بھارت سے اچھائی کی توقعات کیوں؟

آخر کار بھارت کی حکومت نے پاکستان کو متنبہ کردیا ہے کہ وہ بھارتی سیکرٹری خارجہ کی پاکستان آمدپر اپنے ہم منصب سے ملاقات کے سلسلے میں زیادہ توقعات وابستہ نہ کرے۔ واضح رہے کہ بھارتی سیکرٹری خارجہ سارک ممالک کا دورہ کرتے ہوئے گزشتہ روز پاکستان آئے ہیں، تاکہ سارک کی تنظیم کو فعال بنانے سے متعلق پاکستانی حکومت کے خیالات معلوم کرسکیں۔ اس ضمن میں میں نے اپنے پچھلے کالم میں لکھا تھا کہ پاکستان کی حکومت خواہ مخواہ بھارتی سیکرٹری خارجہ کی پاکستان آمد کے سلسلے میں غیر معمولی گرمجوشی کا مظاہرہ کررہی ہے، اور دونوں ملکوں کے تعلقات میں برف پگھلنے کا عندیہ دے رہی ہے۔ اب تو یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ بھارتی سیکرٹری خارجہ کی آمد سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں مثبت پیش رفت ممکن نہیںہوسکے گی، کیونکہ بھارت کا ایجنڈا پاکستان کے ساتھ دوستی یا مفاہمت کا نہیں ہے، بلکہ وہ موجودہ صورتحال میں کسی قسم کی بھی تبدیلی کا خواہش مند نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی حکومت نے اپنی وزارت داخلہ کی مدد سے ایک ایجنڈا تیار کیا ہے، جس کے مطابق بھارتی سیکرٹری خارجہ جے شنکرکو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ پاکستان حکومت کے ساتھ بات چیت کے دوران ممبئی میں ہونے والی دہشت گردی‘ اس سے متعلق پاکستان میں چلنے والے کیسز اور دائود ابراہیم کو بات چیت کا موضوع بنائے۔ ظاہر ہے کہ ان موضوعات پر روایتی نوعیت کی بات تو ہوسکتی ہے، لیکن یہ ایجنڈا پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی کا نہیں ہے‘ بلکہ اس کے ذریعے ان دونوں ملکوں کے مابین تلخی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہاں یہ بات یادرکھنی چاہیے کہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے بھی وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات میں ممبئی میںہونے والی دہشت گردی اور دائود ابراہیم سے متعلق بات کی تھی۔ ظاہر ہے کہ ایسی گفتگو سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے سلسلے میں مخلص نہیں ہے، بلکہ وہ پاکستان کے ساتھ سارک ممالک کے دیگر ملکوں کے مساوی برتائو کرنا چاہتا ہے جبکہ بھارت کی یہ سوچ پاکستان کو قبول نہیں ہے اور نہ ہوسکتی ہے کیونکہ یہ اس خطے میں ایک قسم کی بھارت کی بالادستی ظاہر کرتی ہے۔
پاکستان کے خلاف بھارت کی اس سوچ کے پیش نظر پاکستان بھی مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر بھارتی فوج کی جانب سے ظلم و زیادتی سے متعلق سوال اٹھاسکتاہے بلکہ اس نے ہمیشہ اٹھایا ہے کیونکہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازعہ خطہ ہے، نیزسمجھوتہ ایکسپریس میں جو دہشت گردی کی گئی تھی ، اس کے مجرم ابھی تک گرفتار نہیں ہوسکے اور آزاد گھوم رہے ہیں۔ بھارتی ریاست گجرات میں 2002ء میں مودی نے اپنی وزارت اعلیٰ کے دوران اڑھائی ہزار مسلمان عورتوں، مردوں اور بچوں کوجس بے دردی سے قتل کروایا تھا، اس کے مجرم بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔ جن کو سزائیں ملی ہیں، وہ محض ڈھونگ تھا کیونکہ یہ عناصر پہلے ہی سے جیل میں تھے اور دوسرے جرائم کے سلسلے میں سزا بھگت رہے تھے۔ مزید برآں مودی کی پارٹی بی جے پی نے نوے کی دہائی میں بابری مسجد کو شہید کیا تھا اور ساتھ ہی اجودھیا میں (جہاں یہ تاریخی مسجد واقع ہے) ساڑھے تین ہزارمسلمانوں کو شہید کر کے ان کی جائیداد پر قبضہ کرلیا تھا۔ آر ایس ایس کے غنڈے آج تک ان جائیدادوں پر قابض ہیں۔ چنانچہ پاکستان بھی بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی پر بھارت سے سوال کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ 1949ء میں لیاقت علی خان اور پنڈت نہرو کے درمیان اقلیتوں سے متعلق ہونے والے معاہدے کی رو سے دونوں ملکوں کی حکومتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اقلیتوں کو وہی تحفظ فراہم کریں جو اپنے شہریوں کو کرتے ہیں۔
بھارت نے حال ہی میںپاکستان پر یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ گجرات کے ساحل کے قریب ایک پاکستانی کشتی دہشت گردی کے سلسلے میں آرہی تھی‘ جس کو بھارتی نیوی نے بم کے ذریعہ تباہ کردیا۔ بعد میں بھارتی کوسٹ گارڈ نے ہی اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ماہی گیر تھے جو مچھلیاں پکڑرہے تھے، جبکہ کشتی میں کسی قسم کا بارودی یادھماکہ خیز مواد موجود نہیں تھا۔ اگر ہوتا تو کشتی زوردار دھماکے سے پھٹ جاتی جبکہ ایسا کچھ نہیںہوا؛ چنانچہ بھارت کی طرف سے پاکستان پر عائد کئے جانے والے الزامات بالعموم غلط ثابت ہوئے ہیں۔ وہ جھوٹے اور بے بنیاد الزامات عائد کرکے پاکستان کے ساتھ دوستی تو کجا ورکنگ ریلیشن شپ بھی قائم نہیں کرنا چاہتا۔ اس لئے اس نے بھارتی سیکرٹری خارجہ کی پاکستان آمد سے قبل ہی یہ بیان داغ دیا کہ پاکستان جے شنکرکی آمد سے زیادہ توقعات قائم نہ کرے‘ باالفاظ دیگر پاکستان اور بھارت کے درمیان تمام معاملات پر بات چیت کے ذریعہ تعلقات بہتر ہوجائیں گے، ایک امید موہوم ہے۔ بھارت پاکستان کے موجودہ اندرونی حالات سے باخبر ہے‘ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے پھیلائو میں بھارت کا کلیدی ہاتھ ہے۔ بلوچستان ، فاٹااور کراچی میں ہونے والی تخریبی سرگرمیوں سے متعلق حکومت کے پاس شواہد موجود ہیں اور کئی مرتبہ پاکستان کے ارباب حل و عقد نے امریکہ سمیت یورپین یونین کو اس سلسلے میں آگاہ بھی کیا ہے، لیکن ان ممالک نے بھی بھارت کے اس رویے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کا اس کا حوصلہ بڑھا ہے۔ پاکستان کے بعض نام نہاد لکھاری اور دانشور بھی بھارتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ حیرت ہے کہ پاکستان سے ہر قسم کے فوائد حاصل کرنے کے باوجود چند سکوں کی خاطر وہ بھارت کی طرف داری کرکے اپنے وطن کی سالمیت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
جہاں تک میاں نواز شریف کا تعلق ہے ان کے پاس پاکستان کے مجموعی سیاسی ومعاشی حالات سدھارنے کے سلسلے میں کوئی ٹھوس حکمت عملی موجود نہیں ہے۔ وزیراعظم صاحب نے ابھی تک کوئی کل وقتی وزیر خارجہ بھی مقرر نہیں کیا۔ بعض ''بزرگوں‘‘ کے ذریعہ اس محکمے کو بالواسطہ چلایا جارہا ہے؛ چنانچہ وزارت خارجہ کی کارکردگی میں کسی قسم کا جوش وخروش نہیں پایا جا رہا۔ جو حکومت بلدیاتی انتخابات نہ کراسکتی ہو، وہ وفاقی یا صوبائی حکومتیں کس طرح چلا سکتی ہے۔ کراچی میں پھیلتی ہوئی دہشت گردی اور قتل وغارت گری صوبائی حکومت کے علاوہ وفاقی حکومت کا بھی منہ چڑا رہی ہے اور ہر باشعور فرد کو یہ سوچنے پر مجبور کررہی ہے کہ کیا حکومت نا کام ہوگئی ہے، یا پھر ریاست؟ عمران خان نے صحیح کہا ہے کہ مئی کے مہینے میں بہت کچھ ہونے والا ہے، انتظار کیجئے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں