مذہبی آزادی کا بنیادی حق آئین،قانون اور امن عامہ سے مشروط:سپریم کورٹ

مذہبی آزادی کا بنیادی حق آئین،قانون اور امن عامہ سے مشروط:سپریم  کورٹ

اسلام آباد(دنیا نیوز)سپریم کورٹ نے مبارک احمد ثانی کیس میں نظرثانی درخواستیں جزوی منظور کرلیں،سپریم کورٹ نے کیس کا محفوظ فیصلہ سنا دیا ،تین رکنی بینچ کا حصہ جسٹس نعیم اختر افغان نے فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہا نظرثانی درخواستوں پر 21 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا ہے۔

 جو کہ اردو میں ہے ،فیصلہ میں تمام تحفظات کو مد نظر رکھا گیا ہے ،فیصلے میں جید علماء کی جانب سے دی گئی معاونت کو شامل کیا ہے ،فیصلہ میں قرآن وحدیث کے حوالا جات بھی شامل ہیں، امید ہے تفصیلی فیصلہ پڑھنے سے ابہام دور ہو جائے گا،حضرت محمد صلی اللہ کی ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط ایمان کے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا، آرٹیکل 260 میں ختم نبوت کو ایمان کا لازمی جزو قرار دیا گیا ہے ،احمدی کہنے والوں کے حوالے سے شریعت کورٹ کے مجیب الرحمٰن فیصلے کو اہمیت حاصل ہے ،وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ فیصلوں سے انحراف نہیں ہو سکتا، آئین میں دیا گیا مذہبی آزادی کا بنیادی حق آئین ،قانون اور امن عامہ سے مشروط ہے ،عدالت معاملہ پر دینی مدارس کی تجاویز معاونت پر مشکور ہے ،بعد ازاں سپریم کورٹ نے مبارک ثانی نظر کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا،جس میں کہا گیا کہ مذہبی آزادی کا بنیادی آئینی حق ، قانون ، امن عامہ اور اخلاق کے تابع ہے ،پنجاب حکومت کی نظرثانی درخواست منظور کی جاتی ہے ، ختم نبوت پر مکمل، غیر مشروط ایمان اسلام کے بنیادی عقائد میں شامل ہے ، آئین پاکستان میں بھی ختم نبوت پر ایمان کو مسلمان کی تعریف کا لازمی جزو کہا گیا،خود کو احمدی کہنے والوں سے متعلق مجیب الرحمان اور ظہیر الدین کیس کے فیصلے موجود ہیں،اس عدالت نے 6 فروری 2024کے آرڈر میں ان سابقہ نظیروں سے انحراف نہیں کیا، حکومت پنجاب کی نظرثانی درخواست نمبر 2 منظور کی جاتی ہے ،نظرثانی کی درخواست نمبر تین اور چار مسترد کی جاتی ہیں، 2019کے وقوعے پر ان دفعات کا اطلاق نہیں ہوسکتا جو 2021 میں بطور جرم قانون میں شامل ہوئیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں