گزشتہ دنوں دہلی کے نواح میں افریقہ سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کو انتہا پسند ہندوئوں نے ایک منظم منصوبے کے تحت گھیر کر ان پر تشدد کیا جس کے نتیجے میں ایک طالب علم جس کا تعلق کانگو سے تھا ہلاک ہوگیا۔ بھارت میں نسل پرستی اور انتہا پسندی بڑھ رہی ہے۔ خاص طور پر افریقی طالب علموں کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس پر بھارت کے روزنامہ ''ہندو‘‘ اور ٹائمز آف انڈیا نے اپنے تبصروں میں سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی کی حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے، بھارت میں ہندو بنیاد پرستوں کی سرگرمیاں غیر معمولی طورپر بڑھ گئی ہیں، جن کا زیادہ تر شکار مسلمان اور عیسائی ہوتے ہیں لیکن اب افریقی طالب علم بھی ان کی انتہا پسندی اور نسل پرستی کا شکار بن رہے ہیں۔ اس پر تشدد واقعے کے خلاف افریقی طالب علموں نے دہلی میں احتجاجی جلوس نکالا، جس میں دہلی کی سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل تھے۔
بھارت کی وزیرخارجہ سشما سوراج نے بھی اس واقعے کی مذمت کی اور افریقی طالب علموں کو یقین دلایا ہے کہ حکومت کی پالیسی ہندو بنیاد پرستی پر مبنی نہیں ہے، بلکہ بھارتی حکومت تمام اقلیتوں کے ساتھ بھارتی آئین کے تحت مساوات پر مبنی سلوک روا رکھتی ہے۔ انہوںنے افریقی طالب علموں کی یقین دلایا کہ جن عناصر نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا ہے ان کے خلاف قانون کی روشنی میں سخت کارروائی کی جائے گی۔ سشما سوراج بھارت نے بھارت کی موجودہ داخلی پالیسی کے بارے میں کہا ہے کہ آئین کی روشنی میں تمام اقلیتوں کے ساتھ مساوی سلوک رکھا جاتا ہے، لیکن حقائق اس کے بر عکس ہیں۔ جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے، وزیر اعظم نریندرمودی ایسی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں جو سیکولرازم کی نفی کر تی ہیں۔ وہ بھارت کو ایک ہندو ملک بنانے پر تلے ہوئے ہیں، جہاں اقلیتوں کو معاشی تحفظ حاصل ہے اور نہ سماجی۔ یہ پالیساں دراصل آر ایس ایس کی ہیں جن پر نریندرمودی کو عمل پیرا ہونا لازمی ہے ورنہ ان کی وزارت عظمیٰ ختم ہوجائے گی۔ بھارت کے تمام ٹی وی چینلز نے افریقی طالب علموں پر ہونے والے تشدد کے بارے میں ٹاک شوز میں بر ملا کہا کہ بی جے پی کی حکومت نے بھارت کو ایک ایسا ملک بنا دیا ہے جہاں اقلیتیں نہ صرف غیر محفوظ ہوگئی ہیں بلکہ غیر ممالک سے آنے والے طالب علم اور سیاح بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ نریندرمودی حکومت نے نجی بھارتی ٹی وی چینلز پر ہونے والے ان تبصروں کا سخت برا منایا اور سرکاری ٹی وی ''دور درشن‘‘ پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی صحافی ملک دشمن کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ یہ لوگ افریقی طالب علموں کے ایک چھوٹے سے واقعے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے بھارت کی سالمیت کو دائو پر لگا رہے ہیں۔ بی جے پی حکومت اپنی صفائی میں جو کچھ کہہ رہی ہے اس پر بھارت کے ایک عام آدمی کو قطعی طور پر یقین نہیں ہے۔ بھارت کی انتہائی فعال سول سوسائٹی کو یقین ہے کہ نریندر مودی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بھارت کے سیکولرازم کو ہندو بنیاد پرستی میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے متعدد اخباری بیانات میں کہا ہے کہ اس وقت بھارت میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے ساتھ ساتھ عورتوں اور بچوں پر جنسی تشدد بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ دہلی میں ہر دس منٹ کے بعد ایک عورت یا کم عمر بچہ جنسی تشدد کا شکار ہوتا ہے۔ چنانچہ بھارت کے اخبارات نے مرکزی دارالحکومت دہلی کو Rapist Capital of Indiaکا نام دے رکھا ہے۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بھارتی پولیس میں شامل بعض جرائم پیشہ عناصر بھی ان گھنائونی سرگرمیوں میں شامل ہیں۔ حالت یہ ہو چکی ہے کہ دہلی میں رات نو بجے کے بعد اکیلی عورت گھر سے باہر نکلنے سے گھبراتی ہے، اگر مجبوراً نکلنا پڑے تو غنڈے اس کا پیچھا کرتے اور اسے جنسی ہوس کا نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دہلی میں یہ صورت حال شہریوں کے لئے ذہنی کرب اور شدید تشویش کا باعث بن رہی ہے۔ عورتوں اور کم عمر بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات صرف دہلی اور اس کے نواح تک محدود نہیں، بلکہ بھارت کے دوسرے بڑے بڑے شہروں میں بھی یہ وبا تیزی سے پھلتی جا رہی ہے۔ حال ہی میں چنائے میں کچھ تعلیم یافتہ عورتوں کے ساتھ اسی قسم کا واقعہ پیش آیا جس کے خلاف وہاں کی خواتین نے زبردست احتجاج کیا۔ ان کی شکایت کا ازالہ کرنے کے بجائے پولیس نے حکومت کے ایما پر ان خواتین پر لاٹھیاں برسائیں اور کچھ کو گرفتار بھی کر لیا (اس گھنائونے واقعے کی تصویریں بھارت کے تمام بڑے بڑے اخبارات نے نمایاں طورپر شائع کیں۔) اس کے باوجود حکومت نے ان واقعات کا سدباب کرنے کے لئے کوئی کارروائی نہیں کی۔
جیسا کہ میں نے بالائی سطور میں لکھا ہے، یہ واقعات مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔ بسا اوقات شریف شہری بدنامی کے باعث جنسی تشدد کے واقعات کی پولیس رپورٹ درج نہیں کراتے۔ اس طرح جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوتی جس کے سبب یہ عناصر دیدہ دلیر ہو کر دندناتے پھرتے ہیں۔ان حالات کے پیش نظر بھارت کی سماجی تنظیموں اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ ملک میں انتہا پسندی اور جنسی تشدد کے واقعات کی اصل وجہ حکومت کی پالیسیاں ہیں، جس میں غربت کو ختم کرنے کے بارے میں کوئی پروگرام ہے نہ تعلیم کو عام کرنے کا کوئی ٹھوس منصوبہ، اس لئے جہالت اور انتہا پسندی بڑھ رہی ہے جس کا شکار ایک عام بھارتی بن رہا ہے۔ دوسری جانب پولیس بااثر امیر لوگوں کا ساتھ دیتی ہے جبکہ غریب کی فریاد سننے والا کوئی نہیں ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بسا اوقات پولیس کے دیانت دار افسروں کو ان عناصر کی سرکوبی کرنے سے روکا جاتا ہے، جس کے سبب قانون کی گرفت ڈھیلی پڑجاتی ہے۔ موجودہ معاشی وسماجی حالات کے پس منظر میں بھارت ایک ایسا ملک بنتا جارہا ہے جو جلد کسی بھی وقت خانہ جنگی کا شکار ہوسکتاہے۔