پاکستان میں آنے والی سیاسی واقتصادی تبدیلیوں کو روکنا کیا ہمارے بس میں ہے؟ کیا ہم ایک عالمگیر سیاسی نظام کی گرفت میں ہیں؟ کیا ہمیں کسی بڑی تبدیلی کا شعوری احساس ہے؟
عالمگیر سیاسی نظام اور معاشرت کا خواب‘ ہر غالب قوم نے دیکھا ہے۔ ماضی میں‘ جب دنیا سلطنتوں کے عہد سے گزر رہی تھی‘ تب بھی عالمِ انسانیت کو فاتح اور مفتوح میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ فاتح ساری دنیا کو مفتوح بنانا اور اپنی فتوحات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کرنا چاہتا تھا۔ یہاں تک کہ تمام کرۂ ارض پہ اس کا اقتدار قائم ہو جائے۔ دشت تو دشت‘ دریا میں بھی نہ چھوڑے گئے۔ بحرِ ظلمات میں بھی گھوڑے دوڑائے گئے۔ سکندر نے یہ کوشش کی تھی اور مسلمان فاتحین کے قدموں کی چاپ بھی زمین کے ہر کونے میں سنی گئی۔ ہم نے بھی اس زمین کو دارالاسلام اور دارالحرب میں تقسیم کر دیا تھا۔ ساری دنیا کو مغلوب بنانے کا خواب مگرجس نے بھی دیکھا‘ خواب ہی رہا۔
غلبے کی یہ خواہش آج بھی زندہ ہے‘ صرف طریقۂ واردات بدل گیا ہے۔ غلبے کی نئی لہر کاآغاز ابلاغ کی عالمگیریت سے ہوا جو معاشی عالمگیریت تک پھیل گئی۔ اس کے نتیجے میں عالمگیر سیاسی اقتدار کا تصور متشکل ہوتا گیا۔ دوسری طرف عالمگیر نظامِ خلافت کے عَلم بھی لہرا دیے گئے۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی کوشش انسان کے فکری اور عملی ارتقا سے ہم آہنگ ہے اوردوسری ماضی کی طرف بے نتیجہ مراجعت۔
آج دنیا میں عالمگیر اقتدار بڑی حد تک قائم ہو چکا ہے۔ اس اقتدار کے لیے ذرائع وجود میں آ چکے ہیں۔ ان وقت اس کی لگام مغرب کے ہاتھ میں ہے۔ اقوام کی معیشت آج ایک عالمی اقتصادی نظام کے تابع ہے۔ کوئی ملک اس سے نکلنے کی جسارت نہیں کر سکتا۔ کون سی معیشت کتنی مضبوط ہے‘ اس کا فتویٰ یہی نظام جاری کرتا ہے۔ فِچ اور موڈیز کی رپورٹس راہ نمائی کرتی ہیں اور ان کی بنیاد پر سرمایہ دار یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اس نے کہاں سرمایہ کاری کرنی ہے اور کہاں نہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے طے کرتے ہیں کہ کون سی معیشت اب نادہندہ ہو چکی۔ یہ عالمگیر نظام‘ لازم نہیں کہ امریکہ جیسی کسی دیدہ قوت کے ہاتھ میں ہو۔
یہ پولیٹیکل اکانومی ہے۔ عالمگیر معاشی نظام کی بنیاد پر سیاسی فیصلے ہوتے ہیں۔ نادہندگی کا الزام دھونے کے لیے‘ ان اداروں کا فیصلہ ماننا لازم ہے۔ یہی نہیں‘ یہ ادارے اس کا جائزہ لیتے ہیں کہ کسی ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال کیا ہے۔ اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔ اگر کوئی ملک اس نظام کے طے کردہ معیارات پر پورا نہیں اترتا تو اس کا اقتصادی بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس عالمی نظام کے سامنے سر جھکا دے۔ چین اس نظام کی لگام کو مغرب سے چھین کر اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا ہے۔ یہ 'ون روڈ ون بیلٹ منصوبہ‘ کیا ہے‘ سی پیک جس کا ایک جُز ہے؟ زمین کی تمام بڑی شاہراہوں پر چین کا کنٹرول ہو جن کی حیثیت معیشت کی ان رگوں کی ہو‘ جن میں سرمایہ لہو بن کر دوڑتا ہو۔
سوشل میڈیا کیا ہے؟ اس نظام کا ایک آلہ۔ اس کے ذریعے کسی ملک میں افراتفری پھیلائی جا سکتی ہے۔ آج پاکستان براہِ راست اس کی زد میں ہے۔ اس سوشل میڈیا نے ہمارے معاشرے کی ہر فالٹ لائن کو نمایاں کر دیا ہے۔ مذہبی فرقہ پرستی‘ مسلکی اختلافات‘ سیاسی انتہا پسندی‘ ریاست پر عدم اعتماد‘ ریاستی اداروں میں کشیدگی‘ دہشت گردی‘ صوبائی اور علاقائی تعصبات... اس سوشل میڈیا نے ہر اُس قوت کو ابھارا جو اس قوم کے اتحاد کو پارہ پارہ کر سکتی ہے۔ اس نے وہ انتشار پیدا کر دیا ہے کہ ریاست اپنی غیر معمولی طاقت کے باوجود اس پر قابو پانے میں ناکام ہے۔
سادہ لوحی کا یہ عالم ہے کہ ان مسائل کا حل ملک کے اندر تلاش کیا جا رہا ہے۔ قومی اداروں کے خلاف مہم کا مرکز ملک کے اندر نہیں‘ باہر ہے۔ باہر ہو نے کا یہ مطلب نہیں کہ کسی ملک دشمن قوت کے ہاتھ میں ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس کی باگ اب ریاست کے ہاتھ میں نہیں۔ ریاست اس پر قادر نہیں ہے کہ وہ اس ہاتھ کو پکڑ سکے۔ اب ریاست کو ملک سے باہر بیٹھ کر مضطرب کیا جا سکتا ہے اور معاشرے میں بگاڑ پھیلایا جا سکتا ہے۔ یہ عالمگیر نظام کا حصہ ہے جس پر کسی ریاست کا کوئی قانون نافذ ہو تاہے اور نہ ہی وہ اس پر اثر انداز ہو نے قوت رکھتی ہے۔ آج فضا میں ایک سیٹلائٹ ہے جو آپ کی حرکات وسکنات پر نظر رکھتا ہے۔ آپ کی زندگی اور روز وشب‘ دنیا کے سامنے ایک کھلی ہوئی کتاب ہیں۔ گویا اب کسی سے جھوٹ نہیں بولا جا سکتا۔
آج ماضی کی طرح دنیا کو مفتوح بنانے کے لیے فوجیں بھیجنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ قوت کے حصول کے لیے انسان کی فطری طلب آج بھی ویسی ہی ہے جیسے ہزاروں برس پہلے تھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب اس غلبے اور قوت کے آلات بدل گئے ہیں۔ اب سائنس اور ٹیکنالوجی نے یہ صلاحیت اختیار کر لی ہے کہ وہ ایک نیا انسان بنا دے۔ نئے عالمگیر نظام کی باگ اسی کے ہاتھ میں ہو گی جو 'مردم گیر‘ ہو گا۔ جس کے ہاتھ میں اس نئے انسان کی نکیل ہو گی۔
پاکستان میں آنے والی تبدیلیوں کو سمجھنے کا ایک زاویہ یہ ہے کہ انہیں عالمگیرنظام کے پس منظر میں دیکھا جائے۔ ملک میں پیدا ہونے والا حالیہ عوامی اضطراب بجلی کی قیمت سے براہِ راست جڑا ہوا ہے۔ اس قیمت کا تعین پاکستانی ریاست کے ہاتھ سے نکل چکا۔ یہ ریاست اور حکومت کی بے بسی کا اظہار ہے۔ ایسی کمزور حکومت سے اپوزیشن ڈرتی ہے نہ عوام۔ ریاست کی گرفت جب داخلی سطح پر کمزور ہوتی ہے تو وہ ریاستی اداروں کی من مانی کو روک نہیں سکتی۔ بجلی کی قیمت میں مسلسل اضافے کا مطلب عوامی اضطراب میں اضافہ ہے۔ اگر کوئی سیاسی جماعت انہیں سڑکوں پر نکالنا چاہے تو بجلی کے نرخ اس کام کو آسان بنا دیتے ہیں۔ حکومت طاقت سے روکنا چاہے گی تو اضطراب بڑھ جائے گا۔ عالمی مالیاتی اداروں کو یہ معلوم ہے۔ اس کے باوصف‘ ان کا اصرار ہے کہ قیمتیں بڑھائی جائیں۔ بجلی کمپنیوں کے خلاف آپ کوئی اقدام نہیں کر سکتے کہ انہیں اس عالمی نظام کا تحفظ حاصل ہے۔ تو کیا یہ عالمی نظام پاکستان میں اضطراب پیدا کرنا چاہتا ہے؟
آج ریاست بجلی کی قیمت کا تعین کر سکتی ہے نہ سوشل میڈیا کا منہ بند کر سکتی ہے۔ دونوں کا کنٹرول ملکی سرحدوں سے نکل چکا۔ کیا اس کے بعد بھی کوئی شک باقی ہے کہ دنیا میں ایک عالمگیر نظام قائم ہو چکا ہے اور اب ریاستوں کی آزادی ایک واہمے کے سوا کچھ نہیں؟ کیا ہمیں اس بات کا ادراک ہے؟
قدرت کا قانون یہ ہے کہ وہ اس زمین پرکسی کو مطلق العنان نہیں بناتی۔ اس کا دوسرا قانون یہ ہے کہ وہ انہی کی بقا کا سامان کرتی ہے جو بصیرت کے ساتھ اس کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ عالمی غلبے کی خواہش آج بھی پوری نہیں ہو سکے گی۔ علاج ممکن ہے مگر درست تشخیص کے بغیر بے نتیجہ ہے۔ اس کا ادراک قومی قیادت کی سطح پر موجود نہیں ہے۔ جب ہم کسی سیاسی فیصلے میں آزاد ہیں اور نہ انتظامی فیصلے میں تو ہم اصلاح کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں؟ جس دن ہم نے اس بات کو سمجھ لیا‘ اُس دن ہم بقا کے سفر پر روانہ ہو سکیں گے۔
چیلنج یہ ہے کہ ہم اس عالمگیر نظام سے کیسے ہم آہنگ ہو سکتے ہیں؟ اس ہم آہنگی ہی میں بقا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کر نا اُن کی ذمہ داری ہے جنہوں نے اپنی خواہش‘ کوشش اور مرضی سے اس ملک کی باگ سنبھالی ہے۔