ممتاز تاجر اور سماجی شخصیت جناب عقیل کریم ڈھیڈی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پورا پاکستان دبئی سے کنٹرول ہو رہا ہے۔ جاری حالات و واقعات کا جائزہ لیا جائے تو ان کا یہ مشاہدہ بالکل صحیح محسوس ہوتا ہے۔ پاکستان کے باشعور عوام اس منظر کا بڑی حیرت سے مشاہدہ کر رہے ہیں کہ کس طرح سندھ کی پوری کابینہ اپنا اجلاس دبئی میں منعقد کرتی ہے، لیکن کسی کو اس غیر آئینی طریقۂ کار پر اعتراض نہیں۔ کسی حلقے کی جانب سے اس بارے میں کبھی کوئی بات نہیں کی گئی۔ اس ضمن میں اعلیٰ حلقوں کی جانب سے پُراسرار خاموشی کم از کم مجھ جیسے ناقص عقل رکھنے والے کے لیے تشویش کا باعث بنتی جا رہی ہے۔ سندھ کابینہ کے تمام سرکاری اور غیر سرکاری اخراجات حکومت سندھ ادا کرتی ہے۔ یہ قیمتی سرمایہ عوام اپنے ٹیکسوں سے ادا کرتے ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے والے اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ کسی صوبے یا ملک کی کابینہ صرف اُس وقت کسی غیر ملک میں جا کر اپنا اجلاس منعقد کرتی ہے‘ جب ملک کے اندر اجلاس کرنے کے لیے سیاسی حالات سازگار نہ ہوں‘ یا کسی قسم کی عوامی تحریک چل رہی ہو‘ لیکن پاکستان یا صوبہ سندھ میں اس طرح کی کوئی صورت حال مشاہدے میں نہیں آ رہی۔ قومی اسمبلی کے علاوہ سندھ اسمبلی کا باقاعدہ اجلاس ہوتا رہتا ہے، قوانین بنائے جا رہے ہیں، معیشت کو بہتر کرنے کے سلسلے میں کوشش کی جا رہی ہے، اور باقی بھی ہر طرح کی منصوبہ بندیاں ہو رہی ہیں۔ گویا مجموعی طور پر پاکستان میں سیاسی و معاشی حالات مناسب نظر آتے ہیں‘ اور بظاہر ''جمہوریت‘‘ کو بھی کسی قسم کا کوئی خطرہ نظر نہیں آ رہا ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ سندھ کابینہ کا اجلاس دبئی میں کیوں منعقد کیا جاتا ہے؟ کابینہ کے سارے ارکان اس اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان سے وہاں جاتے ہیں۔ محض ایک شخص آصف علی زرداری کی خواہش پر؟ جن پر کرپشن کے غیر معمولی الزامات ہیں‘ اور جو اپنی اس ناجائز اور غیر قانونی دولت کو بچانے کے لیے دبئی میں پناہ گزین ہیں۔ خود سندھ کابینہ کے بعض وزراء نے دبے الفاظ میں اپنی نجی محفلوں میں دبئی میں ہونے والے اجلاس پر تنقید کی ہے، لیکن چونکہ انہیں اپنی نوکری اور ''عزت‘‘ بچانی ہے، اس لیے مصلحتاً خاموش رہتے ہیں۔ دبئی میں ہونے والے سندھ کابینہ کے اجلاس کے سلسلے میں ایک تشویشناک بات یہ بھی ہے کہ دبئی میں بعض ایسے خفیہ ادارے موجود ہیں‘ جو پاکستان کی اصل صورت حال جاننے کی ٹوہ میں رہتے ہیں، ان کا رابطہ پی پی پی کے ان وزرا سے بھی رہتا ہے‘ جو کابینہ کے اجلاس میں شرکت کرتے ہیں اور عالم سرشاری میں کابینہ میں ہونے والی تمام گفتگو اُگل دیتے ہیں۔ اس طرح پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری کے حوالے سے تمام خفیہ امور پاکستان دشمن قوتوں کے پاس چلے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے۔ اس صورت حال پر پاکستان کے تمام مقتدر ادارے خاموش ہیں بلکہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ انہیں پاکستان کے مستقبل کے بارے میں کوئی فکر ہی نہیں ہے۔
چنانچہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سندھ کابینہ کے دبئی میں ہونے والے اجلاس کو کون روکے گا؟ اور کون قانون اور آئین کے حوالے سے اس کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی قرار دے گا؟ اس ضمن میں سب سے زیادہ ذمہ داری سپریم کورٹ پر عائد ہوتی ہے، جس کا کام آئین اور قوانین کی تشریح کرنے کے علاوہ ایسے طریقہ کار پر نگاہ رکھنا بھی ہے‘ جس سے پاکستان کی سالمیت متاثر ہونے کا خدشہ ہو۔ دوسری ذمہ داری وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف پر عائد ہوتی ہے‘ جنہوں نے آصف علی زرداری کے ساتھ مفاہمت کی سیاست کرتے ہوئے انہیں یہ ''حوصلہ‘‘ دیا کہ وہ سندھ حکومت کے حوالے سے جو کچھ بھی کرنا چاہیں تو کر لیں۔ یہی وجہ ہے کہ آصف علی زرداری حکومت میں نہ ہوتے ہوئے بھی حکومت کر رہے ہیں‘ اور وہ تمام غیر قانونی اور غیر آئینی کام کیے جا رہے ہیں‘ جن کی وجہ سے صوبائیت اور لسانیت فروغ پا رہی ہے اور جو پاکستان کی مجموعی سلامتی کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
عقیل کریم ڈھیڈی نے اس ضمن میں اپنی جس تشویش کا اظہار کیا‘ وہ دراصل پاکستان کے عوام کی اکثریت کی تشویش بھی ہے۔ اس کا جواب وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو دینا چاہیے۔ سپریم کورٹ کے معزز ججوں کو بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ پاکستان کے مقتدر ادارے اور سول سوسائٹی اس حقیقت سے واقف ہیں کہ سندھ حکومت سب سے زیادہ نااہل اور کارکردگی کے حوالے سے انتہائی ناقص ثابت ہو رہی ہے‘ جس کا اندازہ صوبے کے عوام میں پائی جانے والی اور بڑھتی ہوئی بے چینی سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے طویل عرصہ درکار ہے، لیکن کم ازکم مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ 'قافلہ حجاز میں ایک حسینؓ بھی‘ نظر نہیں آ رہا جو اس گمبھیر صورت حال کا ازالہ کر سکے۔
کتنے دکھ کی بات ہے کہ ایک طرف پاکستان کے عوام کی اکثریت معاشی صورت حال کے حوالے سے مہنگائی، تنگ دستی اور محرومی کا شکار ہے تو دوسری طرف سیاسی اشرافیہ مملکت خداداد کے وسائل کو اپنے لیے اور اپنے رشتہ داروں کے لیے لوٹ رہی ہے۔ ان کا ہاتھ روکنے کے لیے ایک طاقتور اور مضبوط سیاسی ادارے اور حوصلے کی ضرورت ہے۔ یہ حوصلہ صرف اور صرف عسکری ادارے کے پاس موجود ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہر بدعنوان سیاست دان خوف میں مبتلا رہتا ہے اور کونے کھدروں میں بیٹھ کر اس قومی ادارے کو بدنام کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ معصوم اور ان پڑھ عوام کو یہ بدعنوان اور کرپٹ سیاست دان یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ یہ سب کچھ جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کی سازشیں ہیں، حالانکہ جمہوریت کا کرپشن اور بری طرز حکمرانی سے دور دور کا واسطہ نہیں ہے۔ پاکستان میں جس قسم کی جمہوریت رائج ہے وہ ایک قسم کا غیر جمہوری، کرپٹ اور نااہل عناصر کا اتحاد ہے جو اپنی ناجائز دولت کی مدد سے ووٹ خرید کر مسند اقتدار پر براجمان ہو کر ملک کے وسائل کو لوٹنے میں کسی قسم کی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔ غضب خدا کا، دبئی میں سندھ کابینہ کا اجلاس محض ایک ایسے شخص کی ایما پر کیا جاتا ہے جس کے بارے میں خود سندھی بھائی اچھی رائے نہیں رکھتے۔