گوادر میں تاریخی سیمینار

جب سے سی پیک (پاک چین اقتصادی راہداری) میں پیش رفت ہو رہی ہے، بھارت اس اہم اقتصادی منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے تمام مذموم ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے، جن میں پاکستان کے اندر ''را‘‘ کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں خاص طور پر شامل ہیں۔ ان سرگرمیوں کا ایک ہی مقصد ہے کہ کسی طرح پاکستان کو اندر سے کمزور اور عدم استحکام سے دوچار کرکے اس کو بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے میں مجبور کیا جائے۔ پاکستان بھارت کی ان ریشہ دوانیوں اور سازشوں سے بخوبی آگاہ ہے۔ ان کا تذکرہ پاکستان آرمی کے چیف آف اسٹاف جنرل راحیل شریف نے گزشتہ دنوں گوادر میں ایک اہم سیمینار سے خطاب کے دوران کیا۔ انہوںنے کہا کہ بھارت سی پیک کو ناکام بنانا چاہتاہے اور بلوچستان میں کچھ انتہا پسند عناصر کی مدد سے اس کو سبوتاژکرنے پر تلا ہوا ہے۔ ''را‘‘ کے دہشت گرد کل بھوشن یادیو نے (جس کو 3مارچ کو گرفتار کیا گیا) بھارت کے اس خطرناک منصوبے کی قلعی کھول دی ہے۔ ساری دنیا کے سامنے اب یہ حقیقت واضح ہوگئی ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ دوستی نہیں بلکہ مذاکرات کے نام پر دھوکہ دیتے ہوئے پاکستان کو معاشی طورپر تباہ کرنا چاہتا ہے۔ افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ ماسوائے جنرل راحیل شریف، ان کے ساتھیوں اور چند لکھاریوں کے کوئی بھارت کی اس خطرناک سازش پر تبصرہ کرنے یا اس کی مذمت کرنے سے گریز کرتا نظر آ رہا ہے۔ خود وزیراعظم میاں نواز شریف اس انتہائی حساس معاملے پر کوئی تبصرہ کرنے سے گریزاں ہیں، بلکہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ وہ بھارت کو خوش کرنے اور مبینہ طور پر وہاں اپنی سرمایہ کاری محفوظ بنانے کے لئے خاموشی کا راستہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اس پر اسرار خاموشی پر عوام اور خواص ان پر انگلیاں اٹھا
رہے ہیں۔ لیکن ملک کی مقتدر قوتوں نے بھارت کی سی پیک کے خلاف سازشوں کا منہ توڑ جواب دینے کا فیصلہ کرلیا ہے، جس کا برملا اظہار جنرل راحیل شریف نے سیمینار سے اپنے خطاب میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک منصوبہ پاکستان کی اقتصادی لائف لائن ہے جس کو محفوظ بنانے کے لئے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائے جائیںگے۔ اس مقصد کے لئے سکیورٹی ڈویژن کے تحت 15000نوجوانوں پر مشتمل ایک دستہ تشکیل دیاگیا ہے جو اس کی حفاظت کرے گا اور اس منصوبے کو ناکام بنانے والوں پر کڑی نگاہ رکھی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی جناب راحیل شریف نے بڑی وضاحت سے کہا کہ اس منصوبے سے براہ راست بلوچستان کو بہت فائدہ پہنچے گا۔ اب بلوچستان کی ترقی پاکستان کی مجموعی ترقی سے وابستہ ہو چکی ہے، بلوچستان کے عوام کے معاشی مسائل کا حل اور اس کے ترقی براہ راست اس عظیم منصوبے سے وابستہ ہو چکی ہے، بہت جلد اس کے ثمرات بلوچستان کے عوام نہ صرف محسوس کریںگے بلکہ دیکھ بھی سکیں گے، اس لئے پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کی ذمہ داری ہے کہ سی پیک کو کامیاب بنانے میں اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سی پیک منصوبے کی کامیابی سے پورے خطے کے ممالک پر انتہائی خوشگوار معاشی اور معاشرتی اثرات مرتب ہوںگے، جن میں افغانستان، ایران اور خود بھارت کے علاوہ وسطی ایشیا ئی ریاستیں شامل ہیں۔ لیکن بھارت ہمیشہ سے پاکستان کے علاوہ چین سے بھی دشمنی رکھتا ہے؛ حالانکہ ان دونوں ممالک کے مابین تمام تر کشیدگی کے باوجود تجارت ہو رہی ہے۔ چین کی بھارت کے ساتھ تجارت کا حجم 80 بلین ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ کھل کر سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔ مبینہ طور پر اس نے 64 کروڑ ڈالر کی رقم مختص کی ہے جو وہ پاکستان کے اندر اپنے ایجنٹوں کو فراہم کرے گا اور ان کے ذریعے بلوچستان سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردانہ کارروائیاں کی جائیںگی۔ بھارت کے اس مذموم منصوبے میں افغانستان کا کردارانتہائی منفی ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ کے ایجنٹ قندھار، جلال آباد اور مزار شریف میں بیٹھ کر بلوچستان کے علاوہ پاکستان کے دوسرے سرحدی علاقوں میں دہشت گردانہ کارروائیاں کر رہے ہیں لیکن افغانستان کی حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی ۔ پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے قریب بھارتی قونصل خانوں کے سیل پاکستان دشمن عناصر کی مالی اور اسلحے سے مدد کر رہے ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کو مسلسل عدم استحکام سے دوچار رکھا جائے۔ 
بھارت بھول گیا ہے کہ اس کا یہ خطرناک منصوبہ کچھ عرصے کے بعد خود اس کے لئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوگا کیونکہ پاکستان کے اندر بھارت کی مداخلت کی وجہ سے پورا جنوب ایشیا دہشت گردی کی لپیٹ میں آ سکتا ہے، نیز پورے خطے میں ایک دوسرے کے خلاف عدم اعتماد کی فضا مزید بڑھ جائے گی۔ بھارت کے عزائم یہ ہیں کہ وہ پاکستان کو اقتصادی طورپر مستحکم ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا۔ گزشتہ پندرہ برسوں کے
دوران جس ملک نے پاکستان اور اس کے عوام کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا وہ بھارت ہی ہے۔ اس کو مغرب کی بعض بڑی طاقتوں سے سیاسی مدد اور رہنمائی مل رہی ہے، لیکن جیسا کہ جنرل راحیل شریف نے واشگاف الفاظ میں کہاکہ ہر قیمت پر یہ منصوبہ مکمل کیا جائے گا(انشاء اللہ!)۔ یہی عزم چین کی قیادت کا بھی ہے؛چنانچہ چینی صدر نے ہر فورم پر اس منصوبے کے بارے میں بڑی وضاحت سے کہا ہے کہ یہ منصوبہ نہ صرف مکمل ہوگا بلکہ کامیاب بھی ہوگا۔ سی پیک ان دونوں ملکوں کی دوستی اور تعاون کا ایسا شاہکار ہے جس کو آئندہ نسلیں یاد رکھیں گی۔ گوادر کی بندرگاہ 2017ء میں عام تجارت کے لئے کھول دی جائے گی، یہ ایک فری ٹریڈ پورٹ ثابت ہوگی جس کے براہ راست اثرات بلوچستان کی معیشت اور معاشرے پر مرتب ہوںگے۔ ایرانی صدر نے پاکستان کے دورے کے دوران پہلے ہی یہ کہہ دیا ہے کہ گوادر پورٹ اور چاہ بہار پورٹ ایک دوسرے کے لئے Complimentry ثابت ہوںگے۔ گوادر ایک قدرتی بندرگاہ ہے جبکہ چاہ بہار چھوٹی اورکم گہری ہے جس کا گوادر سے کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ ہمیں ایرانی صدر کی بات پر یقین کرنا چاہیے اور اچھے گمان کے ساتھ اپنے مسلم برادر ملک کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم رکھنے چاہئیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں