1930ء میں علامہ محمد اقبالؒ نے الہ آباد کے مقام پر خطبہ دیتے ہوئے مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک یا دو خودمختار مسلم ریاستوں کے قیام کا مطالبہ کیا تھا۔ بنگال‘ سرحد (خیبر پختونخوا)‘ پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان پر مشتمل ریاست کے قیام کا مقصد مسلمانانِ برصغیر کے سیاسی اور سماجی حقوق کے تحفظ کی یقین دہانی کرانا تھا لیکن بدنصیبی سے قیامِ پاکستان کے کچھ عرصہ بعد ہی سے بنگال میں کچھ ایسی صورتحال پیدا ہو گئی جس کی وجہ سے پاکستان کے مشرقی اور مغربی حصوں میں اتحاد کو فروغ نہ مل سکا اور سیاسی کشمکش بڑھتی چلی گئی۔ بنگال کے قوم پرست رہنما اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی کو بھی سرکاری زبان کے طور پرمتعارف کرانا چاہتے تھے لیکن بوجوہ یہ مطالبہ پورا نہ کیا جا سکا جس کی وجہ سے بنگال میں احساسِ محرومی نے جنم لیا۔ گزرتے وقت کیساتھ ساتھ قوم پرست بنگالیوں نے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے بنگال کی سیاست میں قوم پرستی کا غلبہ ہوتا چلا گیا۔ عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمان نے بنگلہ دیش میں قوم پرستی کی تحریک منظم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ یہاں تک کہ 1970ء کے انتخابات میں عوامی لیگ نے پورے بنگال میں بھاری اکثریت کیساتھ فتح حاصل کی جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے پاکستان کے مغربی حصے میں کامیابی حاصل کی۔ بنگالی قوم پرستی کے فروغ میں ہندو اساتذہ اور بھارت کی سازشوں نے بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ بنگالی عوام کی پاکستان کے خلاف تسلسل کیساتھ ذہن سازی کی گئی اور ان کے ذہنوں میں پاکستان کے خلاف زہر بھرا گیا اور ان کو حقوق کے غصب ہونے کا احساس دلایا گیا۔
1970ء کے انتخابات میں فتح کے بعد عوامی لیگ کو اگر اقتدار سونپ دیا جاتا تو حالات بہتر ہو سکتے تھے لیکن افسوس کہ عاقبت نااندیش سیاستدانوں نے اس حوالے سے مناسب کردار ادا نہ کیا اور عوامی لیگ کو اقتدار دینے کے بجائے 'اِدھر ہم اُدھر تم‘ کے نعرے کو فروغ دیا جس کی وجہ سے ملک دولخت ہو گیا۔ 1971ء میں چونکہ بنگلہ دیش کا قیام ایک مضبوط عوامی تحریک کے طور پر ہوا تھا اس لیے بنگالی قوم پرستوں نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے ہر اس فرد کو انتقام کا نشانہ بنایا جو اسلام اور پاکستان سے محبت کرنے والا تھا۔ شیخ مجیب الرحمان کے بعد ان کی بیٹی شیخ حسینہ واجد نے بھی عصبیت اور نفرت کو بنگلہ دیش کی سیاست میں فروغ دینے کی پالیسی کو برقرار رکھا۔ حسینہ واجد جون 1996ء سے جولائی 2001ء تک ملک کی وزیراعظم رہیں‘ اس کے بعد جنوری 2009ء سے لے کر 5 اگست 2024ء تک وہ بنگلہ دیش میں متواتر برسرِ اقتدار رہیں۔
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کو بھی سیاسی اعتبار سے عوام کی اچھی تائید حاصل رہی اور عوام الناس نے ان کو بھی مختلف حلقوں سے مینڈیٹ دیا لیکن جماعت اسلامی کی اسلام اور پاکستان سے وابستگی شیخ حسینہ واجد اور عوامی لیگ کے لیے ناقابلِ قبول تھی۔ اس لیے ایک پلاننگ کے تحت جماعت اسلامی کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا اور جماعت اسلامی کے بہت سے رہنما حکومتی اذیتوں کا نشانہ بنے۔ جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر غلام اعظم‘ ملا عبدالقادر اور دیگر بہت سے قائدین کو شدید انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ ان رہنمائوں پر آزادی کی تحریک کے دوران پاکستان کی ہمنوائی کا الزام لگا کر کڑی سزائیں دی گئیں۔ شیخ حسینہ واجد مسلسل انتقام کی پالیسی پر عمل پیرا رہیں اور اپنے مخالفین کو دبانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتی تھیں۔ جماعت اسلامی کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی سیاسی حریف خالدہ ضیا کو بھی نہیں بخشا اور جیل میں ڈالے رکھا۔ اس سیاسی انتقام پر مبنی سیاست کو فروغ دینے کے لیے انہوں نے ہر قسم کے ہتھکنڈوں کو آزمایا اور اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے سرکاری ملازمتوں پر بھی اپنے لوگوں کو فوقیت دی۔ اس مقصد کے لیے ایک قانون بنا کر سرکاری ملازمتوں میں عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے کارکنوں کے اہلِ خانہ کے لیے 50 فیصد کوٹہ مقرر کر دیا گیا۔ یہ فیصلہ دینی طبقات کے ساتھ ساتھ معتدل ذہن رکھنے والے بنگالیوں کے لیے بھی قابلِ قبول نہ تھا اور یہ تاثر ابھر رہا تھا کہ آنے والے ایام میں شیخ حسینہ واجد انتقام کی پالیسی کو مزید شدت کے ساتھ جاری رکھیں گی۔ اس پالیسی کے خلاف بھرپور عوامی ردعمل کا آغاز ہوا اور یہ تحریک بڑھتے بڑھتے اس حد تک جا پہنچی کہ سرکاری بلڈنگوں پر باقاعدہ حملوں کی نوبت آ گئی۔ اس ساری صورتحال کو دیکھ کر بنگلہ دیشی افواج کو مداخلت کرنا پڑی اور شیخ حسینہ واجد کو الٹی میٹم دیا گیا کہ وہ 45 منٹ کے اندر اندر بنگلہ دیش سے نکل جائیں۔ شیخ حسینہ واجد نے مہلت کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور فی الفور بنگلہ دیش سے فرار ہو گئیں۔ اس موقع پر مزاحمت کاروں اور عوامی لیگ کے درمیان بھرپور جھڑپیں ہوئیں جن میں بہت سے افراد کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی بانی جماعت عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن کے مجسموں کو بھی توڑا جا رہا ہے۔
بنگلہ دیش میں ہونے والی یہ تبدیلیاں درحقیقت اس بات کا سبق سکھاتی ہیں کہ حکمرانوں کو طاقت کے نشے میں اندھا ہو کر عوامی حقوق کو غصب کرنے اور نظریاتی مخالفوں کو انتقام کا نشانہ بناتے وقت اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی لاٹھی بے آواز ہے اور قدرت جلد یا بدیر‘ ظالموں اور غاصبوں کا کسی بھی طریقے سے احتساب کر سکتی ہے۔ انسان اقتدار میں رہتے ہوئے اس بات کا گمان کرتا ہے کہ شاید میرا اقتدار لافانی ہے اور مجھے ملنے والا مینڈیٹ ہمیشہ کے لیے ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ عوامی مینڈیٹ یا عوامی تائید سے انسان کسی بھی وقت محروم ہو کر اللہ تبارک وتعالیٰ کے عتاب اور گرفت کا نشانہ بن سکتا ہے۔ معاشروں میں بقائے باہمی کو فروغ دینا اور مختلف قسم کے نظریات کے حامل لوگوں کو ان کے نظریات کے باوجود برداشت کرنا ہی سمجھدار حکمرانوں کا شعار ہونا چاہیے۔ جو حکمران اپنے نظریاتی مخالفوں کا استحصال اور استیصال کرنے سے باز نہیں آتے وہ جلد یا بدیر فقط اقتدار سے ہی محروم نہیں ہوتے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے سامانِ عبرت بھی بن جاتے ہیں۔ شیخ حسینہ واجد نے اپنے دورِ اقتدار میں اپنی قوت کو اپنے مخالفین کے خلاف بے مہابا طور پر استعمال کیا اور جہاں کہیں بھی موقع ملا ‘اسلام اور پاکستان کے ہمنوائوں کو بھرپور طریقے سے کچلنے کی کوشش کی لیکن جس انداز سے ان کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا‘ اس سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ ظلم کی رات جتنی بھی لمبی کیوں نہ ہو‘ اس کے بعد عدل اور انصاف کی صبح ضرور طلوع ہوتی ہے۔ حسینہ واجد نے اپنے دورِ اقتدار میں جن بے گناہ لوگوں کو قید وبند کی صعوبتوں کا نشانہ بننے پہ مجبور کیا تھا‘ آج کی خبر کے مطابق وہ ہزاروں لوگ آزاد ہو کر اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔ جن لوگوں کو نظریاتی اختلافات کی وجہ سے سرکاری مناسب سے جبراً معزول کیا گیا تھا‘ ان میں سے بہت سے لوگ اپنی سابقہ پویشنوں پر بحال ہو گئے ہیں۔ یقینا ہر عروج کو زوال ہے۔
ہمیشہ کا عروج اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کی ذات کے شایانِ شان ہے اور دنیا کے ہر حاکم کو اپنے آپ کو مخلوق کا خادم سمجھ کر حکومت کرنی چاہیے اور اللہ مالک الملک کی طرف سے ملنے والے اقتدار کی امانت کو پانے کے بعد تکبر اور غرور کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے عاجزی اور انکساری کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ بنگلہ دیش کی تازہ صورتحال نے خطے کی سیاست پر بھی بڑے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور تمام لوگ بنگلہ دیش کے حالات کو بڑی یکسوئی کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔
ایک ظالم اور جابر حکمران کی حکومت کو گرتا اور ڈوبتا ہوا دیکھ کر اس بات پر یقین مزید پختہ ہو رہا ہے کہ یقینا سب سے بڑی اور لافانی ذات فقط پروردگارِ عالم ہی کی ذات ہے اور ہمیں اس مالک الملک اور ذوالجلال والاکرام کی گرفت سے کبھی بھی بے نیا زنہیں ہونا چاہیے اور ہمیشہ اس کے سامنے عاجزی اور انکساری کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔