2010ء میں دہلی ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ چیف جسٹس آف انڈیا کا دفتر بھی ''انڈین رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ‘‘ کے دائرے میں آتا ہے۔ اس موقع پر عدالت نے کہا ''جمہوریت کھلے پن کی توقع رکھتی ہے اور یہ کھلا پن ہی آزاد سماج کی نرسری ہے‘ سورج کی روشنی بہترین جراثیم کش شے ہے۔‘‘ نتیجہ یہ نکلا کہ عدالت نے قرار دیا کہ انڈین سپریم کورٹ کے ججوں کے اثاثے‘چاہے وہ غیر منقولہ (رئیل سٹیٹ)ہوں یا شراکت داری (شیئر ہولڈنگ) کی صورت میں‘ عوامی سطح پر مشتہر کیے جائیں گے۔
ہمارے ہاں بھی شفافیت‘ اصول پسندی اور احتساب کے چلن کو عام کرنے اور تمام سرکاری عہدیدارن کے حوالے سے زیادہ وسیع عوامی جانچ پرکھ کے لیے آئین میں کی گئی اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے مقننہ نے آئین ِپاکستان کے آرٹیکل انیس اے کے ذریعے ایک انقلابی تبدیلی متعارف کرائی‘ یہ آئینی آرٹیکل عوامی اہمیت کے تمام معاملات میں شہریوں کو ''رائٹ ٹو انفارمیشن‘‘یعنی معلومات تک رسائی کے حق کی بنیادی ضمانت مہیا کرتا ہے‘لیکن ریاستی امور کو چلانے کے لیے انتظامیہ‘ یعنی ایگزیکٹو جس طرح خفیہ انداز میں وزیر اعظم کے مشیران اور معاونین خصوصی (ایس اے پی ایم ایس) کو استعمال کرتی ہے ‘ یوں محسوس ہوتا ہے کہ آرٹیکل انیس اے کے بعد بھی معلومات تک شفاف رسائی کا خواب اس تناضر میں ابھی صرف خواب ہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ متعدد حکومتی عہدیداران اِن مشیران و معاونین کے اثاثہ جات کی‘ غیر منقولہ اور شیئر ہولڈنگ کے حوالے سے‘ معلومات ظاہر کرنے کو آئین کے آرٹیکل انیس اے کے دائرہ اختیار سے باہر قرار دیتے ہیں۔یہاں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان مشیران و معاونین خصوصی کی جانب سے اثاثے ظاہر نہ کرنا یا اس حوالے سے عوام کے پاس معلومات کی عدم دستیابی آئین کے آرٹیکل انیس اے کی خلاف ورزی ہے یا نہیں؟آرٹیکل انیس اے کا مطالعہ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے متعدد فیصلوں کی روشنی میں دیکھیں تواس آئینی آرٹیکل کا اطلاق ہر اُس صورت میں ہوتا ہے ‘جوعوامی مفاد کا معاملہ قرار دی جا سکے۔ پس‘ ثابت ہوا کہ اگر عوامی مفاد کا کوئی معاملہ ہو تو ان مشیران و معاونین خصوصی حضرات کے اثاثوں کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔اب اس چیز کو ثابت کرنے کے لیے دو چیزیں ہونا ضروری ہیں:اول؛ یہ ثابت کیا جائے کہ مشیران و وزیر اعظم کے معاونین خصوصی عوامی عہدے کے حامل ہیں:یہاں یہ خیال رہے کہ یہ دونوں کام‘ یعنی مشیر اور معاون خصوصی کی تقرری باہم متضاد نوعیت کی حامل ہیں؛ جہاں مشیر کی تقرری ایک آئینی عمل ہے‘ وہیں وزیر اعظم کے معاون خصوصی کا تقرر ایک قانونی عمل ہے۔ مشیران کا تقرر صدر مملکت وزیر اعظم کی سفارش پر آئین کے آرٹیکل ترانوے کے تحت کرتا ہے۔ یہ لوگ کابینہ کا حصہ ہوتے ہیں اورتجارت‘ توانائی‘ فنانس‘ ماحولیاتی امور‘ صنعتی اصلاحات اور سرمایہ کاری وغیرہ کے امور میں وزیر اعظم کو مشاورت مہیا کرتے ہیں‘ جبکہ وزیراعظم کے معاونین خصوصی کی تعیناتی وزیر اعظم 1973ء کے رولز آف بزنس کے رول 4(6)کے تحت کرتا ہے ‘ یہ لوگ بھی کابینہ کا اہم حصہ ہوتے ہیں اور وزیر اعظم کو سماجی تحفظ‘ غربت میں کمی‘ صحت‘ آبی وسائل‘ توانائی‘ پٹرولیم‘ کیپٹل ڈویلپمنٹ جیسے امور میں مشاورت فراہم کرتے ہیں۔مزید برآں سپریم کورٹ آف پاکستان پہلے ہی تنویر مشرف بمقابلہ خیبر پختونخوا حکومت (2009ء) میں قرار دے چکی کہ عوامی عہدے کی تعریف پر مشیر اور معاون خصوصی برائے وزیر اعلیٰ پورا اترتے ہیں‘ اسی طرح بلیک لاء ڈکشنری 'عوامی عہدہ ‘ کی تعریف یوں کرتی ہے کہ ''ایسی پوزیشن جس پر فائز فرد حکومت کے کسی خودمختارانہ اختیار کو استعمال کرنے کے قانونی اختیار کا حامل ہو۔‘‘ The Law of Extraordinary Legal Remediesمیں فارسٹ جی فیرس بیان کرتے ہیں ''عوامی عہدہ ایسی ذمہ داری ہے جو بذریعہ قانون تفویض و تخلیق کی جاتی ہے‘ جس کے تحت کسی فرد کو خودمختارانہ امور کا کچھ حصہ چلانے کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے‘‘۔
مندرجہ بالا مثالوں سے یہ چیز بالکل ثابت شدہ امر بن جاتی ہے کہ مشیران و معاونین خصوصی حضرات عوامی عہدے دار ہوتے ہیں۔دوم یہ کہ یہ مشیران و معاونین خصوصی جو امور انجام دیتے ہیں‘ وہ عوامی مفاد کے زمرے میں آتے ہیں؛2017ء میں سندھ ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ مشیر ایسا شخص ہے‘ جسے انصاف پسندی اور فِکری بنیاد پر مستقبل کے کسی معاملے سے متعلق رائے دینے کے لیے کہا جاتا ہے۔ مزید برآں کیمبرج ڈکشنری کہتی ہے کہ مشیر وہ ہے‘ جس کی ذمہ داری کی تعریف یوں ہو کہ وہ کسی خاص'معاملے‘ پر اپنی 'رائے‘ دے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مشیر غیر معمولی مہارت کا حامل ہوتا ہے اور اس پوزیشن میں ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی معاملے پر وزیر اعظم کی فیصلہ سازی کے عمل پر اثر انداز ہو سکتا ہے‘ وہ ان امور کے متعلق حکمت ِعملی کی تشکیل اور پالیسی بنانے کے عمل میں براہِ راست شامل ہوتا ہے ‘جو پاکستان کے عوام کی زندگیوں پر اثر ڈال سکتی ہیں‘ اسی طرح معاون خصوصی کا کردار ہے‘ جو انتظامی ذمہ داریوں کو نمائندگی کی ذمہ داریوں کے ساتھ ہم آہنگ کرتا ہے یا اُس کی نمائندگی کرتے ہوئے متعلقہ وزارتوں اور محکموں کے امور چلاتے ہیں۔
مزید برآں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اعلیٰ عدالتیں متعدد عدالتی فیصلوں میں قرار دے چکی ہیں کہ آرٹیکل انیس اے کے تحت عوام الناس معلومات تک رسائی کا قانونی حق رکھتے ہیں‘ یہ کوئی ایسی شے نہیں‘ جو ریاست اپنی من مرضی سے انہیں دینے کا اختیار رکھتی ہو۔ پس‘ ثابت ہوا کہ کسی بھی پہلو سے دیکھا جائے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مشیران اور وزیر اعظم کے معاونین خصوصی آئین کے آرٹیکل انیس اے سے استشنا حاصل نہیں کر سکتے‘ لہٰذا عوام کو آئینی طور پر حاصل معلومات تک رسائی کے حق کا تحفظ کرنے کیلئے لازمی ہے کہ ان مشیران اور معاون خصوصی حضرات کے اثاثوں کے بارے میں معلومات کو پبلک کیا جائے‘ کیونکہ معلومات ہی وہ کلید ہیں‘ جس کی مدد سے ہر شہری سماج میں گوررننس کے معاملات میں اپنا حصہ ڈال سکتا ہے۔ معلومات تک رسائی کا حق کسی بھی جمہوری سماج کے ممبران کا بنیادی حق ہے ‘تاکہ وہ اُن معاملات پر سوچ سمجھ کر اپنی رائے دے سکیں‘ جو بعد ازاں انہی پر اثر انداز ہونے ہوتے ہیں۔ کسی بھی جمہوری ریاست میں جتنی زیادہ معلومات تک رسائی ہوگی‘ اُتنا ہی زیادہ فرد رد عمل ظاہر کرے گااور جتنا زیادہ یہ معلومات پوشیدہ رکھی جائیں گی‘ اُتنا ہی فرد سماج سے لاتعلق رہے گا۔
عوامی عہدے پر فائز اشخاص کے بارے میں کسی فرد کی معلومات تک رسائی کا حق کسی بھی جمہوری ریاست کا ستون ہوتا ہے اور پاکستان کے عوام بھی یہ حق رکھتے ہیں کہ عوامی سطح پر ان مشیران و معاونین خصوصی کے ذریعے جو امور انجام دیے جاتے ہیں ‘ان کے بارے میں ان کے پاس معلومات موجود ہوں۔ یہ عوام کا حق ہے کہ وہ جان سکیں کہ جب مشیران و معاونین خصوصی کسی بھی معاملے پر کوئی اختیاراستعمال کرتے ہیں تو مفادات کا ٹکرائو تو کسی سطح پر موجود نہیں ۔
الغرض شفافیت‘ احتساب اور احساس ذمہ داری کا تقاضا ہے کہ ہر مشیر اور وزیر اعظم کا معاون خصوصی اپنے یا اپنے کسی اہل خانہ یا کسی ایسے شخص کے نام پرجس کی ذمہ داری اُن پر ہو موجود تمام اثاثے‘ اراکین پارلیمان کی طرح ظاہر کرے۔کوئی بھی جمہوری حکومت قانون کی عملداری پر ہی چلتی ہے‘ جہاں عوامی عہدے رکھنے والے تمام لوگ اپنے اعمال کے لیے جوابدہ ہوتے ہیں اور ان کی پاس چھپانے کے لیے بہت کم خفیہ معلومات ہوتی ہیں۔ رازداری کے پردے کو ڈھال بناکر معلومات پوشیدہ رکھنا عوامی فلاح و مفاد کے خلاف ہے۔ قانونی طور پر ایسی رازداری کی بہت کم گنجائش موجود ہے۔ عوامی عہدیداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اقدامات اور نجی مفادات کا جوا زپیش کریں‘یہی وہ بہترین دفاع ہے‘ جو مفادات کے ٹکرائو‘ اقربا پروری‘ خویش پسندی‘ کرپشن اور استحصال کیخلاف موثر طور پر استعمال کیا جا سکتاہے۔ پاکستان میں یہ منزل اُسی صورت حاصل کی جا سکتی ہے ‘جب حکومت اپنے مشیران و معاونین کے مالی مفادات کے حوالے سے معلومات تک عام رسائی فراہم کرے۔ جیمز میڈیسن نے بجا کہا ''ایک مقبول حکومت‘ جس میں معلومات عام نہ ہوں یا ان کا حصول آسان نہ ہو‘ وہ ایک لغو قِسم کے طربیے یا المیے یا ان دونوں سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہوتی۔‘‘