استنبول میں تیرہویں اسلامی سربراہی کانفرنس اختتام پذیر ہو چکی ہے۔ اس کانفرنس میں فلسطین اور کشمیر سے متعلق قراردادیں متفقہ طور پر منظور کی گئی ہیں‘ جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینی عوام کے خلاف جو مظالم ہو رہے ہیں‘ اس کا عالمی برادری نہ صرف نوٹس لے‘ بلکہ اسرائیل کو عرب علاقوں خصوصیت کے ساتھ مغربی کنارے کے علاقے میں مزید تعمیرات کرنے سے روکا جائے، اس کے ساتھ غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی بھی ختم کی جائے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ دو ریاستوں کا قیام‘ یعنی ایک آزاد فلسطینی ریاست اور اسرائیلی ریاست‘ مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن کا باعث بن سکتا ہے۔ اسی طرح کئی سالوں کے بعد اسلامی تنظیم نے مقبوضہ کشمیر کا بڑی وضاحت سے ذکر کیا اور بھارت سے برملا کہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں اس مسئلہ کا حل تلاش کر کے کشمیریوں کو ان کا بنیادی حق دے۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ نہتے کشمیریوں پر بھارت کی جانب سے روا رکھے گئے ظلم کو بھی روکا جائے، کشمیر کے مسئلہ کے حل کے بغیر پاکستا ن اور بھارت میں نہ تو دائمی امن قائم ہو سکتا ہے اور نہ ہی دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آ سکتی ہے۔ اسلامی تنظیم کے فائنل ڈرافٹ میں مقبوضہ کشمیر سے متعلق جو حقائق لکھے گئے ہیں‘ وہ اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں، حالانکہ بھارت نے اس ڈرافٹ میں مقبوضہ کشمیر کے مسئلہ کو پس پشت ڈلوانے میں پس پردہ بہت کوششیں کی تھیں‘ لیکن وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ ماضی میں دو تین مرتبہ اسلامی سربراہ کانفرنس میں بھارت مقبوضہ کشمیر کے مسئلہ کا ذکر نہ لانے میں کامیاب رہا تھا، لیکن اس دفعہ ایسا نہیں ہو سکا تھا، پاکستان اور ترکی نے باہم مل کر بھارت کی اس ضمن میں کی جانے والی کوشش کو ناکام بنا دیا ہے۔ یہاں تک کہ مصر نے بھی اس کا ساتھ نہیں دیا‘ سعودی عرب تو اس سلسلے میں پاکستان کے ساتھ کھڑا تھا، حالانکہ بھارت کو یہ توقع تھی کہ سعودی عرب بھارتی وزیر اعظم کے سعودی عرب کے حالیہ دورے کے دوران اس ملک کی قیادت کے ساتھ ''جو خوشگوار تعلقات‘‘ پیدا ہوئے ہیں، اس کے پیش نظر سعودی عرب مقبوضہ کشمیر کے مسئلہ پر غیر جانبدار رہے گا، لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘ ایسا نہیں ہو سکا، مزید برآں جب اسلامی تنظیم کا سربراہی اجلاس ہو رہا تھا تو اس وقت مقبوضہ کشمیر کے شمال میں یعنی ہندواڑہ اور کپواڑا میں ایک مسلمان کشمیری لڑکی پر جنسی تشدد کے خلاف زبردست احتجاج ہو رہا تھا۔ اس احتجاج کو بھارتی فوج نے تشدد کے ذریعہ روکنے کی کوشش کی‘ جس کے نتیجے میں پانچ افراد شہید ہو چکے ہیں، اور کئی افراد گولیاں لگنے سے زخمی بھی ہوئے ہیں۔ اسلامی سربراہی کانفرنس کو اس حقیقت کا علم ہو چکا تھا، یہی وجہ ہے کہ اسلامی تنظیم کے فائنل ڈرافٹ میں باقاعدہ بھارت کا نام لے کر اس سے کہا گیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں اس مسئلہ کو حل کرے تاکہ کشمیری عوام آزادی اور عزت کے ساتھ اپنی زندگی بسر کر سکیں۔ یہ بات یہاں لکھنا بہت ضروری ہے کہ کچھ عرصہ سے بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں بغیر کسی وجہ سے نہتے کشمیریوں پر ظلم ڈھا رہی ہے۔ لڑکی کے ساتھ جنسی تشدد کا جو واقعہ پیش آیا‘ اس میں ایک بھارتی فوجی بھی ملوث تھا۔ اس قسم کے واقعات پر مقبوضہ کشمیر میں زبردست احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں، جن کو بھارتی فوج بڑی بے دردی اور بے رحمی سے گولیوں کی بوچھار سے خاموش کرنے کی کوشش کر رہی ہے‘ جس میں اسے فی الوقت کچھ کامیابی مل جاتی ہے لیکن اس کے اثرات بہت عرصے تک جاری رہتے ہیں۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں مظاہرے ہو رہے ہیں، تو دوسری طرف محبوبہ مفتی کی مخلوط حکومت تماشہ بنی ہوئی ہے اور اس انسانی المیے کے سامنے خاموش ہے۔ ان کی مخلوط حکومت میں بی جے پی شامل ہے جس کا وزیر اعظم مسلمان دشمنی میں پوری دنیا میں بدنام ہے۔ اگر محبوبہ مفتی اسی طرح ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کی تصویر بنی رہیں تو پھر ان کے لئے آئندہ حکومت کرنا مشکل ہو جائے گا، بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ کشمیری لڑکی پر ہونے والے جنسی تشدد کے بعد تقریباً ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا کی تمام انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس مسئلہ کو بھرپور طریقے سے اجاگر کرنا چاہئے اور بھارت کی مذمت کرتے ہوئے بھارتی فوج کو مقبوضہ کشمیر سے نکل جانے کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں وہی کچھ کر رہی ہے جو نازی فوج نے پولینڈ کو فتح کرنے کے بعد کیا تھا۔
اسلامی تنظیم کے تیرہویں اجلاس کے شروع ہونے سے قبل یہ عہد کیا گیا تھا کہ اسلامی ملکوں کے درمیان تمام اختلافات کو ختم کرا کر مسلم اتحاد کے قیام کو یقینی بنایا جائے گا، خصوصیت کے ساتھ اسلامی تنظیم کے سیکرٹری جنرل جناب مدنی صاحب نے اپنی تقریر میں مسلمان ملکوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت پر بہت زور دیا تھا، لیکن سربراہی اجلاس کے فائنل ڈرافٹ میں ایران اور حزب اللہ سے متعلق جو باتیں درج کی گئی ہیں‘ وہ اسلامی اتحاد کے تصور کی نفی کرتی ہیں۔ میرے خیال کے مطابق ایران سے متعلق یہ باتیں Close Door کی جا سکتی تھیں‘ انہیں اس طرح افشا نہیں کیا جانا چاہیے تھا‘ جس سے مسلم امہ کے اتحاد کی نفی ہوتی ہو‘ لیکن ایک بار پھر عالمی استعمار اسلامی ملکوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے میں کامیاب ہو گیا ہے، حالانکہ ایران کا دیگر عرب ملکوں کے ساتھ ''جھگڑا‘‘ اتنا سنگین نہیں ہے کہ اس کا باقاعدہ سربراہی اجلاس کے اختتام پر فائنل ڈرافٹ میں تذکرہ کیا جاتا، اس طرح ایک بار پھر عرب اور عجم کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو گا‘ جس کا فائدہ سراسر عالمی سامراج اٹھائے گا، جس کی خواہش ہے کہ مسلم ممالک آپس میں کبھی متحد نہ ہو سکیں، ذرا سوچئے؟ اب بھی اگر مسلم ممالک باہمی اتحاد کا مظاہرہ کریں تو نہ صرف اپنے مسائل حل کر سکتے ہیں بلکہ عالمی برادری کو لیڈ بھی کر سکتے ہیں۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ متحد رہا جائے اور آپس کے مسائل مل بیٹھ کر حل کئے جائیں۔