پاکستان اور سعودی عرب برادر مسلم ملک ہیں اور ان کے تعلقات قیام پاکستان سے لے کر آج تک مثالی رہے ہیں۔ جب بھی پاکستان پر ابتلا یا آزمائش کا کوئی وقت آیا سعودی عرب نے ہمیشہ دل کھول کر پاکستان کے ساتھ تعاون کیا۔ بالاکوٹ اور کشمیر میں آنے والے زلزلے کے دوران سعودی عرب نے کھل کر پاکستان کی امداد کی اور باقاعدہ طور پر پاکستان کی امداد کیلئے ایک فنڈ قائم کیا تھا۔ پاکستانی روزگار کیلئے بڑی تعداد میں جہاں دنیا کے دیگر ممالک میں آباد ہیں وہیں سعودی عرب میں روزگار کیلئے لاکھوں پاکستانی آباد ہیں۔ سعودی عرب میں مقیم پاکستانی ملک کے زرمبادلہ میں اضافے کا ذریعہ بنتے ہیں اور ہر ماہ کروڑوں ریال کی ترسیل سے قومی خزانے کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ پاکستانی طلبہ کی ایک بڑی تعداد بھی سعودی عرب کی اسلامی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرکے سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک میں دینِ اسلام کی خدمت کے فریضے کو انجام دیتی ہے۔ اکثر افراد پاکستان واپس آکر مختلف مدارس میں تدریس کے فریضے کو انجام دے رہے ہیں۔ سعودی عرب کی جامعات سے فارغ التحصیل ہونے والے لوگ علوم اسلامیہ میں مہارت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ عربی زبان میں بھی مہارت حاصل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد عربی زبان کو اچھی طرح سمجھتی ہے۔
سعودی عرب کے تمام فرمانروا ہمیشہ سے پاکستان کو برادر ملک سمجھتے اور وقفے وقفے سے پاکستان کا دورہ کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح پاکستانی حکمرانوں کا بھی سعودی عرب میں بڑے والہانہ انداز میں استقبال کیا جاتا ہے۔ شاہ فیصل مرحوم کو پاکستان سے خصوصی محبت تھی اور سقوطِ ڈھاکہ کے موقع پر وہ شدید دکھ اور کرب میں مبتلا ہو گئے تھے۔ شاہ فہد بھی ایک دیندار اور اسلام کی خدمت کرنے والے حکمران تھے جنہوں نے جلالۃ الملک کے لقب کو ترک کر کے خادم حرمین شریفین کے لقب کو اختیار کیا اور دنیا کی تمام زندہ زبانوں میں قرآن مجید کی نشر واشاعت کے لیے نمایاں کردار ادا کیا۔ پاکستان میں موجود سعودی عرب کا سفارتخانہ پاکستان میں معاشی اور سیاسی مسائل کے حل کے لیے ہمیشہ مستعد رہا ہے۔ جب قومی اتحاد اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مابین ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا تھا تو اس وقت سیاسی تنازع کے حل کے لیے سعودی سفیر ہی نے نمایاں کردار ادا کیا تھا۔
پاکستان میں وقفے وقفے سے سعودی عرب سے بہت سی بلند قامت علمی و دینی شخصیات پاکستان کے دورے پر تشریف لاتی رہتی ہیں جن کی آمد کی وجہ سے دونوں ممالک کے برادرانہ تعلقات کو مزید تقویت ملتی اور اسلامی اقدار کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ ائمہ حرمین کی آمد پر پاکستان کے لوگوں میں خوشی کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے۔ ماضی میں شیخ عبداللہ بن سبیل‘ شیخ صالح بن حمید‘ شیخ عبدالرحمن السدیس‘ شیخ صالح آل طالب‘ شیخ خالد الغامدی اور دیگر بلند پایہ علمی شخصیات پاکستان تشریف لا چکی ہیں۔ اب مسجد نبوی شریف کے امام صلاح بن محمد البدیر چند روز قبل دورۂ پاکستان پر تشریف لائے ہیں۔ ان کی آمد پر سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی نے ایک عشائیے کا اہتمام کیا جس میں ملک کی نمایاں سیاسی ومذہبی شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا۔ خیبر پختونخوا اور سندھ کے گورنرز کے علاوہ مولانا عبدالغفور حیدری‘ حافظ عبدالکریم‘ حافظ طاہر محمود اشرفی‘ قاری حنیف جالندھری‘ حافظ ہشام الٰہی ظہیر اور دیگر رہنمائوں نے اس استقبالیہ تقریب میں شرکت کی۔ مجھے بھی اس تقریب میں مدعو کیا گیا تھا۔ شب آٹھ بجے کے قریب تمام مہمان سعودی سفارتخانے میں پہنچ چکے تھے اور تمام لوگ شدت کے ساتھ امام صلاح البدیر کی آمد کے منتظر تھے۔ جب امام مسجد نبوی اور مدینہ ہائیکورٹ کے جج شیخ صلاح بن محمد البدیر مہمانوں کے ہال میں داخل ہوئے تو تمام مہمان جوش‘ اشتیاق اور مسرت کی ملی جلی کیفیات سے دوچار ہو گئے۔ ان کیفیات کے پس منظر میں مہمانوں کی حرمین شریفین کے ساتھ والہانہ محبت شامل تھی۔
مکہ شریف اور مدینہ طیبہ کی محبت ہر مسلمان کے دل میں موجود ہے اور مدینہ کی محبت سے کوئی مسلمان بھی مستغنی نہیں ہو سکتا‘ اس لیے کہ مدینہ کی نسبت رسول اللہﷺ کی ذاتِ اقدس کے ساتھ ہے۔ نبی کریمﷺ مدینہ طیبہ کے ساتھ بڑی محبت فرماتے تھے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہﷺ سفر سے مدینہ واپس آتے اور مدینہ کے بالائی علاقوں پر نظر پڑتی تو آپﷺ اپنی اونٹنی کی رفتار کو تیز کر دیتے‘ کوئی دوسرا جانور ہوتا تو اسے بھی ایڑ لگاتے۔ صحیح بخاری ہی میں کچھ مختلف الفاظ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ جب کبھی سفر سے واپس آتے اور مدینہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی سواری کو تیز فرما دیتے اور اگر کسی جانور کی پشت پر سوار ہوتے تو مدینہ کی محبت میں اسے ایڑ لگاتے۔
احادیث مبارکہ میں جہاں آپﷺ کی مدینہ طیبہ سے محبت کا ذکر ہے‘ وہیں مدینہ طیبہ کے اُحد پہاڑ سے محبت کا بھی ذکر ہے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ''میں رسول اللہﷺ کے ساتھ خیبر (غزوہ کے موقع پر) گیا‘ میں آپﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا‘ پھر جب آپﷺ واپس آئے اور اُحد پہاڑ دکھائی دیا تو آپﷺ نے فرمایا: یہ وہ پہاڑ ہے جس سے ہم محبت کرتے ہیں اور وہ ہم سے محبت کرتا ہے۔ اس کے بعد آپﷺ نے اپنے ہاتھ سے مدینہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: ''اے اللہ! میں اس کے دونوں پتھریلے میدانوں کے درمیان کے خطے کو حرمت والا قرار دیتا ہوں‘ جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرمت والا شہر قرار دیا تھا۔ اے اللہ! ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما‘‘۔ ان احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول کریمﷺ کو مدینہ سے کس قدر محبت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ اسلام بھی مدینہ طیبہ سے بہت محبت کرتے ہیں۔
شیخ صلاح بن محمد البدیر نے مہمانانِ گرامی کی نشستوں پر جاکر پُرتپاک انداز سے ان سے ملاقات کی اور اس ملاقات کے اثرات تادیر ہمارے دلوں پر رہے۔ اس موقع پر پاکستان کے مؤقر رہنمائوں نے امام مسجد نبوی کے اعزاز میں بہت ہی خوبصورت انداز میں استقبالیہ کلمات کہے۔ اس کے بعد پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید المالکی نے مہمانوں کو بڑے گرم جوش انداز میں خوش آمدید کہا اور یہ بھی کہا کہ یہاں مجلس میں موجود رہنما اور علما یقینا عوام کی بڑی تعداد کے نمائندہ ہیں‘ اگر یہ ایک دوسرے کے ساتھ اختلافات کو ترک کر دیں تو پاکستان کے تمام سیاسی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ جو قوم داخلی طور پر متحد ہو اس قوم کو خارجی دشمن کوئی بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اس کے بعد شیخ صلاح بن محمد البدیر کو دعوت خطاب دی گئی۔ شیخ صلاح بن محمد البدیر نے اپنے خطاب میں نرمی‘ محبت اور مؤدت کی اہمیت کو واضح کیا کہ امت کو تمام فروعی اختلافات کو فراموش کر دینا چاہیے کیونکہ بیرونی دشمن پاکستان اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ انہوں نے اس موقع پر الحاد‘ لادینیت اور فتنہ و فساد ڈالنے والے عناصر کی یورشوں کا بھی ذکر کیا کہ ہمیں مل جل کر ان کا مقابلہ کرنا ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں فلسطینیوں کی قربانیوں کا بھی ذکرکیا اور صہیونیوں کے ظلم و شقاوت کی شدید مذمت کی۔ امام صاحب کے خطاب کے بعد تمام شرکائے مجلس نے شیخ صلاح البدیرکی اقتدا میں نماز عشاء ادا کی۔ نماز کے بعد مہمانوں کے لیے ایک پُرتکلف عشائیے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس عشائیے کے دوران پاکستان کی بہت سی مقتدر اور بااثر شخصیات سے ملاقات اور تبادلہ خیال کرنے کا موقع ملا اور یوں یہ تقریب اپنے جلو میں بہت سی خوبصورت یادوں کے لیے اختتام پذیر ہو گئی۔