی مبارک باد بنتی ہے۔ لیکن مبارک دیں کس کو‘ فیصلہ ساز ہے کون‘ یہ سوال ابھی حل نہیں ہو سکا۔ اس صفحے پر ہمارے دوسری نسل کے دو نوجوان صحافی سالہا سال سے نوجوانوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے فری لانسنگ کمپنیاں بنانے‘ ویب سائٹ کھولنے‘ بڑی انٹر نیشنل کمپنیوں میں اپنے آپ کو رجسٹر کروانے‘ اپنی محنت سے تیار کیے ہوئے پروجیکٹ کو لانچ کرنے اور اس سے لاکھوں روپے ماہانہ کمانے کا مشورہ دیتے آئے ہیں۔
انٹرنیٹ کی بندش کی آتشیں دیوار نے کہاں کہاں‘ کیا کیا ستم چند دنوں میں ڈھائے‘ اس بارے میں فری لانسنگ سے منسلک نوجوانوں نے ایک اوپن ٹاک میں ایک ٹاپ فری لانسنگ پلیٹ فورم کی طرف سے پابندی عائد کیے جانے کے بارے میں تفصیلات پیش کیں جن کا ایک حصہ یہاں آپ کے لیے لکھ دیتا ہوں:
''ہمارے ملک میں انٹرنیٹ کیسے چل رہا ہے‘ ٹاپ فری لانسنگ پلیٹ فورم ہمیں بطور ملک Delist کر رہے ہیں۔ فری لانسنگ سے لوگوں کے چولہے جل رہے ہیں‘ گھر چل رہے ہیں‘ فری لانسنگ انکم سے ملک میں ڈالر آرہے ہیں‘ ایسا لگتا ہے کہ یہ جو ساری Decision Makingہو رہی ہے اس کے اندر کوئی بھی شخص ایسا نہیں جس نے زندگی میں روزی روٹی کے لیے محنت کی ہو۔ جس نے زندگی میں فری لانسنگ کر کے کلائنٹ کو بِٹ بھیج کے‘ گِگ لگا کے پھر مصلے پہ بیٹھ کے دعا کی ہو کہ اللہ کرے یہ پروجیکٹ ہاتھ آجائے ورنہ میرے گھر کا بل نہیں ادا ہوگا‘ ورنہ میرے گھر راشن نہیں آئے گا۔ اگر ایک بھی ایسا شخص ان Decision Makers کے درمیان بیٹھا ہوتا تو جتنے کی فائر وال آئی ہے اتنے کی یونیورسٹیاں‘ کالج‘ انکیو بیشن سنٹر‘ ٹیک حب بن جاتے ہیں۔ ملک میں آپ 10 ٹیک نمائشیں کرواتے‘ آپ کی ٹیکنالوجی انڈسٹری گروم کر جاتی۔ آپ پڑ گئے ایک فائر وال کے پیچھے‘ اتنا بڑا بجٹ لگا دیا۔ آپ تصور کریں کہ ایک بچہ جو فری لانسنگ پلیٹ فورم پہ گِگ لگاتا ہے‘ وہاں سے اسے کام ملتا ہے‘ وہ اس کام پر ہفتوں ٹائم لگاتا ہے‘ اس کے بعد سو‘ دو سو ڈالر آتے ہیں جس سے وہ بجلی کا بل بھرتا ہے‘ گھر کا راشن لاتا ہے‘ اپنا گھر چلاتا ہے۔ پھر ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنا کام ٹائم پہ نہیں کر پاتا‘ جس کی وجہ سے اس کا کلائنٹ بھاگ جاتا ہے‘ اس کے بزنس کو نقصان ہو جاتا ہے۔ اب آپ مجھے بتائیں وہ کیا کرے گا۔ اگر تو وہ مضبوط اعصاب کا مالک نہیں‘ تو وہ جرائم کا راستہ بھی اختیار کر سکتا ہے‘ وہ خود کو کوئی نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔ وہ ہمیشہ کے لیے یہ فیلڈ بھی چھوڑ سکتا ہے۔ ایک ٹیکنیکل بندہ ایک مختلف فیلڈ میں جا کر اپنے آپ کو ویسٹ کر سکتا ہے اور وہ کبھی ریکور نہیں کر سکے گا۔ آپ کے ہاں فائر وال سے حالات ٹھیک ہو جائیں گے لیکن اس بچے کا کیریئر کبھی ریکور نہیں ہو پائے گا۔ یہ کوئی اندازہ لگا رہا ہے کہ کتنی زندگیوں سے ہم کھیل رہے ہیں‘‘۔
ایسی کمپنیاں فری لانسنگ کرنے والے پاکستانی نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے لیے دنیا کا سب سے بڑا ذریعۂ روزگار ہیں جہاں نہ کوئی سفارش چلتی ہے‘ نہ سرکاری ڈنڈے سے کھلنے والا پچھلا دروازہ ہے اور نہ کوئی ہاتھ گرم کرنے سے کامیاب ہو سکتا ہے۔ آپ اسے Meritocracyکی عالمی تصویر بھی کہہ سکتے ہیں۔ اب جو کچھ ہو رہا ہے‘ یہ ہماری معیشت‘ فارم 47کی چند روزہ محنت کا غیر حتمی نتیجہ ہے۔ یہ نتیجہ عملی طور پر ایک عالمی کاروباری ادارے کے ذریعے نکل کر جاری بھی ہو چکا ہے۔ آپ اندازہ لگا لیں ہماری کامیابیوں کا یہ سفر ہمیں قوموں کی صف میں کہاں کھڑا کرے گا اور زمین کی سات پرتوں کے درمیان ہمارا مقام کہاں ہوگا۔
ہاں معروف صحافی صاحب کی ٹویٹ سے یاد آیا کہ صاحبِ موصوف ٹویٹ کرتے ہوئے شاید یہ بھول گئے تھے کہ ان کے اپنے دو بچوں میں سے ایک فری لانسنگ کے ذریعے پانچ ہزار امریکی ڈالر ماہانہ کماتا ہے۔ اتنی بڑی تنخواہ‘ جتنی ابا نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھی ہو گی۔ ان کے اندر بھی حقیقی آزادی نے یومِ آزادی پر انگڑائی لی اور دو ہفتے میں موصوف نے دوسری ٹویٹ یہ لکھ کر اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر جاری کی ''میرے دو بچے فری لانسنگ کرتے تھے‘ فری لانسنگ پلیٹ فورمز نے (پاکستان کے لیے) سروسز بند کردیں۔ ایک بیٹا فری لانسنگ پلیٹ فورم پر ماہانہ چار سے پانچ ہزار ڈالر کماتا تھا۔ سست انٹر نیٹ کی وجہ سے کلائنٹ اب دوسرے ملکوں کے نوجوانوں کے پاس جا رہے ہیں‘‘۔ یہ صرف ایک گھر گرہستی چلانے والے باعزت دو بھائیوں کی کہانی ہے۔ پاکستان میں لاکھوں نئے ینگ ڈاکٹرز اور ینگ لیڈی ڈاکٹرز اس سے بڑھ چڑھ کر میڈیکل ایڈوائزری‘ ریسرچ اور طب کے دوسرے شعبوں میں ہزاروں ڈالر کما رہے تھے کہ اچانک... ( جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں