نبی کریمﷺ سے وابستگی ایمان کی بنیادی شرط ہے۔ مسلمان خواہ عملی طور پر کمزور ہی کیوں نہ ہو‘ آپﷺ کی ذاتِ اقدس سے والہانہ وابستگی رکھتا ہے۔ لوگ آپﷺ کی سیرت کو پڑھنا اور سننا بہت پسند کرتے ہیں اور جہاں کہیں بھی سیرتِ رسولﷺ کا بیان ہو‘جوق در جوق لوگ اس کو سننے کیلئے جمع ہو جاتے ہیں۔ مسلم ممالک کی طرح غیر مسلم ممالک میں بھی نبی کریمﷺ کی سیرت کے حوالے سے مختلف کانفرنسوں‘ اجتماعات اور پروگراموں کا انعقادکیا جاتا ہے۔ 21 جولائی کوکیتھلے‘ برطانیہ میں ایک سیرت النبیﷺ کانفرنس کا انعقاد کیا گیاجس میں پاکستان کے معروف سکالر ڈاکٹرحمادلکھوی‘ مولانا شریف اللہ شاہد اور مجھے خطاب کرنے کا موقع میسر آیا۔ لوگوں کی بڑی تعداد کانفرنس میں شریک تھی اور مقررین کے خطابات کو بڑی دلجمعی سے سنا۔ ڈاکٹرحماد لکھوی نے اس موقع پر بیش قیمت گفتگو کی‘ جسے بہت سراہا گیا۔ مجھے اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا تو میں نے جن گزارشات کو پیش کیا اُن کو کچھ ترمیم اور اضافے کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
اللہ تبارک وتعالیٰ نے تین ذی شعور مخلوقات کو پیدا کیا۔ ملائکہ‘ جنات اور انسان‘ یہ تینوں عقل اور کلام کی نعمت سے بہرہ ور ہوئے۔ فرشتے اللہ تبارک وتعالیٰ کے فرمانبردار ہیں اور اُن میں نفسِ امارہ موجود نہیں۔ چنانچہ وہ ہر وقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی تسبیح اور تحمید میں مصروف اور اس کے احکام پر عمل پیرا رہتے ہیں۔ ان کے بالمقابل جنات اور انسان میں نفسِ امارہ موجود ہے اور ان کی ایک بڑی تعداد اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی سے منحرف ہے۔ ایسے سرکش لوگوں کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہنم کی دہکتی ہوئی آگ کو تیار کر رکھا ہے۔ جبکہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات کے پابند ہیں۔ ایسے لوگوں کو چار طبقات میں تقسیم کیا گیا۔ صلحاء‘ یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے برگزیدہ بندے ہیں لیکن وہ کسی شہید کی عظمت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ شہداء‘ ان کا مقام نہایت بلند ہے لیکن وہ صدیقین کی عظمت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ صدیقین‘ ان کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت بلند مقام عطا کیا لیکن جو مقام انبیاء کرام علیہم السلام کو حاصل ہوا وہ کسی بشر کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ انبیاء کرام‘ ان کے مقامِ بلند کی وجہ یہ ہے کہ یہ اللہ تبارک وتعالیٰ سے ہم کلام ہوئے‘ ان پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحی کا نزول ہوا اور جناب جبرائیل ان کے پاس پروردگارِ عالم کا پیغام لے کر آتے رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اس بات کو واضح فرما دیا کہ جہاں تک تعلق ہے رسل اللہ پر ایمان کا‘ تو اس حوالے سے رسولوں کے درمیان کسی قسم کی تفریق نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیت 285 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اس کے رسولوں میں سے کسی میں ہم تفریق نہیں کرتے‘ انہوں نے کہہ دیا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی‘ ہم تیری بخشش طلب کرتے ہیں اے ہمارے رب! اور ہمیں تیری ہی طرف لوٹنا ہے‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمیںایمان لانے کے حوالے سے اللہ کے رسولوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرنی چاہیے‘ کیونکہ کسی ایک رسول کا انکار تمام رسولوں کے انکار کے مترادف ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الشعراء میں قومِ نوح‘ قومِ عاد‘ قومِ ثمود‘ قومِ لوط اور قومِ مدین کا ذکر کیا اور یہ بات واضح کر دی کہ انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا حالانکہ ان اقوام نے فقط اپنے اپنے رسول کو جھٹلایا تھا۔ اس لیے انسان کا ایمان تمام رسولوں پر یکساں ہونا چاہیے لیکن اس بات کو بھی ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ تمام رسولوں کے درجات ایک جیسے نہیں ہیں بلکہ بعض رسل کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے دیگر پر فضیلت دی ہے۔ سورۃ البقرہ کی آیت 253 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''یہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے‘ ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا اور بعض کے درجے بلند کیے ہیں‘‘۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے رسل اللہ کے مختلف درجات کا ذکر کیا۔ اولو العزم رسول اللہ‘ سیدنا نوح‘ سیدنا ابراہیم‘سیدنا موسیٰ‘ سیدنا عیسیٰ علیہم السلام کو اللہ تعالیٰ نے دیگر رسولوں پر فضیلت دی اور مقامِ بلند عطا کیا جبکہ محمد رسول اللہﷺ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے جمیع انبیاء و رسل سے بلند مقام عطا فرمایا۔ آپﷺ کی فضیلت کے چند دلائل درج ذیل ہیں۔
عالمگیریت: اللہ تبارک وتعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو عالمگیر نبوت عطا فرمائی۔آپﷺ سے پیشتر جتنے بھی انبیاء آئے‘ وہ سب اپنے اپنے علاقوں اور مخصوص وقت کے لیے مبعوث کیے گئے لیکن نبی کریمﷺ کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اللہ نے آپ کو جمیع انسانیت کا مقتدا و پیشوا بنایا۔ چنانچہ سورۂ سباء کی آیت 28 میں ارشاد ہوا ''ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لیے خوشخبریاں سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے‘ ہاں مگر (یہ صحیح ہے) کہ لوگوں کی اکثریت بے علم ہے‘‘۔
ختم نبوت: حضرت محمد کریمﷺ سے پیشتر پے درپے انبیاء آتے رہے اور ایک نبی کے جانے کے بعد دوسرا نبی جلوہ افروز ہو جاتا لیکن نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبوت و رسالت کو تمام کر دیا اور آپﷺ کے بعد کسی بھی نبی کے آنے کے امکانات باقی نہیں رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الاحزاب کی آیت 40 میں ارشاد فرماتے ہیں ''(لوگو) محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن آپ اللہ کے رسول ہیں اور سلسلۂ نبوت کی تکمیل کرنے والے ہیں‘‘۔
انبیاء کرام علیہم السلام کی امامت: اللہ تبارک وتعالیٰ نے شبِ معراج بیت المقدس میں نبی کریمﷺ کی امامت میں انبیاء کرام علیہم السلام کو جمع فرما کر بھی آپ کے رتبے کو واضح فرما دیا کہ آپﷺ فقط آنے والوں کے امام بن کر نہیں آئے بلکہ جانے والوں کے بھی پیشوا و امام ہیں۔
قرآن مجید: اللہ تبارک و تعالیٰ نے سابقہ انبیاء پر بھی آسمانی کتب اور صحیفوں کا نزول فرمایا لیکن نبی کریمﷺ کا یہ زندہ معجزہ ہے کہ آپ پر نازل ہونے والی کتاب ہر قسم کی تحریف اور کمی بیشی سے پاک ہے اور یہ کتاب قیامت تک انسانوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی رہے گی۔ نبی کریمﷺ کی فضیلت کے متعدد دلائل میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دے دیا۔ نبی کریمﷺ کے مقامِ بلند کی وجہ سے مسلمانوں کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ یہ اللہ کے آخری اور سب سے افضل نبی کے امتی ہیں۔ مگر اس اعزازکے دو تقاضے ہیں۔ پہلا یہ کہ آپﷺ کی ذاتِ اقدس کے ساتھ والہانہ محبت کی جائے اور یہ محبت جمیع مخلوقات سے بڑھ کر ہونی چاہیے۔ دوسرا تقاضا یہ ہے کہ جہاں آپﷺ سے والہانہ محبت کرنا ضروری ہے وہیں آپﷺ کی اطاعت کرنا بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب میں نبی کریمﷺ کے اسوہ کو اسوۂ کامل قرار دیا اور سورۂ آلِ عمران میں آپﷺ کی اتباع کرنے والے کو اپنا محبوب قرار دیا۔
بہت سے لوگ اپنی معیشت کو بہتر بنانے کیلئے دیارِ مغرب میں جاتے ہیں لیکن کئی مرتبہ یہ مشاہدہ کیا گیا کہ بہت سے لوگ شعائرِ دین سے دوری اختیار کرلیتے ہیں۔ وہ اللہ اور اس کے رسول سے والہانہ محبت کرنے کے بجائے مادہ پرستی کے راستے پر چل نکلتے ہیں اور رسول اللہﷺ کی غیر مشروط اطاعت اور اتباع کے بجائے اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی شروع کر دیتے ہیں۔ مسلمانوں کو اس حوالے سے انتہائی محتاط اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے کہ مغربی معاشرے میں رہتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول سے والہانہ محبت اور ان کی غیر مشروط اطاعت سے کسی بھی قیمت پر دستبردار نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں رسول اللہﷺ کے ساتھ والہانہ وابستگی اختیار کرنے کی توفیق دے‘ آمین!