میں کچھ روزقبل سری لنکا میں ایک ہفتہ قیام اور مطالعے کے بعد واپس پاکستان آیا ہوں۔ سوچا تھا کہ سری لنکا میں دہشت گردوں کے خلاف سری لنکن آرمی اور عوام کے اتحاد سے جو فتح حاصل ہوئی، اس پر تفصیل سے لکھا جا ئے، لیکن آج (17جون) کے اخبارات میں پی پی پی کے شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری کی پاکستان کے عسکری اداروں کے خلاف تقریر پڑھ کر بہت دکھ ہوا بلکہ جن اہل قلم اور اہل فکر سے میرا رابطہ اور تعلق ہے، انہوںنے بھی ان کے بیان کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ بعض نے تو یہ کہا کہ وہ بھارت کے لب و لہجہ میں گفتگو کررہے تھے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں جن عناصر نے کرپشن کا ارتکاب کیا وہ کون ہیں؟ 10پرسنٹ سے لے کر 100 پرسنٹ تک کا الزام کس پر لگتا تھا۔ انہوںنے گھبراہٹ کے عالم میں قومی اداروں کے بارے میں جو کچھ بھی کہا،اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے خلاف باقاعدہ کارروائی کا آغاز ہونے والا ہے اور اسی کو روکنے کے لیے انہوںنے عسکری قیادت کو براہ راست دھمکی دی کہ اگر ایسا قدم اٹھایا گیا تو وہ کراچی سے خیبر تک ملک بلاک کردیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے خود بلاول ہائوس کا راستہ بلاک کیا ہوا ہے۔ آصف زرداری صاحب کے سلسلے میں ایک اور نا قابل تردید حقیقت کا ذکر بھی ضروری ہے کہ اپنے دور صدارت اور بعد میں سندھ حکومت کی پیچھے سے ڈورہلانے اور ختم نہ ہونے والی کرپشن کی داستانیں ان کے لیے اور پارٹی کے لیے شرمندگی کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ سندھ حکومت کی کارکردگی اور بعض وزرا کی کرپشن کی داستانوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ آصف علی زرداری کی قیادت میں پی پی پی اپنے اساسی منشور سے ہٹ چکی ہے۔ اب عوام کی خدمت کرنا اس کا مقصد نہیں رہا بلکہ ناجائز طریقے سے دولت جمع کرنا اور اس ناجائز دولت سے پاکستانی سماج میں اپنا رعب و دبدبہ قائم کرکے انتخابات میں غریبوں کے ووٹ حاصل کرنا شامل ہے۔ لیکن حالیہ انتخابات میں بالخصوص گلگت بلتستان میں پی پی پی کو جو شکست ہوئی وہ اس بات کی غماز ہے کہ یہ عوام میں قدر ومنزلت کھوتی جارہی ہے، عوام اس سے دور ہوتے جارہے ہیں، انہیں اب احساس و ادراک ہوچکا ہے کہ پی پی پی نظریاتی جماعت نہیں رہی اور نہ ہی اس کے قائد میں وہ صلاحیت ہے جو اس پارٹی کی ڈوبتی کشتی کوکنارے لگا سکے۔
گلگت بلتستان کے عوام نے الیکشن کے دوران پی پی پی کی ذیلی قیادت پر الزام لگایا کہ انہوں نے روپے پیسے کے عوض نوکریاں فروخت کیں اور حق دار کو ان کے حق سے محروم رکھا گیا۔ بالکل یہی طریقہ کار سندھ میں اختیار کیا گیا ہے۔ نوکریاں فروخت کرکے حق داروں کو ان کے حقوق سے محروم کیا گیا جبکہ وزرا اور مشیروں نے ناجائز دولت کمائی اور راتوں رات امیر کبیربن گئے۔ یہی وجہ ہے کہ پی پی پی کی ساکھ تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اس صورت حال کا تدارک آصف علی زرداری کے پاس نہیں ہے کیونکہ وہ جمہوریت کی پیداوار نہیں اور نہ ہی انہوںنے جمہوریت کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ وہ جیل میں کرپشن کے الزامات کی وجہ سے بند رہے اور بعد میں انہوںنے اثر و رسوخ سے ان مقدمات سے اپنے آپ کو بری کرا لیا۔ جمہوریت کے لیے قربانیاں بے نظیر بھٹو ، ان کی والدہ نصرت بھٹو اور پی پی پی کے بانی چیئرمین جناب زیڈ اے بھٹو نے دی ہیں، پی پی پی کے کارکنوں کے دل انہی مرحومین کی محبتوں سے سرشار ہیں اور آج بھی وہ انہی کے نام پر پی پی پی کو ووٹ دیتے ہیں ورنہ اس پارٹی کا موجودہ ٹولہ عوام کی نگاہوں میں اپنی توقیرکھو چکا ہے، پی پی پی آہستہ آہستہ سکڑکر ایک صوبائی پارٹی بنتی جارہی ہے۔ زرداری صاحب کا قومی اداروں پر یہ الزام لگانا کہ وہ پی پی پی کو بد نام کررہے ہیں، دراصل وہ مقتدر حلقوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی تو وہ ملک میں انتشار پھیلانے میں کوئی پس و پیش نہیں کریں گے۔ ان کا ایک قابل اعتماد دوست سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں مبینہ طورپر غیر معمولی کرپشن کررہا تھا، پورا کراچی اس حقیقت سے واقف ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہی شخص ایک خاص رقم ہر ماہ نذرانے کے طورپر پیش کرتا تھا۔ جب رینجرز نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی پر چھاپہ مارا اورکچھ کرپٹ عناصر کو گرفتار کیا تو آصف علی زرداری بلبلا اٹھے، انہوںنے اسلام آباد میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایسی تقریر کی جو ان کے لیے آئندہ بہت سی مصیبتوں کا باعث بن سکتی ہے۔ انہوں نے انتہائی بچگانہ رویے کا ثبوت دیا، ایسے موقع پر عسکری قیادت پر الزام لگانے کی کوشش کی ہے جب قوم کو اس وقت اتحاد اور یکجہتی کی سخت ضرورت ہے۔ ان کی اس تقریر پر وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے بالکل صحیح کہا کہ ''زرداری نے اپنی کمزوریاں چھپانے کے لیے قومی اداروں کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ طرز سیاست خطرناک ہونے کے ساتھ ساتھ قابل مذمت بھی ہے جس کی وجہ سے قومی اداروں کو نا قابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ڈی جی رینجرز کی رپورٹ قانون کے مطابق ہے‘‘۔
دراصل آصف علی زرداری اب ایک ایسی ڈگر پر چل نکلے ہیں جو انہیں اور ان کی پارٹی کو مزید نقصانات سے دوچار کرسکتی ہے۔ وہ اپنا احتساب اور اصلاح کرنے کے بجائے ایسے اداروں پر انگلیاں اٹھارہے ہیں جن سے متعلق ان کی معلومات تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پاکستان میںکرپٹ عناصر کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ جب کبھی ارباب حل وعقد کی جانب سے ان کی گرفت کے امکانات پیدا ہونے لگتے ہیں تو وہ عوام کو دھوکہ دینے اور بہکانے کے لیے قومی اداروں کو تنقیدکا نشانہ بناتے ہیں اور ایسی باتیں کرتے ہیں جن کا ان کی اپنی یا ان کی پارٹی کی کارکردگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس قسم کے بیانات سے آصف علی زرداری اور ان کا کرپٹ ٹولہ اپنے آپ کو قانون کی گرفت سے بچا نہیں سکے گا اور نہ ہی پی پی پی کے باشعور کارکن ان کی ان لغو، بے بنیاد اور بیہودہ باتوں پر توجہ دیں گے۔ بھلا جو شخص پاکستان سمیت پوری دنیا میں کرپشن کی وجہ سے بدنام ہو، کس بنیاد پر ان قومی اداروں پر انگلیاں اٹھا سکتا ہے جو وطن عزیز کا دفاع نہ صرف اندورنی دہشت گردوں سے جنگ کے ذریعہ کررہے ہیں بلکہ چند سکوں کی خاطر وطن عزیز کی سالمیت اور خود مختاری سے کھیلنے والے بیرونی ایجنٹوں سے بھی نبرد آزما ہیں۔ آج بھٹو مرحوم اپنی قبر میں یہ سوچ رہے ہوں گے کہ پی پی پی کی قیادت کس کے ہاتھو ں میں آگئی ہے جو پارٹی کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کررہا ہے بلکہ اس کی ساکھ کو عوام کی نگاہوں میں نا قابل تلافی نقصان پہنچارہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پی پی پی میں کوئی ایسا قدآور اور بہادر شخص موجود نہیں جو آصف زرداری کو صحیح راہ دکھا سکے اور پارٹی کی ساکھ کو عوام کی نگاہوں میں معتبر اورمحترم بنا نے کے لیے کرپشن کے خلاف اٹھ کھڑا ہو۔