سنی اتحاد کی مخصوص نشستیں دوسروں کو دینے کا فیصلہ معطل: لارجز بینچ کی تشکیل کیلئے کیس ججز کمیٹی کے سپرد، سماعت 3 جون تک ملتوی: سپریم کورٹ

سنی اتحاد کی مخصوص نشستیں دوسروں کو دینے کا فیصلہ معطل: لارجز بینچ کی تشکیل کیلئے کیس ججز کمیٹی کے سپرد، سماعت 3 جون تک ملتوی: سپریم کورٹ

اسلام آباد(نمائندہ دنیا، دنیا نیوز)سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کے حصے کی مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے کا پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کردیا،یہ کیسے ممکن کسی کا مینڈیٹ کسی اور کو دے دیا جائے؟۔۔۔

 سیاسی جماعتیں اپنے تناسب سے تو نشستیں لے سکتی ہیں، باقی انہیں کیسے مل سکتی ہیں؟ کیا ایسا کرنا آئینی سکیم کے خلاف نہیں؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا پہلی بار ایک بڑی سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کیا گیا، کہاں لکھا انتخابی نشان نہ ملنے پر سیاسی جماعت الیکشن نہیں لڑ سکتی؟ مینڈیٹ کو ان ڈائریکٹ طریقے سے نظر انداز کرنا کیا درست؟ سپریم کورٹ نے اپنے تحریری حکم میں لکھا انتخابی عمل کی ساکھ سب سے اہم ہے ،جمہوری مینڈیٹ کیلئے ضروری ہے کہ مخصوص نشستیں عوامی نمائندگی کی عکاس ہوں، پشاور ہائیکورٹ اورالیکشن کمیشن کے فیصلوں کی معطلی اضافی سیٹوں کو دینے کی حد تک ہوگی۔جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر مخصوص نشستوں پر نامزد خواتین ارکان اسمبلی اور وفاقی حکومت کی جانب سے بینچ پر اعتراض عائد کیا گیا اورمؤقف اختیار کیا گیا کہ یہ آئین کے آرٹیکل 51 کی تشریح کا مقدمہ ہے ،پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت کیس 5 رکنی بینچ سن سکتا ہے، عدالت نے وفاقی حکومت کی جانب سے 3 رکنی بینچ پر اعتراض مسترد کردیا،جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے کہ اگر اپیلیں قابل سماعت قرار پائیں تو کوئی بھی بینچ سن لے گا، اس سٹیج پر تو2رکنی بینچ بھی سماعت کرسکتا ہے،وکیل سنی اتحاد کونسل نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں جے یو آئی کو 7 نشستوں پر 10 مخصوص نشستیں دی گئیں، پیپلز پارٹی کو چار نشستوں پر 6 اور ن لیگ کو پانچ نشستوں پر 8 مخصوص نشستیں دی گئیں، مخصوص نشستوں سے متعلق الیکشن کمیشن کے تمام اقدامات کو غیر قانونی قرار دیا جائے ،جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے کہ قانون میں کہاں لکھا ہے کہ بچی ہوئی نشستیں دوبارہ انہیں سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی، ہمیں عوامی مینڈیٹ کی حفاظت کرنی ہے ، اصل مسئلہ عوامی مینڈیٹ کا ہے، مخصوص نشستوں کی تقسیم کا آئینی اصول کیا ایک تکنیکی اصول سے ختم ہوسکتا ہے۔

اگر ایک سیاسی جماعت نے مخصوص نشستوں کیلئے فہرست جمع نہیں کرائی تو آئین نظر انداز ہو سکتا ہے؟ ہمارے لئے کوئی سیاسی جماعت متعلقہ نہیں ، اہم بات سیاسی جماعت کی پارلیمنٹ میں نمائندگی ہے یا نہیں، 82 نشستوں پر آپ کے مطابق 23 مخصوص نشستیں بنتی ہیں، یہ سوال اہم ہے کہ بانٹی گئی مخصوص نشستیں دوبارہ بانٹی جا سکتی ہیں، کیا یہ 23 مخصوص نشستیں دوبارہ بانٹی جاسکتی ہیں، ایسا آئین اور قانون میں ہے ؟ اگر بانٹی گئی نشستیں دوبارہ نہیں بانٹی جا سکتیں تو کیا وہ خالی رہیں گی،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا سیاسی جماعت کو اتنی ہی مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں جتنی جیتی ہوئی نشستوں کے تناسب سے ان کی بنتی ہیں، ایک بڑی سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کیا گیا، قانون میں یہ کہاں لکھا ہے کہ انتخابی نشان نہ ملنے پر وہ سیاسی جماعت الیکشن نہیں لڑ سکتی؟ پی ٹی آئی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت تو ہے ،پی ٹی آئی وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ جی یہی سوال لے کر الیکشن سے قبل میں عدالت گیا تھا،جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ کسی اور کا مینڈیٹ نظر انداز کر کے کیسے دیا جا سکتا ہے ، بغیر معقول وجہ بتائے مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں میں بانٹی گئیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے الیکشن کمیشن حکام سے پوچھا کہ کیا آزاد امیدواروں کی نشستیں دیگر جماعتوں کو بانٹی جاسکتی ہیں؟ 200آزاد امیدواروں کی مخصوص نشستیں کیا 6امیدواروں والی سیاسی جماعت کو مل جائیں گی۔وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ جی بالکل ایسا ہی ہے ، اس پر کمرہ عدالت میں موجود پی ٹی آئی خواتین اور وکلا نے قہقہے لگائے ،وکیل الیکشن کمیشن نے جواباً کہا کہ کمرہ عدالت میں موجود شرکا ہنستے رہیں لیکن آئین یہی کہتا ہے ، اگر آزاد امیدوار کسی سیاسی جماعت کو جوائن نہیں کرتا تو سیٹیں دیگر جماعتوں میں ہی بانٹی جائینگی،بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کو سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کے علاوہ دوسروں کو دینے کے الیکشن کمیشن اور ہائیکورٹ کے فیصلوں کو معطل کردیا، عدالت نے وضاحت کی کہ فیصلوں کی معطلی صرف اضافی سیٹوں کو دینے کی حد تک ہوگی،عدالت نے لارجر بینچ کی تشکیل کیلئے کیس پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت قائم ججز کمیٹی کو بھی بھجوا دیا۔

عدالت نے اپنے تحریری حکم میں لکھا اضافی مخصوص نشستوں کی حد تک فیصلے معطل کئے جاتے ہیں، اٹارنی جنرل اور صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کردیا گیا ہے، الیکشن کمیشن کے وکیل کے مطابق سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیااور مخصوص نشستوں کیلئے کم از کم ایک سیٹ پر الیکشن جیتنا لازمی ہے، اٹارنی جنرل نے الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل سے اتفاق کیا، آئینی تشریح کا معاملہ ہونے پرلارجر بینچ کی تشکیل کیلئے معاملہ ججز کمیٹی کو بھیجا جاتا ہے، کیس کی آئندہ سماعت 3 جون کو ہوگی۔واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کا فیصلہ دیا تھا، پشاور ہائیکورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا تھا،سنی اتحاد کونسل نے الیکشن کمیشن فیصلہ کیخلاف اپیلیں دائر کیں۔

اسلام آباد (نمائند دنیا)چیف جسٹس سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن رپورٹ کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا فیض آباد دھرنا فیصلے پر عمل درآمد کر لیا جاتا تو 9 مئی کے واقعات نہ ہوتے عدالت نے کہا لگتا ہے پوری انکوائری کمیشن رپورٹ کا مقصد فیض حمید کو کلین چٹ دینا تھا ،عدالتی حکمنامے میں کہا گیا ہماری رائے میں کمیشن کی رپورٹ میں ٹی او آرز کا جواب نہیں دیا،کمیشن ان موضوعات میں گیا جو کہ ٹی او آرز میں شامل ہی نہیں تھے، عدالت نے نوٹ کیا کمیشن نے سب سے یکساں برتائو نہیں کیا،کچھ بیانات حلف پر لیے گئے جبکہ کچھ افراد کو محض سوالنامہ بھجوایا گیا ،حیران کن طور پر کمیشن نے ٹی ایل پی کے کسی رکن کا بیان قلم بند نہیں کیا،انکوائری کمیشن نے اپنا دائرہ اختیار کو غلط سمجھا کہ اسلام آباد احتجاج کیلئے آنا آئینی طور منع ہے ،کمیشن نے عدالتی فیصلے کے اس پہلو کو نہیں دیکھا کہ فیصلے میں لکھا ہے کہ قانون کے دائرے میں پرامن احتجاج آئینی حق ہے ،انتہائی مایوسی کی بات ہے کمیشن نے رپورٹ میں صوبائیت کو ہوا دی ،کمیشن نے اشتعال انگیزیزی پھیلانے والوں کو نذر انداز کیا، عدالت نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا وفاقی حکومت کمیشن رپورٹ کی توثیق کرتی ہے۔

اٹارنی جنرل کا کہناتھا وہ اس حوالے سے حکومت کی جانب سے رپورٹ پیش کریں گے ،اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری ذاتی رائے میں کمیشن کی رپورٹ کچھ مواد نہیں،اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کمیشن نے ٹی او آرز پر کوئی زیادہ توجہ نہیں دی،اٹارنی جنرل وفاقی حکومت کی جانب سے رپورٹ داخل کریں،اٹارنی جنرل تحریری طور پر دو ہفتے میں بتائیں کیا حکومت اس رپورٹ کو پبلک کرنا چاہتی ہے یا نہیں ،حکومت کمیشن کی رپورٹ پر عدالتی حکم کی آبزرویشن سے کمیشن کے ارکان کو آگاہ کرے ،کمیشن کے ارکان عدالتی آبزرویشن کا جواب تحریری یا عدالت میں پیش ہو کر ذاتی حیثیت میں دے سکتے ہیں ۔پیر کے روز چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے انکوائری کمیشن نے فیض حمید کے بیان کی بنیاد پر رپورٹ تیار کردی،دھرنے کی وجہ سے پاکستان کا کتنا نقصان ہوا،پاکستان کے نقصان کی کسی کو پرواہ ہی نہیں،آگ لگائو ،مارو یہ اب کچھ لوگوں کا حق بن گیا ہے ۔اٹارنی جنرل نے کہا لیفٹیننٹ جنرل( ر)فیض حمید نے کمیشن کو بتایا کہ مالی معاونت کے معاملات دیکھنا آئی ایس آئی کی ذمہ داری نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا اگر ان کی ذمہ داری نہیں تو پھر یہ کس کی ذمہ داری ہے ،رپورٹ کے ایک پیراگراف میں کہہ رہے ہیں مالی معاملات دیکھنا آئی ایس آئی کی ذمہ داری نہیں،دوسرے پیراگراف میں لکھ رہے ہیں ٹی ایل پی کی مالی معاونت کے ثبوت نہیں ملے ،پاکستان کو فیض آباد دھرنے سے کتنے نقصانات ہوئے سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھیں،مارو، جلائو گھیرائوکرو اور چلے جائویہ کیا طریقہ کار ہے ؟مجھے تو انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر مایوسی ہی ہوئی ہے ، پاکستان بنا تھا بتائیں کہیں کسی نے آگ لگائی تھی؟یہاں ہر جگہ بس آگ لگا دو والی بات ہے ،کمیشن کہہ رہا ہے جو کر رہے تھے وہ ذمہ دار نہیں پنجاب حکومت ذمہ دار ہے ،پنجاب حکومت رانا ثنا اللہ چلا رہے تھے وہی ذمہ دار ہیں، کمیشن نے یہ نہیں بتایا کہ حلف کی خلاف ورزی کس نے کی، کمیشن کیسے کہہ سکتا کہ مظاہرین کو پنجاب میں روکنا چاہیے تھا؟ پرامن احتجاج کرنا ہر شہری کا حق ہے ، مجھے معلوم نہیں کمیشن کو کس بات کا خوف تھا، انکوائری کمیشن کو لگتا ہے پنجاب حکومت سے کوئی بغض ہے ۔اس کمیشن نے کسی چیز پر کوئی فائنڈنگ نہیں دی،مجھے کہیں بھی اس کمیشن کی فائنڈنگ نظر نہیں آرہی،انکوائری کمیشن نے پارلیمان اور عدالت کی پاور لی مگر جو کام کرنا تھا وہ نہیں کیا،جو کام تھا وہ نہیں کررہے بلکہ ادھر ادھر کی عجیب باتیں کر رہے ہیں،بہت شکریہ، یہ کہنے کیلئے کیا ہمیں کمیشن بنانے کی ضرورت تھی؟اگر 2019 والے فیصلے پر عمل کرتے تو 9 مئی کا واقعہ بھی شاید نہ ہوتا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کمیشن نے لکھا نظرثانی درخواستیں اتفاق سے سب نے دائر کیں اور اپنی وجوہات پر واپس لیں۔چیف جسٹس نے کہا ماشا اللہ، یہ کمیشن والے لوگ پتہ نہیں پولیس میں کیسے رہے ،یہ ایسے ہی ہے کہ چور سے پوچھ لیا کہ تو نے چوری تو نہیں کی،درخواستیں دائر کرنے والے سب لوگوں سے پوچھ تو لیتے ،کیا خوبصورت اتفاق تھا اتنی نظرثانی درخواستیں ایک ساتھ دائر ہوئیں، کیا کمیشن نے ٹی ایل پی کی طرف سے کسی کو بلایا؟شاید ٹی ایل پی والے ہی کمیشن کی معاونت کر دیتے ۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں ٹی ایل پی کے کسی بندے کا بیان نہیں۔چیف جسٹس نے کہا ٹی ایل پی کو بلاتے ہوئے شاید انہیں ڈر لگ رہا تھا،جن سے متعلق انکوائری کر رہے تھے ان کا موقف لے لیتے ،اسلحہ لانے والوں کی نیت تو واضح تھی کہ وہ پرامن مظاہرین نہیں تھے ،لگتا ہے ڈی جی آئی بی نے گھر سے رپورٹ بنوا کے جمع کروا دی،یہ رپورٹ بہت مایوس کن ہے ،انکوائری کمیشن رپورٹ کے بجائے اخبار میں آرٹیکل لکھ دیتا، انکوائری کمیشن والے تو دفتر سے باہر تک نہیں نکلے۔

سپریم کورٹ کا ایک چیف جسٹس تو ایک بم بنانے والی فیکٹری تک گیا تھا ،یہاں کمیشن نے جو انگریزی رپورٹ میں استعمال کی وہ بھی غلط ہے ، ادھر ادھر سے محاورے اٹھائے اور رپورٹ میں ڈال کے بھیج دئیے ،لگتا ہے پوری انکوائری کمیشن رپورٹ کا مقصد فیض حمید کو کلین چٹ دینا تھا ،فیض حمید نے یہ فتویٰ دیا اور کمیشن والوں نے مان لیا ،کیا فیض حمید کو ذاتی حیثیت میں بلایا گیا تھا ؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا انکوائری کمیشن نے فیض حمید کو سوالنامہ بھیجا تھا جس کا جواب آیا تھا۔چیف جسٹس نے کہا اوہ ہو اچھا !انکوائری کمیشن نے فیض حمید کو بلانے کی جرات تک نہیں کی؟ہم نے تو اپنے فیصلے میں فیض حمید کا نام تک نہیں لکھا تھا ، کمیشن کو جو کام دیا وہ نہیں کیا باقی پورے پاکستان کو ٹھیک کرنے کی باتیں لکھ دیں،کیا کمیشن والوں کو انکوائری کیلئے کوئی رقم بھی دی گئی؟اٹارنی جنرل نے کہا اصل رقم ابھی نہیں بتا سکتا مگر ان کو ادائیگی کی گئی ہے، میں اس پر وفاقی حکومت سے ہدایات لوں گا۔بعد ازاں عدالت نے مزید سماعت دو ہفتوں کیلئے ملتوی کردی ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں