آج کل پاکستان میں ڈرون حملوں کا معاملہ بہت سرگرمِ ہے۔ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے امریکی صدر باراک اوبامہ کے ساتھ ملاقات میں ڈرون حملوں کو بند کرنے کا مطالبہ کیا جبکہ سیاسی و عوامی حلقے بھی ڈرون حملوں کی سختی سے مذمت کررہے ہیں جو کرنی بھی چاہیے کیونکہ ڈرون حملے پاکستان کی خود مختاری پر حملہ ہیں اور ان کے نتیجے میں بے گناہ لوگ بھی مارے جارہے ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ڈرون حملے پاکستان کا واحد مسئلہ ہیں ؟شایدنہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ صرف ڈرون حملوں کے مسئلے کو اُجاگر کرکے عوام کی توجہ دیگر مسائل سے ہٹائی جارہی ہے اور یقینا امریکہ بھی یہی چاہتا ہے تاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر پاکستان سے اُس نے جو بیگار لی ہے اُس کے جواب میں خود اُس پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اُن پر پاکستانی قوم کی توجہ نہ جائے۔ اپنے فطری بھولپن کی وجہ سے پاکستانی قوم کو صرف ڈرون حملوں کی مذمت پر لگا دیا گیا جبکہ باقی تمام مسائل پس پشت چلے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ بارہ سال کے دوران دہشت گردی کے خلاف اس نام جہاد جنگ کی وجہ سے پاکستان کو 100ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوچکا ہے، 45ہزار سے زائد معصوم پاکستانی شہری جاں بحق ہوچکے ہیں جن کی جانیں اُتنی ہی قیمتی تھیں جتنا کہ امریکیوں کی۔ پاکستان میں دہشت گردی کے اثرات کاروباروں پر بھی مرتب ہورہے ہیں ، بہت سی صنعتیں بند اور لاتعداد افراد بے روزگار ہوچکے ہیں، نیٹوفورسز کو بھاری ٹرکوں کے ذریعے سامان کی فراہمی کے لیے استعمال کی وجہ سے بہت سی اہم سڑکیں تباہ و برباد ہوکر رہ گئی ہیں ۔اس کے علاوہ اور بھی بہت سے مسائل پیدا ہوئے ہیں لیکن جواباً امریکہ نے پاکستان کے لیے کچھ نہیں کیا بلکہ اُلٹا مسائل میں اضافہ ہی کیا ہے ۔ کس قدر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے 100ارب ڈالر سے زائد پیسوں اور 45000قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع اُن کے کہنے پر برداشت کیا جو ہمیں اپنا دوست نہیں بلکہ اپنا غلام سمجھتے ہیں، پوری دنیا میں ہمیں دہشت گرد اور تخریب کار ظاہر کرتے ہیں اور پھر ہمیں مارنا اپنا حق اور فرض سمجھتے ہیں۔ جب قربانیوں کی بات ہوتی ہے تو ’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ ہم سے کیا جاتاہے اور معاشی و اقتصادی تعاون اور سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی فراہم کرنے کی بات ہوتی ہے تو تمام پینگیں بھارت سے بڑھائی جاتی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پاکستان کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی نہیں بلکہ انہیں پاکستان کی سخت ضرورت تھی چنانچہ عقلمندی سے کام لیکر نہ صرف اپنے تمام قرضے معاف کرائے جاسکتے تھے بلکہ کم از کم پچاس ارب ڈالر کا ازالہ بھی لیا جاسکتا تھا لیکن شاہ سے زیادہ شاہ کے غلام کے مصداق اگر امریکہ سے مدد نہیں ملی تو ہم نے خود بھاری قرضے لے کر یہ نام نہاد جنگ لڑی چنانچہ ہمارے قرضے بھی ساٹھ ارب ڈالر سے اوپر جا پہنچے۔ ماضی میں بھی ایسا کئی بار ہوا ہے، مثلاً افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے وقت امریکہ کو جب افغانستان میں اپنے رقیب کو شکست دینے کے لیے پاکستان کی سخت ضرورت تھی، پاکستان اپنی تمام شرائط منواسکتا تھا لیکن تب بھی اسی طرح بلامعاوضہ مشقت کی جبکہ کامیابی کے بعد امریکہ نے نظریں پھیریں اور افغان مجاہدین اور ہمارے لیے مسائل کا انبار چھوڑ کر نکل گیا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اُس تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں کردار اپنی شرائط پر ادا کیا جاتا لیکن گزشتہ ایک دہائی کے دوران نازل ہونے والی حکومتوں نے چاپلوسی اور خوشامد کے تمام ریکارڈز توڑ دئیے۔ پاکستان کو ایک مرتبہ پھر ایک اہم موقع حاصل ہونے والا ہے کیونکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جلد ہی افغانستان سے اپنی فوجوں کا انخلاء کرنا ہے اور یہ کام پاکستان کے تعاون کے بغیر ممکن نہیںاور ممکنہ طور پر یہ پاکستان کے لیے اپنے نقصانات کا ازالہ کروانے کا آخری موقع ہے۔ پاکستان کو امریکہ اور اتحادیوں سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ پاکستان کے ساٹھ ارب ڈالر سے زائد کے قرضے معاف کیے جائیں جس سے ہمیں فوری فائدہ یہ ہوگا کہ ان قرضوں اور سود کی ادائیگی پر قومی آمدن کا جو بڑا حصہ خرچ ہورہا ہے اُس سے جان چھوٹ جائے گی اور یہ رقم قومی ترقی، سلامتی اور استحکام پر خرچ کی جاسکے گی۔ جو 45ہزار قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں اُن کا مداوا کرنا تو ممکن نہیں البتہ پاکستانی معیشت کو جو 100ارب ڈالر سے زائد کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے اس کے لیے مطالبہ کیا جائے کہ اگلے پانچ سال تک ہر سال ہمیں 20ارب ڈالر دئیے جائیں تاکہ ہم اپنے دکھوں کا مداوا کرسکیں۔ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے امریکہ ہمیں بھی سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی دے۔ مزید یہ کہ امریکہ اور نیٹوفورسز جو اسلحہ افغانستان لائے ہیں واپس جاتے ہوئے اُس کا کم از کم پچاس فیصد حصہ ہمیں دے کر جائیں تاکہ پاکستان دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ سکے۔ امریکہ پر زور دیا جائے کہ وہ بھارت اور دیگر بیرونی قوتوں کو پاکستان میں مداخلت سے روکے ۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنے حالیہ دورۂ امریکہ کے دوران جس طرح عزت اور وقار کے ساتھ بات چیت کی ہے اُس سے امید کی کرن روشن ہوئی ہے کہ شاید اب ماضی کی غلطیاں نہ دہرائی جائیں۔ انہیں اِن مطالبات پر امریکہ سے ڈٹ کر بات کرنی اور اپنا موقف منوانا چاہیے جس کے لیے پوری قوم دیوار بن کر اُن کے پیچھے کھڑی ہے۔ میاں نواز شریف کی یہ کوشش ملک و قوم کی بہترین خدمت تو ہوگی ہی لیکن تاریخ بھی اُن کا ذکر ہمیشہ سنہرے حروف میں کرے گی۔