سات سال کے بعد یوم پاکستان کی تقریب اسلام آباد کے علاوہ چاروں صوبوں میں منعقد ہوئی۔ شاندارفوجی پریڈ اور ہمارے بہادر فوجیوں کے فضائی اور زمینی کارناموں نے، نوجوان نسل کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اس فوجی پریڈ نے عوام میں نئی روح پھونک دی ہے اور مایوسی کی فضا ختم ہوگئی ہے۔ کاش ہمارے سابق حکمران یوم پاکستان کے موقع پر ہونے والی اس پریڈ کو جاری رکھتے، لیکن انہوںنے سکیورٹی کے خدشات کی بنا پر ایسا نہ کیا۔ اس فیصلے میں خودان کی کاہلی اور غفلت کا بہت دخل تھا۔ کیا گذرے ہوئے سات سالوں کے مقابلے میں آج پاکستان کو زیادہ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کا سامنا نہیں ہے؟ فاٹا اور خیبر ایجنسی میں ضرب عضب جاری ہے، کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن ہورہا ہے، بلوچستان میں ایف سی کے نوجوان باغیوں اور غیر ملکی ایجنٹوں سے نبرد آزماہیں۔ ہر طرف سے پاکستان میں پہلے سے زیادہ خطرات موجود ہیں ، لیکن فوج کے ذمہ داروں نے یوم پاکستان روائتی شان و شوکت سے منانے کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ کرکے دکھادیا۔ اس فوجی پریڈ سے پاکستان بھر میں پاکستان کے مستقبل کو محفوظ کرنے اور موجودہ چیلنجز کا مقابلے کرنے کا عوام میں نیا حوصلہ اور جذبہ پیدا ہوا ہے۔ میں بڑے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ 23مارچ کو یوم پاکستان کے موقع پر ہونے والی فوجی پریڈ سے پاکستان کے اندر اور باہر پاکستان کے دشمنوں کو بڑی مایوسی ہوئی ہوگی ، کیونکہ یہ عناصر اپنے آقائوں کے اشارے پر گذشتہ دس پندرہ سالوں سے پاکستان کو مختلف طریقوں اور حربوں سے عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اور غیر مستند تاریخی حوالوں سے قیام پاکستان کی تحریک کو''غلط‘‘ ثابت کرنے کی ناپاک کوشش کررہے ہیں،حالانکہ پاکستان کی تحریک اور بعد میں قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں اس کا قیام بیسویں صدی کا ایک غیر معمولی واقعہ ہے ،قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال سے بہت پہلے سرسید احمد خان نے محسوس کرلیا تھا کہ ہندوئوںکے دلوں میں مسلمانوں کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔یہ انگریزوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو معاشی وثقافتی طورپر تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ انگریز بھی اپنی حکومت کی بقاء کاراز ہندوئوں کے ساتھ اشتراک میں سمجھتا تھا ۔ان کی کوشش یہ تھی کہ بر صغیر کے مسلمانوں کو ہرطریقے سے پست رکھا جائے۔ انگریز جانتا تھا کہ ان کی حکومت کو سب سے زیادہ خطرہ مسلمانوں ہی سے ہے ،جن سے انہوں نے اقتدار چھینا تھا۔ دوسری طرف ہندو انگریزوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے ان کے ایک ہزار سالہ اقتدار کا بدلہ لینا چاہتا تھا، جس کا مظاہرہ آج بھی ہورہا ہے، حالانکہ مسلمانوں نے اپنے دور اقتدار میں مقامی باشندوں یعنی ہندئوں کے ساتھ جس انسانی ہمدردی ، مذہبی رواداری اور مفاہمت کا ثبوت دیا تھا، اس کی مثال کسی دوسرے معاشرے میں مشکل سے ملتی ہے۔ اگر مسلمان حکمران جابر و ظالم ہوتے تو غیر منقسم ہندوستان میں کوئی بھی ہندو ، ہندونہ رہتا، ان سب کو بزورشمشیر مسلمان کرلیا جاتا ۔
دراصل قیام پاکستان غیر منقسم ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف انگریزوں اور ہندوئو ںکی مشترکہ زیادتیوں، نا انصافیوں اور ظلم کی وجہ سے میں ناگزیر ہوچکا تھا۔علامہ اقبال نے اپنے تاریخی خطبہ الٰہ آباد میں مسلمانوں سے ہونے والی زیادتیوں کا احساس کرلیا تھا، یہی وجہ تھی کہ انہوں نے بر صغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا تھا۔ 1937ء میں جب کانگریس کی آنجہانی نہروکی قیادت میں آٹھ صوبوں میں حکومت قائم ہوئی، تو اس دوران 85فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ،جن میں مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی گئی، خود وائسرائے نے نہرو سے کہا تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف حد سے تجاوز کررہے ہیں۔ اس پس منظر میں قائد اعظم نے 23مارچ 1940ء کو منٹو پارک لاہور میں مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا تھا۔ پورے ہندوستان سے اس تاریخی جلسہ میں آئے ہوئے ڈیڑھ لاکھ مسلمانوں نے قیام پاکستان کی زبردست نعروں اور تالیوں کی گونج میں حمایت کی اور اعلان کیا کہ وہ قائد اعظم کے شانہ بہ شانہ جدوجہد کرتے ہوئے پاکستان کے قیام کو یقینی بنائیں گے۔ تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے بعد جتنی بھی
مستند کتابیں لکھی گئیں ، ان میں یہی درج ہے کہ باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت گاندھی، نہرو اور پٹیل نے مسلمانوں کو ایک علیحدہ مملکت کے قیام کے لئے مجبور کیا ، ورنہ محمد علی جناح جنہوںنے ہندومسلم اتحاد کے لئے تیرہ سال تک کوشش کی تھیں، کیوں کر مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ مملکت کا مطالبہ کرتے؟ یہاں تک کہ 1945ء میں انگلستان سے آنے والے کرپس مشن پلان کو قائد اعظم نے منظور کرلیا تھا، لیکن نہرو نے اس کی شدید مخالفت کی جس کی وجہ سے کرپس مشن پلان کو مسترد کردیا گیا۔ جسونت سنگھ نے اپنی کتاب میں بڑی وضاحت سے یہ لکھا ہے کہ قائد اعظم کو پاکستان کا مطالبہ کرنے پر نہرو اور پٹیل نے مجبور کیا تھا، ورنہ بر صغیر کی تاریخ کچھ اور ہی ہوتی۔
آج ایک بار پھر پاکستان بھارتی سامراج کی پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیوں کے بچھائے ہوئے جال سے ملک کے اندر اور باہر ایک ایسی جنگ لڑ رہا ہے جس کے لئے قوم کا اتحاد ناگزیر ہے، جبکہ یہ بات باعث مسرت اور اطمینان ہے کہ پاکستان کی اکثریت جس میں نوجوان پیش پیش ہیں، اپنی فوج اور سیاسی قیادت کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہوئے ہیں، انہیں اب یہ احساس ہوچکا ہے کہ مملکت خداداد پاکستان نے ان سب کو آزادی اور عزت و وقار کی صورت میں کتنی بڑی نعمت سے سرفراز کیا ہے۔ مرحوم حکیم سعید فرمایا کرتے تھے کہ ''پاکستان سورہ رحمن کی تفسیر ہے‘‘، تاہم یہ حقیقت
بھی اپنی جگہ نا قابل تردید ہے کہ ہم سب عملی طور پر کفران نعمت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ہم نے پاکستان میں ملنے والی آزادی سے ناجائز فوائد اٹھائے ہیں، اور خود غرضی، نا انصافی اور ظلم کا مظاہرہ کرتے ہوئے مملکت کے اداروں کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ اگر پاکستان میں فوج کا ادارہ نہ ہوتو سیاست کے پردوں میں چھپے ہوئے یہ عناصر اس ملک کو ایک اور بنگلہ دیش بنانے میں ذرا دیر نہ کریں۔ یہی عناصر جمہوریت کے پر فریب نعروں سے اس نا خواندہ قوم کو سبز باغ دکھاتے ہیں اور جب اس نام نہاد جمہوریت کے ذریعے اقتدار پر فائزہوجاتے ہیں تو مملکت کے وسائل کا بڑی بے دردی سے اپنے لئے ،اپنے خاندان کے لئے اور اپنے دوستوں کے لئے استحصال کرتے ہیں۔ رہے عوام توان کی داد وفریاد سننے والا اور ان کے دکھوں کامداوا کرنے والا کوئی نہیں ،سوائے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے،یا پھرجانبازافواج ۔
چنانچہ 23مارچ کو یوم پاکستان کے موقع پر ہونے والی شاندار فوجی پریڈ نے جہاں ذہنوں پر مایوسی اور ناامیدی کے چھائے ہوئے اندھیروں کوپاش پاش کردیا ہے، وہیں ایک بار پھر یہ احساس جگمگانے لگا ہے کہ پاکستان ایک زندہ قوم ہے، اور ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ اور عزم رکھتی ہے۔ پاکستان دشمن طاقتیں یہ سوچ رہی تھیں کہ آئندہ پاکستان دہشت گردی کے خوف کی وجہ سے فوجی پریڈ نہیں کرسکے گا، لیکن قوم نے ان کی اس سوچ کو غلط ثابت کردیا ہے اور انہیں یہ پیغام بھیجا ہے کہ پاکستانی قوم جاگ رہی ہے اور ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت اور اہلیت رکھتی ہے، پاکستان پائندہ باد۔