سی پیک اور غیر جانبدار کمیٹی کا قیام؟

46 بلین ڈالرکا چین کا منصوبہ نہ صرف پاکستان کے لئے معاشی خوشحالی کا سبب بنے گا بلکہ خود چین کے علاوہ اس خطے کے دیگر ملکوں کے لئے بھی۔ چین کی حکومت ہر قیمت پر اس منصوبے کو مکمل کرنا چاہتی ہے، جس میں اولین ترجیح گوادر پورٹ کو دی جائے گی، جو اس منصوبے کا اہم حصہ ہے۔ پاکستان کے عوام کو بھی اس منصوبے کی تکمیل سے پہلے اور بعد میں ملازمتوں کے بے پناہ مواقع میسر آئیںگے، لیکن اس منصوبے کے سلسلے میں سندھ اور خیبر پختون خوا کی حکومتوں کی جانب سے بعض تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے، اور وفاق سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ان کے تحفظات دور کریں۔ خود چینی حکام بھی پاکستان کے بعض سیاست دانوں کی جانب سے اس عظیم منصوبے پر تنقید سے ناخوش نظر آرہے ہیں۔ انہوں نے کئی بار اپنے بیانات میں پاکستانی سیاست دانوں سے اپیل کی کہ وہ اس منصوبے سے متعلق آپس کے اختلافات کو میڈیا میں نہ لائیں، کیونکہ اس طرز عمل سے عوام میں مایوسی پھیلتی ہے۔. چین کی حکومت اس منصوبے سے متعلق تمام سٹیک ہولڈرز کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کا خواہش مند ہے۔ دراصل سی پیک کے سلسلے میں بعض سیاسی افراد کے ذہنوں میں جو ابہام پایا جاتا ہے اس کی وجہ ایک وفاقی وزیر کا رویہ ہے، جو سندھ اور خیبر پختون خوا حکومتوں کے تحفظات دور کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں اور پاکستان کے عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سی پیک مسلم لیگ (ن) کی کاوشوں کا نتیجہ ہے، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ ایک قومی منصوبہ ہے جس کا سارا سرمایہ چین کی جانب سے آ رہا ہے۔ چین کے صدر جب گزشتہ سال پاکستان آئے تھے تو انہوں نے بڑی وضاحت سے یہ بات کہی تھی کہ سی پیک چین کی جانب سے پاکستانی عوام کے لیے تحفہ ہے، جس سے چین کو بھی بہت فوائد حاصل ہوں گے، بلکہ دونوں ملکوں کے عوام اس عظیم معاشی منصوبے سے مستفید ہو سکیں گے۔ حکومت کو اس منصوبے کے بارے میں پانے جانے والے ابہام کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اب تک اس منصوبے سے متعلق جو ترقی ہوئی ہے یا کام ہوا ہے، اس کو پارلیمنٹ میں پیش کرنا چاہئے، تاکہ عوام مطمئن ہو سکیں اور ان کے ذہنوں میںجو سوالات ہیں ان کا معقول جواب بھی مل سکے۔ 
اس صورتحال کے پیش نظر عوام کی جانب سے یہ مطالبہ ہے کیا جا رہا ہے کہ اس عظیم منصوبے کے لئے ایک غیر جانبدار کمیٹی تشکیل دینے کی اشد ضرورت ہے‘ جو اس منصوبے کی ہر پہلو سے مانٹرنگ کرے اور وقفہ وقفہ سے صوبائی حکومتوں کی جانب سے اٹھنے والے تحفظات دور کرنے کی کوشش کرے۔ خود چینی حکام بھی یہی چاہتے ہیں کہ اس منصوبے سے متعلق پاکستانی عوام کو باخبر رکھا جائے، تاکہ اس کی شفافیت پر کوئی اعتراض نہ کر سکے، اور نہ ہی اس کو متنازع بنانے کی کوشش کی جائے۔ دوسری جانب یہ بھی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بعض پڑوسی ممالک خصوصیت کے ساتھ
بھارت اس منصوبے کو ناکام بنانا چاہتا ہے، اور اس نے اس ضمن میں 64 کروڑ ڈالر کی رقم بھی مختص کر دی ہے‘ جو اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لئے بھارتی ایجنٹوں کو دی جائے گی۔ اس حقیقت سے چینی حکام بھی واقف ہیں، اس لئے اگر سی پیک کے سلسلے میں ایک غیر جانبدار کمیٹی معرض وجود میں آ جاتی ہے تو یہ منصوبہ بڑی تیزی کے ساتھ مکمل کیا جا سکے گا۔ اپنوں کی جانب سے تنقید سے اس منصوبے کی ترقی پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ مجوزہ کمیٹی میں تمام بڑی سیاسی پارٹیوں کے رہنمائو ں یا پھر ان کی جانب سے مقررکردہ افراد کو شامل کیا جانا چاہئے، خصوصیت کے ساتھ عسکری نمائندوں کو‘ جنہوں نے چینی حکام سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ہر قیمت پر اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ چینی قیادت اس سلسلے میں عسکری قیادت پر زیادہ بھروسہ کرتی ہے، کیونکہ اس میں وہ صلاحیت محسوس کرتے ہیں۔ مجوزہ کمیٹی میں ماہر انجینئرز کو بھی شامل کرنا چاہئے جو وقتاً فوقتاً اپنے مفید خیالات سے اس منصوبے کو
کامیاب بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ سول سوسائٹی کے نمائندوں کی موجودگی میں شفافیت نمایاں ہو کر سامنے آئے گی۔ اس لئے سی پیک کی کامیابی کا راز صرف اس حقیقت میں مضمر ہے کہ اب ایک غیر جانبدار کمیٹی کا قیام ناگزیر ہو چکا ہے۔ سی پیک منصوبہ اس خطے کا Game Changer ہے اس لئے اس منصوبے کی تکمیل کے لئے ایسی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے جس میں تنقید کی گنجائش نہ ہو۔ ایسا اسی وقت ہو سکتا ہے جب فوری طور پر ایک غیر جانبدار کمیٹی کا قیام عمل میں آئے جو اس عظیم اقتصادی منصوبے کی ہر سطح پر نگرانی کرے اور عوام کو اس سے متعلق معلومات بھی فراہم کرے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں پہل کرے، اور چین اور پاکستان کے عوام کے وسیع تر مفاد میں اس منصوبے سے متعلق ایک نگرانی کمیٹی بنا کر پاکستانی عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کرے۔ حکومت کو یہ بات فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ سی پیک کا سارا سرمایہ چین کی دین ہے، جس کی شفافیت کو نہ صرف یقینی بنانے کی ضرورت ہے بلکہ تمام سٹیک ہولڈرز کو مطمئن کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے جو مجوزہ کمیٹی کے قیام کے ذریعہ ہی پوری ہو سکے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں