سپریم کورٹ کا عوامی فیصلہ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی عدالتوں کے قیام کو عین آئین کے مطابق قرار دیا ہے، اور اٹھارہویں ترمیم اور اکیسویں ترمیم کے خلاف درخواستوں کو کثرت رائے سے خارج کردیا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد بھیانک جرائم سے وابستہ مقدمات فوجی عدالتوں کے سپرد کردیئے جائیں گے۔ ایک ہزار کے قریب صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس ناصرالملک نے پڑھ کر سنایا۔ اس فیصلہ میں اہم نکتہ یہ ہے کہ فوجی عدالتوں کے فیصلوں پر عدالتی نظر ثانی کا حق حاصل ہوگا، تاکہ فوجی عدالتیں اپنی حدود سے تجاوز نہ کریں۔ فوجی عدالتوں کے قیام کے اعلان کے بعد وہ عناصر سرگرم ہوگئے تھے، جنہوں نے ماضی میں اس مملکت خداداد کے وسائل کو بری طرح لوٹا تھا اور مزاحمت کرنے والوں کو بڑی بے دردی سے قتل بھی کیا تھا۔ ان میں پولیس اہل کاروں اور افسران کے علاوہ رینجرز کے اہل کار بھی شامل تھے۔ کراچی سمیت پورے ملک کی صورتحال اس حد تک بگڑ گئی تھی کہ پورا عدالتی نظام عوام کی نظروں میں سوالیہ نشان بن گیا تھا۔ قانون کی بالادستی تو کجا معاشرے میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ جب قانون ختم ہوگیا تو اس کے ساتھ ہی انصاف بھی اپنی اہمیت وافادیت کھو چکا تھا۔ حالات اتنے زیادہ بگڑ چکے تھے کہ معاشرے میں سماج دشمن عناصر کا غلبہ قائم ہو چکا تھا، جبکہ ہر سطح پر حکومت ان حالات کو سدھارنے اور سنوارنے یا اصلاح کرنے کے سلسلے میں مکمل طورپر ناکام ہوچکی تھی۔ المیہ یہ تھا کہ مذہبی ، لسانی اور دیگر سیاسی پارٹیوں میں شامل غنڈہ عناصر پوری طرح فعال ہو کراور معاشرے میں خوف پھیلا کر عدم تحفظ کے احساس کو مزید ہوا دے رہے تھے، جس کی وجہ سے معاشی ، ثقافتی سرگرمیاں معدوم ہوتی جارہی تھیں۔ عوام اس بھیانک صورتحال کا تدراک چاہتے تھے، جو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مملکت خدادا دکو کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ معاشی سرگرمیوں کو بھی ختم کرنے کے لئے جاری تھیں۔ گذشتہ سات سالوں سے مختلف سیاسی جماعتوں کے اندر شامل سماج دشمن عناصر نے ہر قسم کے انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کرکے ساری دنیا میں یہ تاثر پھیلایا تھا کہ پاکستان ایک ناکام ریاست بن چکا ہے۔ اس تصور کو مزید بڑھاوا دینے میں این جی اوز کا بھی ہاتھ تھا اور اب بھی ہے۔ اس طرح ریاستی ادارے خطرناک صورتحال کے پیش نظر اپنا اساسی کام کرنے سے قاصر نظر آرہے تھے، جس نے سماج دشمن عناصر اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کے حوصلے بلند کئے تھے۔ تاہم! جب موجودہ حکومت پراس صورتحال کے پس منظر میں عوام کی جانب سے شدید دبائو پڑا تو حکومت نے پہلے کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کا بھر پور آغاز کیا جس کی تمام سیاسی جماعتوں نے حمایت کی تھی، اور اب بھی عمومی طورپر اس آپریشن کی حمایت کی جارہی ہے اوراس کے اچھے نتائج برآمد ہو رہے ہیں ،لیکن سماج دشمن عناصر اب بھی فعال ہیں اور اس آپریشن کو ناکام بنانے کے علاوہ متنازعہ بنانے کے لئے سیاسی جماعتوں کے مدد حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن کیونکہ اعلیٰ عدالت ، سیاسی حکومت اور فوج جرائم پیشہ عناصر کا قلع قمع کرنے کا عزم کرچکی ہیں اور عوام ان کا بھر پور ساتھ دے رہے ہیں، اس لئے توقع ہے کہ آئندہ مہینوں میں مزید بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔ عوام جو تبدیلی چاہتے ہیں وہ یہی ہے کہ ان کے شہر میں امن قائم ہو۔ امن ہو گیا تو تبدیلی خود بخود آ جائے گی۔ جب معیشت کا پہیہ چل پڑے تو خوشحالی بھی آ ہی جاتی ہے۔ 
فوجی عدالتوںکے قیام کی دہشت اپنی جگہ معاشرے میں جرائم پیشہ عناصر کے لئے ایک ایسا تازیانہ ثابت ہوتی ہے، جس کے ماضی میں بھی اچھے نتائج نکلے ہیں، تاہم فوجی عدالتوں کے قیام کی صورت میں بعض وکلاء کی آمدنی ختم ہونے لگتی ہے، اس لئے یہ آئین کی مختلف شقوں کا سہارا لے کرکوشش کرتے ہیں کہ فوجی عدالتیں قائم نہ ہوسکیں، تاکہ وہ گرفتار شدہ جرائم پیشہ عناصر اور ان کی حمایت کرنے والوں سے زیادہ سے زیادہ رقوم لے کر ان کے مقدمات لڑیں اور بعد میں انہیں آزاد کرادیں، چاہے معاشرہ ان عناصرکے ہاتھوں لہولہان ہوتا رہے۔ ملٹری کورٹس پہلے بھی قائم ہوئی تھیں۔ ان کا بنیادی مقصد جرائم کے علاوہ دہشت گردوں کو ختم کرنا ہوتا ہے جو اندرونی وبیرونی دشمنوں کے ایما ، اشارے اور ان کی مالی مدد کے ذریعے مملکت میں افراتفری پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اقتصادی سرگرمیاں رک جائیں اور دشمن ملکوں کو حملہ کرنے کا موقع مل جائے۔ دنیا بھر میں جرائم پیشہ عناصر اور قانون کی بالادستی کو قائم کرنے کے لئے ملٹری کورٹس کے علاوہ سمری کورٹس بھی قائم کی جاتی ہیں اور اس کی مثال چین سے دی جاسکتی ہے۔
ایران میں بھی جرائم پیشہ عناصر کی بیخ کنی کے سلسلے میں سخت قوانین رائج ہیںجس پر سرعت کے ساتھ عمل کیا جاتا ہے۔ آج ایران میں جرائم کا گراف اس خطے کے دیگر ممالک کے بر عکس سب سے کم ہے اور اس کی وجہ مضبوط عدالتی نظام کی موجودگی اور بر وقت جزا اور سزا کا نظام ہی ہے۔ پاکستان میں ملٹری کورٹس کا قیام اس لئے کیا گیا ہے کہ مملکت کا کاروبار ٹھپ ہوتا جارہا تھااور لاقانونیت نے سماج کے ہر فرد کو پریشان اور ہراساں کردیا تھا، جیسا کہ میں نے بالائی سطور میںلکھا ہے کہ ان سماج دشمن عناصر اور دہشت گردوں کو با قاعدہ سیاسی ومذہبی جماعتوں کی حمایت کے علاوہ مالی مدد بھی حاصل تھی، اگر سیاسی حکومت، فوج اور عدالتیں اس صورتحال کی اصلاح کرنے اور جرائم کو روکنے کے سلسلے میں پیش رفت نہ کرتیں تو پھر حالات میں سدھار کبھی نہیں آ سکتا تھا۔ سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کے قیام کو جائز اور آئینی تقاضوں کے عین مطابق قرار دے کر عوام کی خواہشات اور جذبات کا نہ صرف احترام کیا ہے بلکہ ان تمام ظالم قوتوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اس مملکت خداداد میں قانون کے مطابق زندگی بسر کریں اور اس کو مضبوط وطاقتوربنائیں تاکہ دشمن اس کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے۔ قانون کے عملی اطلاق میں ہی ایک فلاحی معاشرے کی تعمیر وتشکیل کاراز مضمر ہے جس کی آرزو اور تڑپ ہر مردوزن کے دل میں اور اس میں مرد مومن کی زندگی اور بقا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں