دراندازی کون کر رہا ہے؟

بھارت کے وزیراعظم نریندرمودی ایک ایسی حکمت عملی اختیار کررہے ہیں جس سے نہ تو ان کو کوئی فائدہ ہوگا اورنہ ہی بھارت کے عوام کو‘ جن سے مودی صاحب نے یہ وعدہ کیا تھاکہ غریبی مٹائی جائے گی اور روزگار کے نئے ذرائع پیدا کئے جائیں گے، لیکن انہوں نے اپنے ان انتخابی وعدوں کو پس پشت ڈال دیا ہے اور وہ ہر موقعے پر پاکستان کے خلاف اشتعال انگیز بیانات داغتے رہتے ہیں۔گزشتہ دنوں انہوں نے سیاچن کے دورے کے دوران فوجی جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا : '' کیونکہ پاکستان بھارت کے خلاف روایتی جنگ نہیں جیت سکتا اس لیے وہ پراکسی وار(دراندازی) کے ذریعے بھارت کو ہراساں کر رہا ہے‘‘۔ انہوں نے مئی میں مقبوضہ کشمیر کے اپنے پہلے دورے کے موقعے پر بھی بیان دیا تھا کہ پاکستان اب بھی جنگوئوںکو مقبوضہ کشمیر بھیج رہا ہے؛ حالانکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں چلنے والی تحریک مقامی لوگوں کی جدوجہد اور قربانیوں سے وابستہ اور پیوستہ ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام بھارتی تسلط کے خلاف اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کررہے ہیں اور اب تک جدوجہدکی اس کٹھن راہ میں ایک لاکھ سے زائد کشمیری اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔ نریندرمودی کو مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی قربانی کا نہ تو کوئی احساس ہے اور نہ ہی ان کے ذہن میں ان کے مطالبات پر غورکرنے کی فرصت ہے۔ جب سے وہ اقتدار پر براجمان ہوئے ہیں وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کا قیام نہیں چاہتے۔ اگر ان کے دل ودماغ میں جنوبی ایشیا میں قیام امن سے متعلق کوئی خواب یا منصوبہ ہوتا یا پھر اس کی کوئی صورت گری ہوتی تو وہ یقیناً مقبوضہ کشمیر میں اپنے دونوں دوروں کے دوران پاکستان پر نہ تو دراندازی کرانے کا الزام عائد کرتے اور نہ ہی درپردہ کنٹرول لائن پر بھارتی فوجیوںکو بلا اشتعال فائرنگ کرنے کی اجازت دیتے، لیکن ایسا ہورہا ہے، یہ سب کچھ ان کے پاکستان کے خلاف جارحانہ عزائم کا نتیجہ ہے جو آئندہ ان دونوں ملکوں کے لئے کسی بھی وقت فوجی تصادم کا باعث بن سکتا ہے۔ اس طرح مودی صاحب بھارت کے عوام میں پاکستان کے خلاف جنگی جنون پیداکر رہے ہیں۔
نریندرمودی کے حوالے سے یہ بات لکھنا بہت ضروری ہے کہ وہ ابھی تک اپنے آپ کو بھارت کا ایک ذمہ دار وزیراعظم ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ ان کے بارے میں بھارت کے ایک عام آدمی کا خیال ہے کہ وہ پاکستان پر حملہ کرکے ''آزاد کشمیر‘‘ پر قبضہ کرسکتے ہیں۔ عوام کے ان خیالات کی ترجمانی خود نریندرمودی پاکستان کے خلاف اپنے جارحانہ بیانات سے دے رہے ہیں جس کی وجہ سے بھارت میں انتہا پسندی بڑی سرعت کے ساتھ پھیل رہی ہے؛ بلکہ پاکستان کے خلاف نفرتیں بھی بڑھ رہی ہیں؛ حالانکہ اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان بظاہر کوئی کشیدگی کی وجہ نظر نہیں آرہی ہے، ماسوائے مودی صاحب کے پاکستان کے خلاف بیانات کے ! مزید براں ان دونوں ملکوں کے مابین موجود مسائل پر بات چیت کے لیے 25 اگست کو اسلام آباد میں سیکرٹری خارجہ کی سطح پر ملاقات متوقع ہے۔ اس ملاقات کے نتیجے میں بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوسکے گا، نیزآئندہ کے لیے ان دونوں ملکوں کے مابین جامع مذاکرات کا دروازہ بھی کھل سکے گا، ویسے بھی میاں نواز شریف بھارت کے ساتھ اچھے ہمسائیگی کے تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں ؛ بلکہ ماضی میں انہوں نے نریندرمودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کرکے بھارت نواز ہونے کا 
ثبوت دیا تھا۔ دوسری جانب یہ بھی حقیقت اپنی جگہ ناقابل تردید ہے کہ میاں نواز شریف پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کو اوّلیت دے کر جنوبی ایشیا میں امن کے کاز کو تقویت پہچانا چاہتے ہیں ۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ جب ان دونوں ملکوں کے درمیان باضابطہ تجارت بڑھے گی تو بعد میں دیگر مسائل مثلاً کشمیر، سرکریک اور سیاچن پر مذاکرات ہو سکتے ہیں اور کوئی حل بھی نکل سکتا ہے (غالباً ایسا نہیں ہوسکے گا) تاہم نریندرمودی اور میاں نواز شریف کے خیالات میں کوئی ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ مودی سرکار باضابطہ تجارت کے آغاز سے قبل 2008ء میں ممبئی کے واقعات سے متعلق پاکستان سے عدالتی کارروائیوں میں تیزی کا مطالبہ کررہی ہے اور اس کا کوئی حل چاہتی ہے؛ حالانکہ پاکستان کی حکومت بھارت کی موجودہ حکومت اور سابق کانگریس حکومت کو یہ باور کراچکی ہے کہ عدالتی کارروائی ہورہی ہے اور جب فیصلہ آئے گا بھارت کو آگاہ کردیا جائے گا؛ تاہم اس حقیقت سے پاکستان کے عوام کو کم آگہی ہے کہ ممبئی کی ایک عدالت نے حافظ سعید کو ممبئی واقعات میں ملوث ہونے سے بری الزمہ قرار دے دیا ہے جو بھارتی عدالت کی جانب سے حقیقت پر مبنی قدم 
ہے، لیکن مودی سرکار کے پاکستان کے خلاف معاندانہ رویے کا کیا کیا جائے؟ وہ بھارت کی معیشت کو سنبھالنے کے بجائے فوجی طاقت کو بڑھانے پر زور دے رہے ہیں جس کا واضح اعلان سیاچن میں اپنے دورے کے دوران جوانوں سے خطاب کے دوران کیا۔ انہوںنے اپنے وفاقی بجٹ میں 12فیصدکا اضافہ کردیا۔ اس طرح نریندرمودی کی حکومت کا کل دفاعی بجٹ 36.5 بلین ڈالر ہوگیا ہے جواس خطے کا سب سے بڑا دفاعی بجٹ ہے۔ ظاہر ہے کہ فوج کو طاقت وربنانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ پاکستان کو ڈراتے دھمکاتے رہیں اور اس کے ساتھ وہ اس خطے میں اپنی بالادستی قائم کرلیں۔ پاکستان پر دراندازی کا الزام عائد کرکے بھارت دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تصادم کی راہ ہموار کر رہا ہے، لیکن مودی صاحب کو اس سوچ کی بھاری قیمت بھی ادا کرنی پڑے گی ۔ پاکستان روایتی جنگ کے لیے بھی تیار ہے اور دنیا کی مہلک ترین جنگ یعنی ایٹمی جنگ کے لیے بھی! فیصلہ کرنا مودی صاحب کا کام ہے، یعنی وہ پاکستان کے ساتھ امن چاہتے ہیں یا جنگ؟ ویسے بھی بلوچستان اور کراچی میں بھارت کی جانب سے ہونے والی دراندازی سے کون انکار کرسکتا ہے؟کیا اس میں بھارت ملوث نہیں ہے ؟ ستم یہ ہے کہ جب چور سینہ زوری پر اتر آئے تو اس کا کیا علاج ہوسکتا ہے؟ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں