کرشن چندر کا تبادلہ لاہور سے دہلی ریڈیو سٹیشن ہو گیا تھا۔ یہاں ادیبوں کی کہکشاں تھی جن میں جگن ناتھ آزاد‘ فیض احمد فیض‘ ن م راشد‘ سعادت حسن منٹو اور ایم ڈی تاثیر شامل تھے۔ یہ کرشن چندر کی فنی زندگی کا سنہری دور تھا۔ اس عرصے میں اس نے ریڈیو کے بے شمار ڈرامے لکھے۔ وہ دہلی کے ایک محلے تیس ہزاری میں رہنے لگا تھا۔ اس کی تنخواہ معقول تھی مگر اس کے ہاتھ میں پیسہ نہیں ٹھہرتا تھا۔ تنخواہ کے سارے پیسے مہینے کے آخر تک ختم ہو جاتے۔ یوں وہ معقول آمدنی کے باوجود اکثر تنگ دست ہی رہا۔
کرشن چندر برسرِ روزگار ہوا تو گھر والوں نے اس کی شادی کا سوچا۔ یوں دسمبر 1939ء میں اس کی شادی لاہور کی ایک پڑھی لکھی خاتون وِدیا دَتی سے کر دی۔ اس شادی سے ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہوا۔ کرشن چندر کو شادی کے بعد احساس ہوا کہ میاں بیوی کی شخصیت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ دونوں کے شوق‘ دلچسپیاں اور خواب مختلف ہیں‘ لیکن بچوں کی خاطر مجبوری کے عالم میں دونوں ایک دوسرے سے نباہ کیے جا رہے تھے۔ گھر کے حالات جیسے بھی تھے‘ کرشن چندر کا ادبی سفر اسی آب و تاب سے جاری تھا۔ اس دوران اس کا پہلا افسانوی مجموعہ طلسم خیال (1939ء) لاہور کے پبلشر چودھری نذیر احمد نے شائع کیا۔ اس مجموعے کا پہلا افسانہ ''جہلم میں ناؤ پر‘‘ تھا۔ طلسم خیال کے بعد'' نظارے‘‘ (1940ء) اور'' گھونگھٹ میں گوری جلے ‘‘(1953ء) شائع ہوئے۔
کرشن چندر نے ہجرت کے تجربے کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ 1947ء میں جب ہندوستان کی تقسیم ہوئی وہ ملازمت کے سلسلے میں دہلی میں تھا۔ تقسیم کے اعلان سے اس کی زندگی کے سنہری دن اور سنہری دنوں سے جڑی ہوئی یادیں سرحد پار رہ گئی تھیں۔ ایف سی کالج‘ جہاں اس نے زندگی کی کتنی بہاریں گزاری تھیں‘ لاہور میں موہنی روڈ پر اس کا گھر‘ جہاں اس نے اپنے تخلیقی سفر کے کئی سنگِ میل عبور کیے تھے۔ پھر تقسیم کا سال‘ جب اس نے فسادات کے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے‘ اس نے مہاجروں کے کیمپوں میں جا کر ان کی کہانیاں سنی تھیں۔ وہ ایک حساس طبیعت کا مالک تھا۔ یہ کہانیاں اسے دن رات بے چین رکھتی تھیں۔ پھر اس نے ان کہانیوں کو لکھنا شروع کیا اور اپنے مشاہدات کو اپنی تحریروں میں امر کر دیا۔ ''ہم وحشی ہیں‘‘ انہی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔
اُس دور میں اور لوگ بھی کہانیاں لکھ رہے تھے لیکن کرشن چندر کا اسلوب سب سے جدا تھا۔ اس کی تحریر پڑھنے والوں کو یوں لگتا ہے جیسے وہ کسی چمن کی روشوں سے گزر رہے ہیں اور ان کے اردگرد خوش رنگ پھولوں کی کلیاں چٹک رہی ہیں۔ کرشن چندر کی تحریر میں ایک بے ساختہ پن تھا جس میں رنگ اور خوشبو گھل مل گئے تھے۔ کرشن چندر کے افسانے ''لاہور سے بہرام گلہ تک‘‘ کی چند سطور ملاحظہ کریں جس میں ہر لفظ تصویر بن گیا ہے:
''رنگ برنگ پھول کھلے ہوئے تھے۔ ان کی مہک سے ساری ہوا معطر تھی۔ سنبل اور رس بھری پھلوں سے لدی پھندی تھیں۔ کہیں شمشاد کے نازک بوٹے کھڑے تھے تو کہیں اخروٹ کے قد آور درخت لانبے لانبے ڈال پھیلائے سایہ کر رہے تھے اور ان پر جنگلی پرندے بیٹھے تھے۔ جنگلی ککڑ‘ رَت گلے اور سنہو لے‘ جن کے پر تتلیوں کی طرح رنگین تھے اور جن کی بولیاں بلبل کے نغموں کی طرح دل فریب تھیں۔ کبھی کوئی پرندہ پر پھیلائے کُو کُو کرتا‘ قوس قزح کی طرح چمکتا ہوا سامنے سے گزر جاتا اور آنکھوں کو روشن کر جاتا۔ کبھی کوئی صدیوں کے پرانے شاہ بلوط کا چھتنارا سامنے آجاتا جس کے خوش گوار سائے میں نوجوان چرواہیں اور چرواہے ریوڑوں کو ساتھ لیے ہوئے‘ گاتے ہوئے‘ الغوزے بجاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں‘‘۔
کرشن جب بھی کسی منظر کا بیان کرتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے وہ منظر سانس لیتا ہوا جاگ اُٹھا ہے۔ اسی طرح وہ کسی کہانی کے کردار کے بارے میں بتاتا تو وہ کردار اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ ہماری نگاہوں کے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ کرشن کے افسانے ''آدھے گھنٹے کا خدا‘‘ میں ایک کردار ایک نوجوان لڑکی موگری کا ہے۔ موگری کا سراپا بیان کرتی ہوئی یہ سطور ملاحظہ کریں:
''چمکتی ہوئی گہری سیاہ آنکھوں والی موگری‘ انگاروں کی طرح دہکتے ہوئے ہونٹوں والی موگری‘ 19برس کی موگری۔ وہ جب ہنستی تھی تو ایسا لگتا تھا گویا سیب کی ڈالیوں سے پھول جھڑ رہے تھے۔ ایسی مہکتی ہوئی سپید ہنسی جو سیب کے پھولوں کی یاد دلائے یا پر کھول کر ہوا میں کبوتری کی طرح اُڑ جائے۔ وہ ذرا سے کھلے‘ ذرا سے بند انگاروں کی طرح دہکتے ہوئے شریر ہونٹ‘‘۔
کرشن چندر کی ماں کی خواہش تھی کہ بیٹا بڑا ہو کر جج بنے۔ اس نے ایم اے انگلش کے بعد لا ء کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری بھی حاصل کر لی اور لاہور کے ایک کالج میں لاء پڑھانا شروع کر دیا۔ لیکن کرشن کا دل کہانیاں لکھنے میں اٹکا ہوا تھا۔ میں سوچتا ہوں اگر وہ جج بن جاتا تو اردو ادب ایک سر بلند کہانی نویس اور ناول نگار سے محروم ہو جاتا۔ کچھ عرصے کے بعد پروفیسر سَنت سنگھ کے ساتھ مل کر ایک انگریزی رسالہ The Northern Review نکالا جو کچھ عرصہ چلنے کے بعد بند ہو گیا۔ پھر ایک رسالہ The Modern Girl کا اجرا ایک خاتون کے ساتھ مل کر کیا۔
ابھی کرشن چندر کے افسانوں کی دھوم مچی ہوئی تھی کہ کرشن چندر نے ناول لکھنے کا فیصلہ کیا۔ ''ساقی‘‘ رسالہ کے مدیر اور معروف ادیب شاہد احمد دہلوی کی کرشن چندر سے دوستی تھی۔ انہوں نے کرشن چندر کو ناول لکھنے کے لیے ایک ہزار روپے پیشگی ادا کیے اور طے ہوا کہ ناول شاہد احمد دہلوی کے مکتبہ ساقی بک ڈپو سے شائع ہو گا۔ کرشن چندر نے ناول کے پیشگی پیسے لیے اور کشمیر کے خوبصورت علاقے گلمرگ چلا گیا۔ اس کے تخلیقی وفورکے اظہار کے لیے ایسی ہی خوبصورت جگہ کی ضرورت تھی۔ کرشن چندر نے یہاں کی صبحوں اور شاموں کے رنگ چرا کر لکھنا شروع کیا۔ یہ اس کی زندگی کا پہلا ناول تھا۔ اس کے لیے وقت کی تمیز ختم ہو گئی تھی‘ وہ اردگرد سے بے نیاز اپنی کتابوں کے بہاؤ کے ساتھ بہتا چلا جا رہا تھا۔ یوں لگتا تھا وہ کہانی نہیں لکھ رہا ہے‘ کہانی خود بخود لکھی جا رہی ہے۔ وہ تو بس کاغذ پر قلم چلا رہا تھا۔ اکیسویں دن ناول کا مسودہ مکمل ہو چکا تھا۔ اس نے ناول کا نام ''شکست‘‘ رکھا۔ اس کہانی کا موضوع سماجی اور طبقاتی فرق ہے۔ یہ موضوع ہمیشہ کرشن چندر کے دل کے قریب رہا تھا۔ جب ''شکست‘‘ ناول شائع ہوا تو ہندوستان کی ادبی فضا میں ہلچل مچ گئی۔ شاہ احمد دہلوی کا کہنا ہے کہ بہت سے ادیبوں نے کرشن چندر کے ناول ''شکست‘‘ کے بعد ناول لکھنے کا ارادہ کیا اور کچھ نے تو شاہد احمد دہلوی سے ایڈوانس بھی لے لیا۔ ان میں فیض احمد فیض بھی شامل تھے جنہوں نے چھ سو روپے لیے لیکن کچھ ماہ بعد شاہد احمد دہلوی کو لوٹا دیے اور معذرت کر لی۔ پہلے افسانے کی طرح کرشن چندر کا پہلا ناول بھی بے حد مقبول ہوا۔
دہلی میں کچھ عرصہ ریڈیو پر کام کرنے کے بعد وہ لکھنؤ سٹیشن پر آگیا‘ یہاں وہ لکھنؤ ریڈیو سٹیشن کا ڈرامہ انچارج بن گیا۔ لکھنؤ میں اس کی ملاقاتیں سبطِ حسن‘ مجاز‘ ا حتشام حسین‘ فراق گورکھپوری اور حیات اللہ انصاری سے رہیں۔ لیکن کرشن چندر اب ریڈیو کی ملازمت سے اُکتا چکا تھا۔ وہ کچھ نیا کرنا چاہتا تھا۔ اس کی اگلی منزل کیا ہو گی‘ اسے کچھ خبر نہ تھی۔ تب ایک رات اسے معرو ف فلم ڈائریکٹر ڈبلیو زیڈ احمد کا فون آیا۔ اس وقت کرشن چندر کو خبر نہ تھی کہ یہ فون اس کی زندگی کا رُخ بدلنے والا ہے۔ (جاری)