حالات ہمارے سامنے ہیں اورقوم دیکھ رہی ہے اورمحسوس کررہی ہے کہ اس کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔لیکن ہمارا تویہ وتیرہ ہے کہ حالات سے کچھ سیکھنا نہیں اور بیوقوفی کے راستوں پر چلتے جانا ہے۔ پتا نہیں ہمارے حکمران طبقات کہاں سے نازل ہوئے ہیں اور یہ بھی نہیں معلوم کہ کس گناہ کی پاداش میں قوم کو یہ سب کچھ بھگتنا پڑرہا ہے۔
ایسی ایسی حرکتیں کی جاتی ہیں جن کا نہ سر نہ پیر اورجن کے نتیجے میں سوائے رسوائی کے اورکچھ حاصل نہیں ہوتا۔ہمیں کوئی سمجھا تو دے کہ کشمیری شاعراحمدفرہادشاہ کو اٹھانے اورپھر گم کر دینے سے کسی کو کیا حاصل ہوا ؟مصیبتیں اُسے جھیلنی پڑیں لیکن ضمانت تو آخر ہو ہی گئی‘ توپھراس سارے ناٹک کاکیا نتیجہ نکلا؟اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اخترکیانی کو اس بات کی داد دینی پڑتی ہے کہ اس مسئلے میں ایک بھرپور سٹینڈ لیا اورجن کا کبھی ذکر نہیں ہوا کرتا تھا اُن کو نہایت ہی کھلے طریقے سے ہدفِ تنقید ٹھہرایا۔ اسلام آباد کے متعلقہ ایس ایچ او سے کھلی عدالت میں پوچھا کہ فلاں کا 161کا بیان کیوں نہیں لیا گیا؟ اس نوبت تک بات کبھی پہلے نہ پہنچتی تھی لیکن جب اگلوں نے بھی حد کر دی تو ججوں کو سٹینڈ لینا پڑا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ جج صاحبان نے جو سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا اُس کے پیچھے بھی یہی بات تھی کہ مداخلت کی تمام حدیں پار ہو رہی تھیں۔ جج صاحبان نے جو کیا‘ شوقیہ نہیں مجبورہوکرکیا ۔ اور یہ جو سرگودھا کی ایک انسدادِ دہشت گردی عدالت کے ایک جج نے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحب کوجو خط لکھا کہ فلاں طرف سے مداخلت کی کوشش کی گئی اورمیرے ملنے سے انکار پر دھمکیاں دی گئیں اورفیملی تک کو ہراساں کیا گیا‘یہ بھی عقل سے عاری مداخلت کی مثال ہے۔اس پر لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے خوب سٹینڈ لیا اور توہین ِعدالت کا نوٹس دے دیا۔ جو چیف جسٹس صاحب کھل کرکہہ رہے ہیں اُسے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اُنہوں نے کہا ہے کہ وہ دن آئے گا کہ اس قسم کی مداخلت ختم ہو جائے گی۔ ایک تقریب میں اُنہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ جج صاحبان اس قسم کی مداخلت قبول نہیں کریں گے اور دلیری سے اپنے فرائض سر انجام دیں گے۔ یہاں تک بات آنی نہیں چاہیے تھی لیکن جیسے عرض کیا اس انداز سے کام چلائے جا رہے ہیں کہ عدلیہ کومجبورہوکر یہ سب کچھ کرنا پڑرہا ہے۔یہ نہیں کہ سارے جج صاحبان دلیر ہو گئے ہیں لیکن جسٹس محسن اخترکیانی کچھ کہتے ہیں یا چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کچھ سٹینڈ لیتے ہیں تودوسروں کیلئے یہ مثال بنتی ہے۔قوم کو بھی حوصلہ ملتا ہے کہ نہیں حالات اتنے گئے گزرے بھی نہیں اور کچھ لوگ ہیں جن میں اتنی ہمت اور استقامت ہے کہ بے جا اوربیکار کی مداخلت کے سامنے کھڑے ہو رہے ہیں۔
فروری 8کے الیکشنوں تک تو یوں لگ رہا تھا کہ جو کچھ ہو رہا ہے اُس کے سامنے کوئی کھڑا نہیں ہوسکتا۔ لیکن اسلام آباد کی تینوں سیٹوں کی پٹیشنز جسٹس طارق محمود جہانگیری نے سننی شروع کیں توالیکشن کمیشن کو بھی سمجھ آنے لگی کہ یہ کام الٹ نہ ہو جائے۔ اسلام آباد کے ہارے ہوئے امیدوار‘ جن کو جتوا یا گیا‘ ان میں سے دو میرے ساتھ قومی اسمبلی کے ممبر رہ چکے ہیں۔حیران ہوں ان پر کہ دنیا جانتی ہے کہ الیکشن میں ان کا حشر کیا ہوا تھا لیکن فارم 47کی ان پر مہربانی ہوئی تو یہ جا اسمبلی میں بیٹھے۔ کچھ تو ندامت یا شرمندگی ہونی چاہیے‘ لیکن یہاں تو ایسی کوئی چیز ہے نہیں۔اب یہ فارم 47والے اسلام آباد کے فاتحین کوشش کر رہے ہیں کہ ان کی دائرکردہ پٹیشنز جسٹس جہانگیری نہ سنیں۔کہیں اور یہ پٹیشنز چلی جائیں‘ ان کے سامنے نہ آئیں۔اب تک تو الیکشن کمیشن یہی سمجھ رہا تھا کہ سب کچھ اُس کے اختیار میں ہے لیکن موسم ہلکا ہلکا جو بدل رہا ہے اُس سے ان کی پریشانی بڑھ رہی ہے۔
مسئلہ صرف الیکشن پٹیشنوں یا عدلیہ کے کام میں مداخلت کا نہیں۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ملک کے حالات بڑے خراب ہیں اورحکمران بندوبست ہے کہ بے بس لگ رہا ہے۔ یہ جو قیمتی سوٹو ں میں ملبوس حکمران ہیں کسی کو ان پر کوئی اعتماد ہے؟ اگلوں کی مہربانی سے اسمبلی اور حکومتوں میں بیٹھے ہیں‘ کیا قوم ان کی حقیقت نہیں جانتی؟ اور حقیقت جانتے ہوئے کوئی ان پر بھروسا کرسکتا ہے؟ عوام الناس کا جینا پہلے ہی مشکل تھا‘ نئے ٹیکسوں کی بھرمار سے پوری قوم کا رگڑا لگ جائے گا۔ یہاں جن کی موجیں ہیں اُن کا بال بھی بیکانہیں ہوتا کیونکہ اوپر کے طبقات پہ ہاتھ کبھی لگتا نہیں نہ اس بار ان کی طرف کسی کو دیکھنے کی ہمت ہوئی ہے۔ بس بیچارے عوام ہیں جن کا گلا مزید گھونٹا جا رہا ہے۔وہ صحافی کا کیا خوبصورت سوال تھا وزیر خزانہ سے کہ باتیں آپ بہت کرتے ہیں لیکن عوام کو ہی دبائے جا رہے ہیں اوپر والوں پہ ہاتھ آپ ڈال نہیں سکتے‘ نہ آپ میں اتنی ہمت ہے یہ پوچھنے کی کہ دبئی میں ان کی جائیدادیں کہاں سے آئی ہیں۔ پریس کانفرنس تالیوں سے گونج اُٹھی اور وزیر خزانہ کے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا۔
موجودہ صورتحا ل کا بنیادی نکتہ کیا ہے؟یہی کہ صرف ایک نمائندہ حکومت ملکی مسائل کا صحیح انداز سے سامنا کر سکتی ہے۔ فارم 47 کے بھرتی لوگوں کے یہ بس کی بات نہیں۔ اس سے کیا ہوگا کہ عمران ریاض خان کو پھر سے پکڑلیا؟ حج پہ جانا چاہ رہا تھا ‘ روک لیا گیا اورپھر اُس پر اوٹ پٹانگ پرچے دھردیے گئے۔ ان کارروائیوں سے کیا حاصل ہو رہا ہے؟ کتنی دیر یہ پہلے اندررکھا گیا تھا؟ کیا اس کے خیالات تبدیل ہو گئے؟ کیا ٹیلی ویژن پر آکر اس نے کوئی تیارشدہ بیان پڑھ کے سنا دیا ؟ فضول کی کارروائیاں اب بند ہونی چاہئیں‘ ان سے کسی کی نیک نامی نہیں ہو رہی۔ طاقت کا گھمنڈ بھی تب ہوتاہے جب سب چیزیں آپ کے کنٹرول میں ہوں‘ لیکن جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں اب ایسی صورتحال نہیں۔ حکمرانی کا ایک جو دکھاوا ہوتا ہے اُس میں دراڑیں پڑرہی ہیں۔عدلیہ کی طرف سے مخالفانہ آوازیں اس کی ایک واضح مثال ہے۔
ان خواتین قیدیوں کو دیکھ لیں جو کہ پچھلے سال مئی کے مہینے سے بند ہیں۔ سارے درج شدہ مقدموں میں اُن کی ضمانتیں ہوتی ہیں توفضول کے نئے پرچے درج کردیے جاتے ہیں۔لیکن ان کی ہمت کی داد دینا پڑتی ہے کہ ان کے حوصلے بلند ہیں۔میانوالی کی انسدادِدہشت گردی عدالت کا قصہ دیکھ لیجئے۔ امجدخان نیازی اوردیگر کئی اشخاص کی ضمانتیں جج صاحب نے لے لیں اور پولیس نے احاطۂ عدالت کا گھیرا کرلیا۔ آخری خبریں آنے تک میانوالی خوشاب روڈ بندپڑی تھی‘ اسی ارادے کے ساتھ کہ یہ لوگ احاطۂ عدالت سے نکلیں گے تو کسی نئے مقدمے میں انہیں دھر لیا جائے۔ ایسا کیوں کیا جارہا ہے؟ایسے ہتھکنڈوں سے کیا حاصل ہو رہاہے؟ حکومتی کارکردگی اچھی ہوتی‘ معیشت کی کچھ بہتری ہوپاتی‘ مہنگائی پر کچھ کنٹرول ہوتاپھر تو اور بات تھی۔ لیکن معاشی اورسیاسی حالات خراب اورساتھ ہی زورزبردستی سے کام لینے کی کوششیں۔ اس سے کوئی نیک نامی تو پیدا نہیں ہو رہی۔ قومیں جنگوں کا سامنا کرتی ہیں ‘ تباہی وبربادی برداشت کرتی ہیں لیکن حوصلے قائم رہتے ہیں۔یہاں صورتحال یہ ہے کہ بدگمانی اوربے یقینی بڑھتی جا رہی ہے۔لوگو ں کا یقین پست ہو رہا ہے۔ جن پر اعتبار ہونا چاہیے اُن سے اعتبار اٹھتا جا رہا ہے۔ یہ بڑی خطرناک صورتحال ہے۔ لیکن کسی کوکوئی پروا نہیں۔ ترجیحات یہی ہیں کہ فلاں کو اندررکھنا ہے ‘ فلاں کو دبانا ہے۔ لیکن حالات جتنے بھی خراب ہوں قوم دبی نہیں۔اس سے امید پیدا ہوتی ہے کہ حالات ہمیشہ ایسے نہیں رہیں گے۔