اس وقت جب یہ سطریں لکھی جا رہی ہیں، مقبوضہ کشمیر میں سیاسی، معاشی اور ثقافتی حقوق کے لئے جدوجہد میں اب تک شہید ہونے والے کشمیریوں کی تعداد 64 ہوگئی ہے۔ ہر چند کہ اس وقت سرینگر، ضلع کپواڑہ اور گندر بال وادی کے کئی علاقوں میں کرفیو نافذ ہے، اس کے باوجود حریت کے متوالے کسی پابندی کی پروا نہ کرتے ہوئے بھارتی فوج کے ظلم وتشدد کے خلاف زبردست احتجاج اور مظاہرے کر رہے ہیں۔ بھارتی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کو غیر معمولی اختیارات دے رکھے ہیں اور اسے باضابطہ طور پرکہا گیا ہے کہ مظاہرین کو طاقت کے ذریعے خاموش کرنے میں کوتاہی نہ برتی جائے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے کشمیری عوام پر روا رکھے جانے والے بہیمانہ ظلم پر خاموش ہیں۔ ان تنظیموں کو متحرک ہونا چاہیے ورنہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کا ان سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ جماعت اسلامی نے اس ضمن میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا تھا، جس میں جماعت کے امیر جناب سراج الحق نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض فوج کے ظلم کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کو اس سلسلے میں واضح پالیسی اختیار کرنی چاہئے اور عالمی سطح پر سفارت کاری کے ذریعے دنیا کو کشمیریوں کی مشکلات ومصائب سے آگاہ کرنا چاہیے۔ بعد میں انہوںنے کشمیر سے متعلق ایک بڑے جلسے سے بھی خطاب کیا اور کہا کہ وہ لائن آف کنٹرول تک مارچ کرکے بھارتی ظلم و بربریت کوبے نقاب کریں گے۔ گزشتہ روز انہوں نے لاہور کے ناصر باغ سے واہگہ بارڈر تک ایک ریلی نکال کر اپنا یہ وعدہ پورا کردیا۔ اس ریلی میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کو اپنی حمایت کا یقین دلایا۔سراج الحق نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو یقین دلایا کہ پاکستان کے عوام ذہنی، فکری، سیاسی اور اخلاقی طورپر ان کے ساتھ ہیں۔
ادھر آزاد کشمیر کے نئے منتخب وزیراعظم راجہ فاروق حیدرنے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ آزاد کشمیر کے عوام مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب مقبوضہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہوگا۔ تاہم مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج کے ظلم کو بے نقاب کرنے اور عالمی سطح پر کشمیریوں کے لئے حمایت حاصل کرنے کے لئے کشمیر کمیٹی کو فعال ہونے کی ضرورت ہے جو اس وقت نہ صرف غیر فعا ل ہے بلکہ لاتعلق لگتی ہے۔ گزشتہ آٹھ سال سے مولانا فضل الرحمن اس کمیٹی کے سربراہ ہیں، لیکن کار کردگی نہ ہونے کے برابر ہے، اس لئے بہتر ہے کہ کسی سمجھ دار شخص کو اس کمیٹی کا سربراہ بنا دیا جائے تاکہ کشمیر کازکو موثر اور بھر پور طریقے سے عالمی سطح پر اٹھایا جا سکے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ظلم پر امریکہ نے بھی آخر کار لب کشائی کی ہے اور بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ نہتے کشمیریوں پر طاقت کا استعمال نہ کرے بلکہ اس کا سیاسی حل تلاش کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ امریکی حکومت کے ترجمان نے بھارت میں اقلیتوں کے حقوق کو پامال کرنے پر بھی تشویش کا اظہارکیا اورکہا کہ خاص طور پر گائے کے گوشت کے بارے میں بھارت کے انتہا پسند لوگوں کا متشددانہ رویہ جمہوری روایات کے خلاف ہے۔ واضح رہے کہ ابھی حال ہی میں کچھ انتہا پسند ہندوئوں نے ایک مسلمان خاندان پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے گائے کا گوشت کھایا ہے، لیکن جب اس معاملے کی تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ وہ بھینس کا گوشت تھا۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی پالیسی یہ ہے کہ طاقت کا بہیمانہ استعمال کرکے اس تحریک کو ختم کردیا جائے اور کشمیر کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت جو خصوصی اختیارات حاصل ہیں ان کو بھی ختم کردیا جائے، لیکن تا حال بھارتی حکومت کو اس سلسلے میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ظلم و تشدد کے خلاف جو تحریک چل رہی ہے، وہ نوجوانوں نے شروع کی ہے جس کا ہیرو برہان وانی تھا۔ یہ کشمیریوں کی پانچویں نسل ہے جو مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ناجائز تسلط کے خلاف جدوجہد کر رہی ہے اور جان ومال کی قربانیاں دے رہی ہے۔ بھارت کی یہ خوش فہمی ہے کہ نوجوانوں کی یہ تحریک ختم ہوجائے گی۔ کم از کم مجھے تو ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے، یہ تحریک کسی نہ کسی صورت میں جاری رہے گی۔ اس صورت حال کے پیش نظر پاکستان کی مختلف سیاسی پارٹیوں کو بھی فعال ہونے کی ضرورت ہے تاکہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو یہ باور کرایا جا سکے کہ پاکستان کی سیاسی پارٹیاں ان کے ساتھ کھڑی ہیں۔ بھارت کے بعض صحافیوں کا برملا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں یہ تحریک نوجوانوں نے شروع کی ہے، بھارتی فوج کے ظلم و تشدد کے خلاف اس میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں، لیکن اگر بھارت کی قابض فوج نے مقبوضہ کشمیر کے عوام پر زیادتی اور بربریت کا سلسلہ ختم نہ کیا تو پھر پاکستان کی جانب سے کشمیری بھائیوں کی مدد کرنے سے مجاہدین کوکوئی روک نہیں سکے گا۔ دوسری طرف میاں نواز شریف صاحب کی حکومت کشمیر سے متعلق پالیسی پر کنفیوژن کا شکار نظر آتی ہے، وہ محض اخباری بیانات دے کر اپنا فرض پورا کر رہی ہے۔ حکومت کا مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کا یہ انداز بھارت کو مزید ظلم کرنے کی بالواسطہ حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ دراصل بھارت اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ پاکستان اپنے داخلی معاملات کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں طاقت کا استعمال نہیں کرسکتا، لیکن اس کی یہ غلط فہمی بہت جلد دور ہوجائے گی۔
اس وقت اسلام آباد میں سفیروں کی کانفرنس ہو رہی ہے جس کی صدارت وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کر رہے ہیں۔ اس کانفرنس میں کشمیر پر بھارت کے ناجائز تسلط کے علاوہ کشمیریوں پر ظلم و زیادیتاں بھی زیر بحث آئیں گی۔ ہو سکتا ہے کہ اس تین روزہ کانفرنس کے بعد، پاکستان کے سفیر ، خصوصیت کے ساتھ جو امریکہ، چین، روس اور یورپ میں تعینات ہیں، انہیں زیادہ فعال ہوکر بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں سامراجی پالیسی اور ظلم کو بے نقاب کرنے کے ساتھ ساتھ ان حکومتوں کا تعاون حاصل کرنا ضروری ہوگا تاکہ اس مسئلے کا سیاسی حل تلاش کیا جا سکے۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر کے تمام اضلاع میں بھارت کی حمایت کرنے والا کوئی شخص موجود نہیں ہے، یہ ایک قسم کا ریفرنڈم ہے جو مقبوضہ کشمیر کے عوام نے بھارت کے ناجائز قبضے کے خلاف دیا ہے۔ خود مقبوضہ کشمیر کی مخلوط حکومت کی کٹھ پتلی سربراہ محبوبہ مفتی نے اخبار نویسوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا ہے کہ برہان وانی کا قتل ناجائز تھا، اس کو قتل کرکے بھارتی فوج نے حالات کو اس حد تک بگاڑ دیا ہے کہ انہیں ٹھیک کرنے کے لئے ایسی سیاسی بصیرت کی ضرورت ہے جو فی الحال نظر نہیں آ رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر اندورنی طور پر تقسیم ہوگیا ہے، یعنی لداخ اور جموں دہلی سے معاملات طے کر رہے ہیں جبکہ وادی کے عوام بھارت کی سات لاکھ فوج کا مقابلہ کر رہے ہیں۔