میں اکتوبر 2002ء سے خواجہ آصف کو اسمبلی میں تقاریر کرتے دیکھ رہا ہوں۔ تقریر کرتے ہوئے ان پر جو کیفیت طاری ہوتی ہے‘ اس کا کوئی جواب نہیں۔ خواجہ آصف کی بعض تقاریر تو یادگار ہیں۔ ایک تقریر انہوں نے اپنے والد خواجہ صفدر کے بارے کی تھی جب انہوں اسمبلی میں کھڑے ہو کر باقاعدہ معافی مانگی تھی کہ ان کے والد کو جنرل ضیا الحق کا ساتھ نہیں دینا چاہیے تھا اور وہ ان کے بیٹے کی حیثیت سے قوم سے معافی مانگتے ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب جنرل پرویز مشرف حکمران تھے اور نواز لیگ زیرِ عتاب تھی۔ خواجہ آصف پرویز مشرف کی وجہ سے نیب کے ہاتھوں جیل بھگت چکے تھے‘ ان کے یہ زخم تازہ تھے لہٰذا وہ اپنی تقاریر سے پورے ہاؤس کے دل گرماتے تھے۔ انہوں نے اُن دنوں اپنی تقاریر میں مقتدرہ پر سخت تنقید بھی کی جس کا حوالہ عمران خان نے سوموار کے روز اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بھی دیا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ مقتدرہ پر جتنی تنقید خواجہ آصف اور احسن اقبال نے کی ہے آج تک کسی نے نہیں کی۔ احسن اقبال بارے کہا کہ وہ ان چند سیاستدانوں میں سے تھے جنہوں نے حمودالرحمن کمیشن رپورٹ کا پہلی دفعہ حوالہ دیا تھا۔ عمران خان یہ حوالہ دے کر مقتدرہ کو شاید یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ انہوں نے پھر بھی ہاتھ ہولا رکھا ہے‘ ورنہ خواجہ آصف اور احسن اقبال نے تو ریڈ لائن کراس کر لی تھی۔ تاہم عمران خان کچھ بھی کہتے رہیں مقتدرہ پر ان کی تنقید کا ریکارڈ کوئی نہیں توڑ سکتا۔ احسن اقبال نے ایک دفعہ حمودالرحمن کمیشن رپورٹ کا حوالہ دیا ہو گا لیکن عمران خان تو برسوں سے یہ حوالہ دیتے آئے ہیں۔ پچھلے دنوں تو ان کے ٹویٹر اکاؤنٹ سے 1971ء کے پس منظر میں ایک ایسی وڈیو بھی ٹویٹ کی گئی تھی جس پر وہ خود بھی گھبرا گئے کہ کیا کر بیٹھے ہیں‘ لہٰذا عمران خان کا اپنا ریکارڈ بھی اس حوالے سے کچھ بہتر نہیں ہے‘ چاہے وہ اب خواجہ آصف اور احسن اقبال کے کندھوں پر بندوق رکھ کر فائرکرتے رہیں۔
سوموار کے روز بھی خواجہ آصف نے دلچسپ تقریر کی جب انہوں نے اسمبلی ہال میں محمود خان اچکزئی پر طنز کے تیر برساکر انہیں کچھ یاد دلایا تو محمود اچکزئی کو کوئی جواب نہ سوجھا اور وہ بیٹھے دیکھتے رہے کہ خواجہ آصف کو کیا جواب دیں۔ خواجہ آصف کو بھی علم تھا کہ یہی موقع ہے‘ محمود خان اچکزئی کو جتنا رگڑا لگایا جا سکتا ہے‘ لگا لیا جائے۔ خواجہ آصف جانتے تھے کہ اچکزئی صاحب بھی تقریر کیلئے مشہور ہیں لیکن اس ایشو پر وہ جواب نہیں دے پائیں گے۔ خواجہ آصف حیرانی سے پوچھ رہے تھے کہ بھلا اچکزئی جیسا 'اصول پسند جمہوری انسان‘ اب عمران خان کا نمائندہ بن کر مقتدرہ سے بات چیت کیلئے تیار ہوگیا ہے؟ یہ چمتکار کیسے ہوا؟خواجہ آصف کی تقریر کا مقصد یہ تھا کہ محمود اچکزئی تو ساری عمر کہتے رہے ہیں کہ وہ مقتدرہ کی سیاست میں مداخلت کے خلاف ہیں اور اتنا خلاف ہیں کہ بات کرنا تو دور کی بات‘ وہ ان سے کبھی ہاتھ نہ ملائیں۔ اب اچانک اچکزئی عمران خان کا نمائندہ بن کر مقتدرہ سے بات چیت کے لیے کیسے تیار ہوگئے؟ آخر کون سی مجبوری آن پڑی کہ اچکزئی نے برسوں کے سیاسی اصول عمران خان کی سیاست پر قربان کر دیے اور وہ خان کو ناں کرنے کی ہمت نہ کر سکے؟ تو کیا عمران خان نے اچکزئی جیسے بندے کو اپنی لائن پر لگا لیا ہے اوراب وہ پی ٹی آئی کے دیگر ورکرز کی طرح ہیں جس نے بغیر کوئی سوال جواب کیے خان کے کہے پر عمل کرنا ہے؟ اسی لیے خواجہ آصف کا خیال ہے کہ محمود اچکزئی عمران خان کا نمائندہ کیسے بن سکتے ہیں جو سیاستدانوں سے نہیں بلکہ مقتدرہ سے بات چیت کرنا چاہتا ہے اور صدمے کی بات تو یہ ہے کہ پشتون قوم پرست اس کام کے لیے تیار بھی ہوگیا؟ تو کیا محمود اچکزئی بھی ہار مان کر پنجاب کے سیاستدانوں کی طرح ہو گئے ہیں ‘ ان کیلئے اب اپنے پرانے مؤقف پر ڈٹے رہنا ممکن نہیں رہا۔ اب اچکزئی بھی سندھ‘ پنجاب اور دیگر صوبوں کے سیاستدانوں کی طرح پاور پالیٹکس کا شکار ہو گئے ہیں جہاں اقتدار اور عہدے ہی سب کچھ سمجھے جاتے ہیں اور اب اچکزئی کے نزدیک اصول‘ قاعدے اورقانون کی کوئی اہمیت نہیں۔
عمران خان نے بڑی سمجھداری سے محمود اچکزئی کو آصف زرداری کے مقابلے صدر کے الیکشن پر اپنا امیدوار بنایا‘ کیونکہ اچکزئی نے عمران خان کے حق میں ایک تقریر کی تھی۔ عمران خان کو اتنی دیر لگتی ہے متاثر کرنے میں‘ ورنہ اپنے جلسوں اور تقریروں میں وہ اچکزئی کا مذاق اڑاتے اور ان پر جملے کستے تھے کہ نواز شریف کے ساتھ مل گئے تاکہ بھائی کو گورنر بلوچستان اور رشتہ داروں کو وزیر لگوالیں اور مخصوص سیٹیں دلوا سکیں۔مزے کی بات ہے کہ جس پنجاب کو محمود اچکزئی طعنے دیتے تھے جب ضرورت پڑی تو اسی پنجاب کے سیاستدانوں کے پاس رائیونڈ اور مری میں بیٹھ کر بھائی کو گورنر لگوایا۔ پختون اور بلوچ قوم پرستوں نے پاور شیئرنگ کے لیے بھی رائیونڈ اور مری کا انتخاب کیا۔ خان اس لیے اچکزئی سے ناراض تھا کہ وہ تو اپنے تئیں اچکزئی کو دیوتا سمجھتا تھا جسے کوئی سیاسی رشوت نہیں خرید سکتی اور یہاں وہ بھائی کی گورنر شپ لے کر پنجاب کے لیڈروں سے راضی ہو گیا۔ حالانکہ اچکزئی پنجاب کے لیڈروں سے ناراض رہتا تھا کہ وہ مقتدرہ کے ذریعے پاور میں آتے ہیں اور ڈیلیں کرتے ہیں۔ اب وہی اچکزئی عمران خان کا نمائندہ بن کر مقتدرہ کے کسی نمائندے سے خفیہ یا اعلانیہ ملاقات کیلئے تیار ہے۔ یہی بات تھی جس پر خواجہ آصف ان پر طنز کے تیر برسا رہے تھے کہ آپ کیسے بدل گئے‘ کیسے عمران خان کی سیاست کو اونرشپ دے رہے ہیں‘ آپ تو ہمیشہ سیاست اور پارلیمنٹ کی بات کرتے تھے۔ ساری عمر یہی بھاشن دیا اور اب آپ مقتدرہ سے بھی مذاکرات کے لیے تیار ہیں کیونکہ عمران خان نے آپ کو حکم دیا ہے۔شاید محمود اچکزئی کو بھی علم ہے کہ وہ عمران خان کا نمائندہ بن کر اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہیں۔ وہ ساری عمر کا اپنا بیانہ خود خراب کررہے ہیں۔ پھر انہوں نے ایسا کیوں کیا؟
میرا خیال ہے اچکزئی یہ بھاشن اُس وقت دے رہے تھے جب تک انہیں پاور میں حصہ نہیں ملا تھا‘ جب وہ اقتدار سے دور تھے۔ جونہی نواز شریف نے مری بلا کر انہیں بھی پاور کا چسکا لگایا‘ ان کے خاندان کے لوگ بڑے بڑے عہدوں پر پہنچے تو پھر بقول علامہ اقبال وہی بات ہوئی کہ
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
خواجہ آصف کو علم تھا کہ اچکزئی کا ڈنک کب کا نکل چکا ہے۔ اب وہ پنجاب اور سندھ کے سیاستدانوں کی طرح پاور پالیٹکس کے شوقین ہیں۔ اب ان کے منہ کو بھی سیاسی چسکا لگ چکا ہے۔ اب وہ پرانے محمود اچکزئی نہیں رہے۔ اب وہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں کو طعنے مارنے کی پوزیشن میں نہیں رہے۔ وہ کھڑے ہو کر جواب نہیں دیں گے۔ مجھے خواجہ آصف کا اچکزئی بارے اندازہ درست نکلنے پر خوشی نہیں‘ دکھ ہوا۔ ہوسِ جاہ کی خواہش بڑے بڑوں کو نگل گئی۔ محمود اچکزئی کچھ برس پہلے تک اس سے بچے ہوئے تھے‘ لیکن اب وہ بھی سوکھی لکڑی کی طرح راکھ بن گئے ہیں۔
میرا بائی کا شعر یاد آیا:
لکڑی جل کوئلہ بھئی‘کوئلہ جل بھئی راکھ
او میں ابھاگن ایسی جلی نہ بھئی کوئلہ نہ راکھ