پاکستانی سیاست میں حصہ لینا ایک مکمل پیکیج ہے۔ سب کو پہلے سے علم ہے کہ یہ پیکیج کیا ہو گا۔ فوائد اور نقصانات کا سب کو علم ہے۔ آپ سوچ سمجھ کر اس پیشے کو جوائن کرتے ہیں۔ جیسے کسی شخص کو ملازمت پر رکھنے سے پہلے اسے کنٹریکٹ کی شرائط دکھائی جاتی ہیں اور وہ پورا کنٹریکٹ پڑھنے کے بعد ہی اس پر دستخط کرتا ہے‘ سیاست کا پیشہ بھی ایسا ہی ہے۔ اگرچہ سیاست اور عام نوکری میں ایک فرق ہے۔ نوکری آپ کی ضرورت ہوتی ہے‘ آپ نے اپنی زندگی کا سائیکل چلانا ہوتا ہے۔ اپنی فیملی‘ بیوی بچوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ انہیں کھانا پلانا‘ گھر کا کرایہ‘ سکول اخراجات اور کچن چلانا ہوتا ہے لہٰذا آپ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جاب کیلئے اپلائی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ آپ کو نوکری کی شدت سے ضرورت ہوتی ہے تاکہ زندگی کا سائیکل چل سکے۔ نوکری ہی آپ کی اچھی جگہ شادی کا سبب بنتی ہے۔ یوں بڑا دبائو ہوتا ہے‘ جسکی وجہ سے شرائط اگر پسند نہ بھی ہوں تب بھی نوکری کرنا پڑتی ہے۔ جاب پسند نہ بھی ہو تب بھی اپنی فیملی کیلئے کام کرنا پڑتا ہے۔
میں شرط لگا کر کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان میں 99فیصد لوگ وہ کام کر رہے ہیں جو ان کو پسند نہیں۔ اس لیے وہ زندگی‘ حالات اور نوکری سے ہمیشہ تنگ رہتے ہیں۔ ہاں! آپ مسلسل محنت کرتے رہیں تو ایک مرحلہ ایسا ضرور آتا ہے جب بڑے اداروں یا کارپوریشنز سے جاب آفرز آتی ہیں۔ تب آپ اپنی مرضی کا کنٹریکٹ لے سکتے ہیں۔ اپنی شرائط پر وہ ادارہ جوائن کر سکتے ہیں۔ اس مرحلے تک پہنچنے کیلئے کم از کم دس سال تک مسلسل سر جھکا کر محنت کرنا پڑتی ہے‘ پھر کہیں جا کر کسی فیلڈ میں کام اور نام بنتا ہے۔ لیکن سیاست کا پیشہ اس کے بالکل الٹ ہے۔ کبھی آپ نے نوٹ کیا کہ سیاست میں کون لوگ آنا چاہتے ہیں اور کیوں؟ شاید آپ سوچیں کہ زیادہ تر افراد کو اس ملک اور قوم کا دکھ درد سونے نہیں دیتا اور وہ ملک کی تقدیر بدلنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے ملک کو دوسری قوموں سے بڑا نہیں تو ان کے برابر ضرور دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں غریبوں کا بڑا دکھ اور درد ہے اور وہ اپنے ملک کی حالت دیکھ کر کڑھتے رہتے ہیں۔ میں ان تمام باتوں سے اتفاق نہیں کرتا۔ ان سب کو میں نے اپنے 26سالہ پروفیشنل کیریئر میں بڑے قریب سے دیکھا اور سمجھا ہے۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو لندن میں بھی بڑے قریب سے دیکھا اور ان کی سیاست کو سمجھنے کی کوشش کی۔ پاکستان میں عمران خان کو قریب سے دیکھا۔ ایم پی اے سے لے کر ایم این اے‘ سینیٹرز سے وزیر‘ وزیراعظم اور اپوزیشن رہنمائوں تک‘ سب سے دعا سلام رہی۔ انہیں پارلیمنٹ میں دیکھا‘ ان کی تقریریں سنیں‘ قائمہ کمیٹیوں میں دیکھا‘ ان کی گفتگو سنی۔ ان کو قلابازیاں مارتے دیکھا‘ اپنے وعدوں اور قسموں سے مکرتے دیکھا (جسے وہ فخر سے سیاسی بیانات کا نام دیتے ہیں)۔ انہیں ڈرامے کرتے اور مگرمچھ کے آنسو بہاتے دیکھا۔ انسانی ٹریجڈی پر انہیں لطیفے اور قہقہے لگاتے دیکھا۔ اگر یقین نہیں آ رہا تو پشاور آرمی پبلک سکول کے ہولناک واقعے کو یاد کریں‘ جب سکول میں 150بچوں کا بہیمانہ قتل ہوا تھا۔ وزیراعظم نواز شریف اور عمران خان پشاور میں اکٹھے پریس کانفرنس کر رہے تھے تو میاں صاحب نے ایک جگت لگائی اور عمران خان سمیت سب ہنسنے لگے۔ یہ تھا اتنی بڑی انسانی ٹریجڈی پر ہمارے محبوب لیڈروں کا ڈرامہ‘ ابھی 24گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے‘ ابھی والدین نے اپنے بچوں کو دفن بھی نہیں کیا تھا کہ ملک کا وزیراعظم اور اپوزیشن کا وہ لیڈر‘ جو وزیراعظم کی جگہ لینے کی کوششوں میں لگا ہوا تھا‘ وہ بیٹھے مذاق کر رہے تھے۔ یقین نہیں آتا تو وہ وڈیو ڈھونڈ کر دیکھ لیں۔
زیادہ تر وہی لوگ سیاست میں آتے ہیں جو پاور‘ پیسے اور پروٹوکول کے بھوکے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہوتا ہے‘ پھر اچانک انہیں احساس ہوتا ہے کہ سب کچھ ہے لیکن انہیں کوئی نہیں جانتا۔ قریبی تھانے کا ایس ایچ او تک ان کا فون نہیں اٹھاتا۔ ڈپٹی کمشنر یا ڈی پی او تو دور کی بات ہیں۔ پھر انہیں پتا چلتا ہے کہ فلاں ایم این اے یا ایم پی اے کی بہت ٹور ہے۔ اس کے مقرر کردہ ٹھیکیدار کو ہی کروڑوں کا ٹھیکہ ملتا ہے‘ جس میں سے بقول شاہد خاقان عباسی‘ 30فیصد کمیشن اُس عوامی نمائندے کی جیب میں جاتا ہے۔ ایک عام ایم پی اے یا ایم این اے کی سوچ یہاں تک ہی ہوتی ہے کہ اس کا اپنے ضلع میں رعب و دبدبہ ہو‘ نام ہو‘ کچھ دہشت ہو‘ ہلا گلا ہو‘ لوگ اس کے ڈیرے پر بیٹھے ہوں‘ کوئی منت ترلا کر رہا ہو‘ کوئی بچے کی نوکری کی درخواست لے کر آئے تو تو کسی کو انکم سپورٹ پروگرام سے مدد چاہیے ہو۔ کسی نے پاسپورٹ آفس تو کسی نے تھانے کے ایس ایچ او کو فون کرانا ہو۔ کوئی پٹواری تو کوئی اپنے مخالفین کی استانیوں کے تبادلے کی درخواست لے کر بیٹھا ہو۔ اس ایم پی اے یا ایم این اے کو یہ سب کچھ دیکھ کر لگتا ہے کہ اب اپُن ہی بھگوان ہے۔ اپُن ہی کی وجہ سے دنیا کا نظام چل رہا ہے۔ یوں وہ جو شہرت اور پروٹوکول کا بھوکا ہے‘پہلے سیاسی پارٹیوں کو چندہ دے گا‘ پھر پہلے سے موجود سیاستدانوں کے کسی گروپ میں شامل ہو جائے گا۔ پھر وہ الیکشن میں داخل ہو گا۔ جب وہ صوبائی یا قومی سطح تک پہنچتا ہے تو وہ بہت کچھ جان چکا ہوتا ہے۔ وہ ایف ایس سی میڈیکل کے اس طالبعلم کی طرح گفتگو کرتا ہے جس کا ابھی صرف میڈیکل کالج کا میرٹ بنا ہوتا ہے مگر اس سے پوچھا جائے تو وہ پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ آپ کو بتائے گا کہ وہ ڈاکٹر بن کر دکھی انسانیت کی خدمت کرے گا اور پھر اسے اپنی محنت یاد رہتی ہے‘ وعدے یاد نہیں رہتے۔ ایم بی بی ایس کر کے وہ کمرشل ڈاکٹر بن جاتا ہے جس کا کام صرف پیسہ کمانا ہوتا ہے۔ وہ خود کو تسلی دیتا رہتا ہے کہ اس کا کام دکھی انسانیت کی خدمت نہیں‘ اس نے برسوں پڑھا‘ دن رات ایک کیا۔ والدین نے لاکھوں‘ کروڑوں اس پر خرچ کیے۔ اب اس کی ایک فیملی ہے۔ اگرچہ چند ڈاکٹر ضرور ایسے ہوتے ہیں جو واقعی انسانیت کیلئے ڈاکٹر بنتے ہیں لیکن وہ چند ایک ہی ہوتے ہیں۔
دوسری طرف بڑے لیول کے سیاسی کھلاڑی کچھ اور سوچ کر سیاست میں داخل ہوتے ہیں۔ ان کو بنیادی انسانی ضروریات پورا کرنے کی مجبوری نہیں ہوتی۔ نہ ان کے بچے بھوک سے بلک رہے ہوتے ہیں کہ انہوں نے ان کیلئے کمانا ہے۔ ان کی ضروریات کچھ اور ہوتی ہیں۔ وہ اپنے جیسے انسانوں پر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ملک کے بادشاہ بننا چاہتے ہیں۔ وہ لوگوں کی زندگیوں کے فیصلے کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سب کچھ اسی عوام کے خرچے پرحاصل کرنا چاہتے ہیں جن کی غربت کا رونا رو کر وہ ووٹ لے کر وزیر یا وزیراعظم بنتے ہیں۔ وہ اب اسی عوام کی کھال اتارنا چاہتے ہیں‘ جنہوں نے انہیں اچھے دنوں کی امید پر ووٹ دیا ہوتا ہے۔
حکمران بننے کے بعد وہ انہی کاروباریوں کو بڑے بڑے ٹھیکے دیں گے جنہوں نے انہیں چندہ دیا تھا۔ پارٹی فنڈ کے نام پر پیسہ بنائیں گے۔ بڑی بڑی گاڑیاں‘ پروٹوکول‘ ہٹو بچو‘ سب کچھ مفت۔ اور ہاں! اگر وزیراعظم ہو کر کرپشن میں پکڑے جائیں تو مظلومیت کا رونا دھونا الگ۔ ملکی اکانومی بھلے ڈوب جائے لیکن انکے بچوں کے کاروبار دن رات ترقی کرتے ہیں۔ اگر غیر ملکی گفٹ ملیں تو بھی بیرونِ ملک جا کر ڈالروں میں بیچ دیں‘ اس قانون کے نام پر جو انہوں نے خود کو فائدہ دینے کیلئے بنایا تھا۔ جب لوٹ مار کا کیس بنے تو وہی عوام سڑکوں پر آکر انہیں سپورٹ کریں گے‘ ہنگامے کریں گے جن کے وسائل انہوں نے لوٹے ہیں۔ وہی عوام بچائیں گے جن کی حالت بدلنے کیلئے آپ سیاست میں آئے تھے۔ عوام کی حالت تو نہ بدلی لیکن آپ کے خاندان‘ بیوی بچوں اور ڈونرز کی تقدیر ضرور بدل گئی۔ اب غریب عوام آپ کو قانون سے بچانے کیلئے سڑکوں پر پولیس سے اپنی چھترول کرا رہے ہیں۔ اب بتائیں ایسا پیشہ‘ پیسہ‘ پاور اور پروٹوکول کون نہیں لینا چاہے گا‘ چاہے اس میں اس سیاستدان؍ حکمران کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے؟