حسین حقانی پاکستان مخالف مہم کے تحت ‘ان دنوں بھارت کا دورہ کررہے ہیں، جبکہ ان کی اہلیہ مسز اصفہانی دہلی میں لیکچروں کے ایک سلسلے کے دوران یہ تاثر پھیلا رہی ہیں کہ پاکستان میں اقلیتیں غیر محفوظ ہیں اور ان کے ساتھ تیسرے درجے کے شہری کا ساسلوک کیا جارہاہے۔حسین حقانی اور مسز اصفہانی یہ سب کچھ ایک ایجنڈے کے تحت کررہے ہیں ‘جسے انہیں مغرب کی بعض طاغوتی طاقتوں نے سونپا ہے۔وہ سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے پاکستان دشمن ملکوں میں بے سروپا اور بے بنیاد باتیں کرکے وطن عزیز کو بد نام کررہے ہیں ۔انہیں ایسا کرنے میں ذراسی بھی جھجک نہیں ہے۔ احسان فراموشی کی بھی حد ہوتی ہے آج وہ جو کچھ بھی ہیں وہ صرف اور صرف پاکستان کی بدولت ہیں ۔ امریکہ اور اس سے قبل کچھ عرصے سری لنکا میں سفارت کاری کا اعزاز بھی انہیں اسی وطن نے ہی عطاکیا تھا۔ حسین حقانی کی موقع پرستی اور مفاد پرستی سے ایک جہاں واقف ہے، لیکن جاننے والوں کو ان سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ اس حد تک آگے نکل جائیں گے۔ خواجہ آصف بتاتے ہیں کہ حقانی صاحب پاکستان کو ایف 16لڑاکا جہازوں کی ترسیل کے خلاف بھی امریکہ میںمہم چلارہے ہیں ۔اس مہم میں بھارت ان کی مالی معاونت کررہا ہے۔ بھارت تو ایسے عناصر کی تلاش میں رہتا ہے جو پاکستان کو کسی بھی لحاظ سے بد نام کرنے میں اس کے ساتھ تعاون کرسکیں؛ تاہم میں نہیں سمجھتا کہ امریکہ کسی بھی ایجنٹ کو اتنی اہمیت دے گا کہ وہ پاکستان کی دفاعی شعبے کی ضروریات کو نظر انداز کردے۔ پاکستان امریکہ سے دفاعی سازوسامان بشمول ایف 16طیارے اپنے مالی وسائل سے حاصل کررہاہے۔ امریکہ کب چاہے گا کہ اس کی اسلحہ کی تجارت متاثر ہو۔اسلحہ کی تجارت کے علاوہ جدید ٹیکنالوجی کی فروخت پر ہی امریکی معیشت کا انحصار ہے۔ اگر حسین حقانی میں حب الوطنی کا ذرا سا بھی جذبہ ہوتا تو وہ امریکہ کو قائل کرتے کہ بھارت کو آئندہ کسی بھی قسم کا اسلحہ نہ بیچے۔ کیونکہ بھارت مختلف ذرائع سے اسلحہ خریدنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔اس کا جنگی بجٹ پاکستان سے پانچ گنا زیادہ ہے؛درآں حالیکہ بھارت کی آبادی کی اکثریت (تقریباً 80کروڑ) غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔اگر بھارت اپنی رقم کا نصف حصہ اسلحہ خریدنے کے بجائے اپنے عوام کی معاشی وسماجی ضروریات کو پورا کرنے میں صرف کرے تو بھارت میں غربت اور بھوک ختم ہوسکتی ہے۔
جہاں تک پاکستان میں اقلیتوں (ہندو اور عیسائی) کا تعلق ہے تو انہیں یہاں عمومی طورپر کسی قسم کی سماجی یا معاشی تکلیف نہیں ہے۔یہ تمام اقلیتیں خوشگوار زندگی بسر اور وطن عزیز کی معاشی ترقی میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ اس کے مقابلے میں بھارت میں مسلمان اور دلت معاشی وسماجی طورپر کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، بلکہ مسلسل خوف میں مبتلا ہیں۔اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے دنوں‘ ہندو انتہا پسندوں نے وادری(دہلی کے قریب ایک گائوں) میں گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں (جو بعد میں جھوٹ ثابت ہوا) ایک مسلمان اخلاق احمد کو بری طرح تشدد کرکے ہلاک کردیا ۔اسی طرح کے اور بھی واقعات ہوئے ہیں جن میں مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔انتہا پسندہندوئوں نے انہیں دھمکیاں دیں‘ اور مطالبہ کیا کہ '' ہندو دھرم اختیار کروورنہ بھارت چھوڑ دو‘‘ مسلمانوں کے خلاف انتہا پسند ہندو خصوصیت کے ساتھ شیوسینا اور آر ایس ایس کے انتہا پسند کارکنوں نے نریندرمودی کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلمانوں کے خلاف اپنی سرگرمیاں تیزکردی ہیں۔ مسلمانوں کو ہر شعبے میں معاشی طورپر مفلوج کرنے کی کھلے بندوں مہم بھی جاری ہے ۔ ان کے لئے سرکاری نوکری کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ بھارت میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے خلاف بھارتی دانشوروں نے نریندرمودی کی حکومت کے خلاف سخت احتجاج کرتے ہوئے اپنے اعزازات واپس کردیئے ہیں ۔جن میں بھارت کی فلم انڈسٹری کے نامور سٹار بھی شامل ہیں ۔یہ ہے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف حکومت کا روّیہ اور اس کا اصل چہرہ۔ جبکہ بھارت میں مسلمان سب سے بڑی اقلیت ہیں ۔جن کی سماجی ، مذہبی اور معاشی تحفظ کی تمام تر ذمہ داری آئین کے مطابق بھارتی حکومت پر عائد ہوتی ہیں۔مسز اصفہانی اور مسٹر حسین حقانی کو ان (مسلمانوں)کے بنیادی حقوق چھن جانے کا کوئی ملال نہیں۔ دونوں میاں بیوی وطن دشمنی میں بہت آگے نکل چکے ہیں ۔ جس ملک نے انہیں عزت ووقار عطا کیا انہیں اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا، اب وہ ان تمام احسانات کو فراموش کر کے پاکستان کے خلاف ہونے والی ایک ایسی مہم کا حصہ بن چکے ہیں جس میں انہیں سوائے رسوائی کے اور کچھ نہیں حاصل ہو گا۔انشاء اللہ پاکستان کا ایسی معاندانہ مہموںسے کچھ بھی نہیں بگڑے گا۔ان دونوں میاں بیوی کا کاٹھ قد اتنا بڑا نہیں ہے کہ وہ امریکہ یا کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی پر اثرانداز ہو سکیں‘ ساری دنیا کا ایک مسلم اصول ہے کہ ایجنٹ ایجنٹ ہی ہوتا ہے، وہ اگر اپنے وطن سے غداری کرسکتاہے تو وہ اس ملک کے ساتھ بھی ایسا کرسکتاہے، جس کے سایۂ عاطفت میں وہ مزے کی زندگی بسر کررہا ہے۔اس کا ضمیر ہر لمحہ اُسے کچوکے لگا کراُسے اوقات یاد دلاتا رہتا ہے ۔حیرت کی بات ہے کہ ان دونوں میاں بیوی کو مقبوضہ کشمیر میں موجود سات لاکھ بھارتی فوج کی موجودگی پر کوئی اعتراض نہیں ہے، جو کشمیریوں پر ظلم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے بنیادی ، انسانی حقوق کو سلب کر رہے ہیں ۔دونوں میاں بیوی مقبوضہ کشمیر کی اس افسوسناک صورتحال پر لب کیوں نہیں کھولتے؟شاید اس لیے کہ بھارت اور امریکہ کی طرف سے وظائف ملنا بند ہو جائیں گے۔ مسٹر حسین حقانی اور ان کی بیوی کو پاکستان کی اقلیتوں کے بارے میں زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔انہیں بھارت کی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں کے بنیادی آئینی حقوق چھن جانے پر دل گرفتہ ہونا چاہئے۔ بھارتی حکومت کے اس مسلم کش رویے کی مذمت بھی کرنی چاہئے، تاکہ دنیا کو یہ احساس ہوسکے کہ وہ ایجنٹ نہیں ہیں بلکہ ایک غیر جانبدار قلم کار ہیں، جو جہاں بھی جس جگہ بھی ظلم ہوگا اپنی آواز بلندکرے گا، ذراسوچئے؟