افغان صدارتی انتخابات، آئندہ کیا ہوگا؟

افغانستان میں 5اپریل 2014ء کو عام انتخابات منعقد ہوئے تھے جس میں 58.3فیصدعوام (خواتین اور مرد)نے حصہ لیا تھا اور اپنے ووٹ کے ذریعے پسندیدہ صدارتی امیدواروں کو ووٹ دئیے تھے۔ 5اپریل کے عام انتخابات کے نتائج کی روشنی میں کسی بھی صدارتی امیدوار کو 50فیصدووٹ نہیںمل سکے تھے، سب سے زیادہ ووٹ( 45فیصد)عبداللہ عبداللہ نے حاصل کئے تھے۔دوسرے نمبر پر پروفیسر غنی تھے جنہوں نے 31.9فیصد ووٹ حاصل کیے تھے، جبکہ تیسرے نمبر اور چوتھے نمبر پر دیگر امیدوار شامل تھے۔ افغان آئین کے مطابق اگر کوئی بھی صدارتی امیدوار 50فیصد ووٹ حاصل نہیں کرتا تو اس کے لیے دوبارہ انتخابات کرائے جاتے ہیں جسے رن آف الیکشن کہتے ہیں۔ اس طرح 14جون کو افغانستان میں صدارتی امیدوار عبداللہ عبداللہ اور پروفیسر غنی کے درمیان رن آف الیکشن منعقد ہوئے تھے جس کے نتائج کے اعلان سے قبل ہی عبداللہ عبداللہ نے ان انتخابات سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مخالف کیمپ پر دھاندلیوں کا الزام عائد کیا ہے ، دوسری طرف پروفیسر غنی نے بھی دھاندلیوں کا الزام لگایا ہے لیکن اس پر زیادہ زور نہیں دیا ہے جبکہ عبداللہ عبداللہ نہ صرف دھاندلیوں کا الزام لگارہے ہیں بلکہ الیکشن کمیشن پر بھی جانبداری کا الزام عائد کررہے ہیں۔اس طرح افغانستان میں 14جون کو ہونے والے رن آف الیکشن متنازع بن گئے ہیں اور افغانستان کی سیاسی صورتحال انتہائی کشیدہ ہوگئی ہے۔ عبداللہ عبداللہ کا خیال ہے کہ انہیں افغان اسٹیبلشمنٹ شکست سے دوچار کرانا چاہتی ہے اور پروفیسر غنی کو آئندہ افغانستان کا صدر بنانے کا ارادہ رکھتی ہے، حالانکہ عبداللہ عبداللہ نے 5اپریل کے عام انتخابات میں پروفیسر غنی سے تقریباً دس لاکھ ووٹ زیادہ حاصل کئے تھے، چنانچہ اگر عبداللہ عبداللہ کورن آف الیکشن میں شکست ہو جاتی ہے یا انہیں ہرادیا جاتا ہے تو وہ اپنی شکست تسلیم نہیں کریں گے جس کی وجہ سے افغانستان کا کمزور سیاسی و جمہوری کلچر شدید متاثر ہوسکتا ہے ۔اس صورتحال سے افغان طالبان بھر پور فائدہ اٹھائیں گے اور اپنی متشددانہ کارروائیاںجاری رکھ سکتے ہیں۔ مزیدبرآں افغانستان سے متعلق با خبر عالمی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حامد کرزئی جو ابھی تک صدارتی محل میں براجمان ہیں وہ عبداللہ عبداللہ کے سخت خلاف ہیں اور ان کا جھکائو پروفیسر غنی کی طرف ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون سے اپیل کی ہے کہ وہ افغانستان کے رن آف الیکشن میں مداخلت کرکے حالات کو سنبھالنے کی کوشش کریں، لیکن قیاس غالب ہے کہ بان کی مون ایسا نہیں کریں گے ۔بعض افغانی مبصرین کا خیال ہے کہ حامد کرزئی اقتدار سے سبکدوش نہیں ہونا چاہتے ، وہ گزشتہ دس سال سے امریکی اور ناٹوافواج کی حمایت اور مدد سے اقتدار پر فائز ہیں۔ انہیں اقتدار کا مزہ لگ گیا ہے ۔ نیز ان دس برسوں کے دوران انہوں نے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے مل کر امریکی امداد کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے اور ذاتی تصرف میں لائے ہیں جبکہ افغان عوام کو کچھ بھی نہیں ملا، کابل اور اس کے گردو نواح میں بھیانک غربت اقتدار پر فائز افغان اشرافیہ اور کرزئی کو منہ چڑا رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ کرزئی رن آف الیکشن کے نتائج کے اعلان سے قبل یعنی 2جولائی سے پہلے افغانستان میں ایمرجنسی نا فذ کرسکتے ہیں ،اس طرح وہ ایک بار پھر غیر معینہ مدت تک کے لئے افغانستان کے صدر رہ سکیں گے۔یہاں اس بات کا بھی ذکر ضروری ہے کہ 14جون کے صدارتی انتخابات سے قبل عبداللہ عبداللہ پرجو قاتلانہ حملہ ہوا تھا، اس میں بھی کرزئی کا ہاتھ تھا، لیکن اس نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا تھا ۔ صدارتی امیدواروں نے حامد کرزئی کو یہ یقین بھی دلایا تھا کہ جو بھی آئندہ افغانستان کا صدر منتخب ہوگا وہ کرزئی کو حکومت کا اعزازی مشیر رکھے گا ، لیکن کرزئی انتہا سے زیادہ چالاک اور عیار شخص ہے، وہ ذہنی طور پر کسی بھی صورت میں مشیر کا عہدہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا، چنانچہ وہ اپنے نمک خواروں کے ساتھ مل کر رن آف الیکشن کو متنازع بنانے کی کوشش کررہا ہے تاکہ اقتدار کسی اور شخص کو نہ مل سکے۔ کرزئی نے 2009ء کے عام انتخابات میںبھی زبردست دھاندلیاں کرائی تھیں اور صدر بن گیا تھا ، جبکہ ان انتخابات کو بین الاقوامی کمیونٹی نے مسترد کردیا تھا ، لیکن اس کے باوجود وہ امریکہ کی حمایت اور تعاون سے صدر کی حیثیت سے اقتدار پر فائز رہا ہے؛ تاہم امریکہ کی کوشش ہے کہ رن آف الیکشن کے نتائج کا اعلان 2جولائی کو کردیا جائے تاکہ صدارتی محل میں نئے صدر کے ساتھ دوطرفہ سکیورٹی کے معاہدے پر دستخط کردیئے جائیں۔ کرزئی نے دوطرفہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس طرح وہ اپنے آپ کو قوم پرست افغان ظاہر کرنے کی کوشش کررہا تھا، لیکن افغان عوام کی اکثریت جس میں افغان طالبان بھی شامل ہیں، اس کو امریکہ کا ایجنٹ اورافغان عوام کاقاتل گردانتے ہیں اور وہ اسے آئندہ صدر کی حیثیت سے کبھی قبول نہیں کریں گے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں