نیپال‘ جنوبی ایشیا کا ایک چھوٹا سا ملک ہے جس میں بسنے والوں کی اکثریت ہندو ہے۔ اس ملک میں اسلام سے وابستہ لوگوں کی بھی ایک کثیر تعداد آباد ہے۔ نیپال سے تعلق رکھنے والے دو معروف علما کی دینی خدمات پورے برصغیر کے طول و عرض میں معروف ہیں۔ مولانا عبدالرؤف جھنڈا نگری نے دین کے حوالے سے بہت سی مفید کتابیں لکھیں اور طویل عرصے تک دین کی نشر و اشاعت میں مشغول رہے۔ اسی طرح شیخ عزیر شمس کے بھائی شیخ عمیر شمس بھی ایک عرصے سے نیپال میں دین کی نشر و اشاعت کے کاموں میں مشغول ہیں۔ شیخ عزیر شمس بھارتی ریاست بہار سے تعلق رکھنے والے ایک عظیم عالم دین تھے جو مکہ مکرمہ میں جا کر مقیم ہوئے۔ انہوں نے امام ابن تیمیہؒ کی فکر اور تصانیف پر غیرمعمولی دسترس حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ علمِ حدیث میں بھی بہت کمال حاصل کیا۔
مجھے شیخ عزیر شمس کے ساتھ 2016ء میں ملاقات کرنے کا موقع ملا تھا جب میں سعودی عرب کے سرکاری مہمان کی حیثیت سے ماہِ رمضان میں عمرہ کی ادائیگی کے لیے گیا تھا۔ مولانا ارشاد الحق اثری پاکستان کے ایک معروف شیخ الحدیث ہیں۔ اس سفر میں وہ سرکاری وفد کا حصہ تھے اور ہم اتفاق سے ایک ہی کمرے میں مقیم تھے۔ ڈاکٹر حسن مدنی اور مولانا ارشاد الحق اثری کی صحبت سے مجھے بہت زیادہ فائدہ اٹھانے کا موقع ملا۔ اس دوران بہت سے علمی موضوعات پر تبادلۂ خیال بھی ہوتا رہا۔ مولانا ارشادالحق اثری کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے غیرمعمولی علم اور بصیرت سے نوازا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر حسن مدنی بھی پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ علومِ اسلامیہ کے مدرس اور ممتاز عالمِ دین ہیں۔ آپ کو دینی علوم سے گہری وابستگی ہے اور آپ کی فقہی آرا بھی بڑی متوازن اور علم پر مبنی ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر حسن مدنی اور مولانا ارشاد الحق اثری کے ساتھ گزرنے والا وقت یقینا ہر اعتبار سے یادگار تھا۔ اس موقع پر شیخ عزیر شمس کے ساتھ بھی ملاقات کا موقع میسر آیا۔
پاکستان کے ایک جید عالمِ دین مولانا ابراہیم الحسینوی نے شیخ عزیر شمس کی خدمات اور زندگی پر ایک خوبصورت کتاب قلمبند کی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے شیخ عزیر شمس کی علم و عمل سے لبریز زندگی کا بڑے خوبصورت انداز میں احاطہ کیا۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد مولانا عزیر شمس کے چھوٹے بھائی شیخ عمیر شمس اس کتاب کی تعارفی تقریبات میں شرکت کے لیے پاکستان تشریف لائے۔ مولانا عزیر شمس نے مختلف مقامات پر خطاب کیا اور بہت سے اہلِ علم کے ساتھ ملاقاتیں بھی کیں۔ دارالحکمہ کے ترجمان محمد سلیم میرے دیرینہ دوست ہیں۔ انہوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور مجھے آگاہ کیا کہ شیخ عمیر شمس آپ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ میرے لیے یقینا یہ ہر اعتبار سے خوشی اور سعادت کی بات تھی کہ نیپال سے تعلق رکھنے والی ایک عظیم علمی شخصیت میری رہائش گاہ پر تشریف لائے۔ اہلِ علم کی میزبانی کرنا یقینا ہر اعتبار سے شرف اور خوشی کی بات ہے۔
مولانا عمیر شمس تشریف لائے تو میں آپ کی دلآویز شخصیت اور اخلاق سے بہت زیادہ متاثر ہوا۔ میں نے مولانا کو بااخلاق‘ منکسر المزاج اور علم پرور شخصیت پایا۔ مولانا عمیر شمس اس وقت نیپال میں جمعیت علمائے اہلِ حدیث کے سربراہ ہیں اور نیپال کے طول و عرض میں ہزاروں لوگ آپ کے عقیدت مند ہیں۔ مولانا عمیر شمس نے اس ملاقات میں والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ سے اپنے قریبی تعلق کا ذکر بھی کیا اور چینیاں والی مسجد میں ان کے بعض خطباتِ جمعہ کی روداد بھی سنائی۔ مولانا عمیر نے یہ بات بھی بتلائی کہ علامہ احسان الٰہی ظہیر نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں نیپال کے تبلیغی دورے کے لیے وقت دیا تھا لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ کو کچھ اور منظور تھا۔ علامہ صاحب ایک بم دھماکے میں اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے اور نیپال تشریف نہ لے جا سکے۔
مولانا عمیر شمس نے نیپال میں دعوتی سرگرمیوں کے حوالے سے بہت ہی خوبصورت انداز میں اپنے تجربات سے آگاہ کیا۔ مولانا نے یہ بتایا کہ نیپال میں اس وقت بہت سے مدارس اور دینی ادارے تبلیغِ دین کے فریضے کو بطریقِ احسن انجام دے رہے ہیں اور بڑی تعداد میں لوگ حلقہ بگوش اسلام ہو رہے ہیں۔ مولانا نے یہ بھی بتلایا کہ نیپال میں اس وقت دعوتی سرگرمیوں کے لیے میدان بہت ہموار ہے اور جس باشعور شخص کو بھی اللہ کے دین کی دعوت دی جاتی ہے وہ غور و فکر کرنے کے بعد حلقہ بگوش اسلام ہو جاتا ہے۔ مولانا عمیر شمس کی اس بات کو سن کر میرے ذہن کی سکرین پر ماضی کے بہت سے داعیوں کی زندگی کے حالات چلنا شروع ہو گئے۔ میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بھی بھارت میں بطریقِ احسن دعوتِ دین کا فریضہ انجام دیا اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ ان کے خطابات اور دروس کو سن کر حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی دعوتی سرگرمیاں انتہا پسند ہندوؤں کو ایک آنکھ نہ بھائیں اور ذاکر نائیک پر بلا سبب دہشت گردی اور انتہا پسندی کے جھوٹے الزامات لگا کر ان کی دعوتی سرگرمیوں کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی‘ بالآخر انہیں حکومت کے عتاب سے بچنے کے لیے اپنے آبائی وطن کو خیرباد کہنا پڑا۔ اسی طرح دنیا کے مختلف مقامات پر دین کی دعوت دینے والے داعی اپنے اپنے انداز سے لوگوں کو دین کی دعوت دے رہے ہیں۔ برطانیہ میں آئرہ کے نام سے ایک منظم ادارہ کام کر رہا ہے۔ اس ادارے سے عبدالرحیم گرین‘ یوسف چیمبر‘ عدنان رشید اور دیگر بہت سے داعیانِ اسلام وابستہ ہیں۔ یہ لوگ انفرادی دعوت سے لے کر اجتماعی دعوت تک‘ ہر طریقے سے دین کی خدمت کے فریضے کو انجام دے رہے ہیں۔ ایسے افراد اور تنظیموں کی کاوشوں سے یورپ کے طول و عرض میں دعوتِ دین کے فریضے کے ساتھ ساتھ افریقہ کے پسماندہ علاقوں میں بھی دین کی دعوت کے فریضے کو بہت ہی احسن طریقے سے انجام دیا جا رہا ہے۔ جولائی میں‘ جب میں برطانیہ کے دورے پر تھا تو مجھے اس موقع پر ایک مرتبہ پھر برادر عدنان رشید کے ساتھ ملاقات کا موقع میسر آیا۔ برادر عدنان رشید نے مجھے اس موقع پر یہ بات بتلائی کہ لوگ قرآن و سنت کے دلائل کو سن کر بہت تیزی کے ساتھ حلقہ بگوش اسلام ہو رہے ہیں۔ عدنان رشید نے ماضی میں میری ملاقات عبدالرحیم گرین اور یوسف چیمبرز سے بھی کرائی تھی۔ ان کی دعوتی سرگرمیوں کے اثرات دیکھ کر مجھے اس بات پر ایک مرتبہ پھر یقین اور اطمینان حاصل ہوا کہ مادیت کی فراوانی اور دنیا کی چکا چوندکے باوجود اللہ تبارک و تعالیٰ جس شخص کو چاہے اپنے دین کا راستہ دکھلا دیتا ہے۔
مولانا عمیر شمس نے جہاں نیپال میں غیر مسلموں کو دی جانے والی دعوتی سرگرمیوں سے آگاہ کیا وہیں انہوں نے اس بات سے بھی آگاہ کیا کہ مسلمانوں کی عملی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے کے لیے بھی اصلاحی پروگرام منعقد کیے جا رہے ہیں جس کے ذریعے مسلمانوں کو اعمالِ صالحہ کی رغبت دلائی جاتی ہے۔ مولانا نے مجھ سے بھی عہد لیا کہ نیپال میں مستقبل میں ہونے والے دعوتی اجتماعات میں میری بھی شرکت ہونی چاہیے۔ میں نے مولانا عمیر شمس کو اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم سے وقت آنے پر مجھے نیپال جانا پڑا تو ان شاء اللہ میں ضرور حاضر ہوں گا اور جس حد تک ممکن ہوگا دعوتِ دین کے فریضے کو انجام دینے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاؤں گا۔
مولانا عمیر شمس کے ساتھ یہ یادگار ملاقات گھنٹوں جاری رہی۔ اس ملاقات میں مولانا کو مل کر دلی اطمینان اور مسرت حاصل ہوئی اور اس بات پر شرحِ صدر حاصل ہوا کہ یقینا دینی تعلق سے بڑھ کر کوئی تعلق نہیں ہے۔ دین کا تعلق جغرافیہ‘ علاقہ اور زبان کے فرق کو مٹا دیتا ہے اور انسانوں کو ایک دوسرے کے اتنا قریب کر دیتا ہے گویا کہ ہم اپنے خونی رشتہ داروں کے ساتھ مل رہے ہوں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ شرق و غرب میں دین کے لیے کام کرنے والے لوگوں کی محنتوں کو قبول فرمائے اور ہم سب کو دین کی خدمت کی توفیق دے‘ آمین!