منگل کے روز وائٹ ہائوس کی ترجمان کی بریفنگ کے دوران بھارتی صحافی نے سوال کیا کہ آپ کا آزاد کشمیر اور بلوچستان میں ہونے والی زیادتیوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ترجمان زیرلب مسکرائیں ( کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ یہ ایک Planted question ہے) اور دلیل کے ساتھ اپنے ملک کے سرکاری موقف کو پیش نظر رکھتے ہوئے جواب دیا کہ کشمیر کے بارے میں امریکہ کی پالیسی بڑی واضح ہے کہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے مابین ایک متنازع مسئلہ ہے جس کو یہ دونوں ممالک بات چیت کے ذریعے حل کرسکتے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ (مقبوضہ) کشمیر میں عوام پر تشدد ہو رہا ہے جس کو بند ہونا چاہیے۔ جب بھارتی صحافی نے دوبارہ اپنے سوال پر زور دیا تو وائٹ ہائوس کی ترجمان نے کہا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ اس متنازع مسئلے کو دونوں ملک باہمی مذاکرات سے حل کرنے کی کوشش کریں، ورنہ یہاں جنگ کے امکانات موجود ہیں، آپ خود جانتے ہیں کہ تشدد کہاں ہو رہا ہے اور کون لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ جواب سن کر بھارتی صحافی جھینپ گیا اور فوراً وہاں سے چلا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کو اب احساس ہو رہا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی نے مقبوضہ کشمیر کے بارے میں امریکہ کو جو ''حقائق‘‘ بیان کیے تھے وہ سراسر لغو اور جھوٹ پر مبنی تھے۔ بھارت کی قابض فوج براہ راست دہلی سے احکامات لے کر مقبوضہ کشمیر کے عوام پر بہیمانہ ظلم و تشدد کر رہی ہے، جس کو فی الفور بند ہونا چاہیے اور بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ ہر چند کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض فوج کے ظلم و تشدد روا رکھنے کے باوجود مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کشمیر سے متعلق مسئلے کے حل کے سلسلے میں دوبارہ مذاکرات کی پیش کش کی ہے، جس کو بھارت نے فرعونی انداز اختیار کرتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔ بھارت کے اس فرعونیت پر مبنی انداز کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ناپسند کرتے ہوئے بھارتی حکومت سے کہا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں ظلم و بربریت کو بند کرکے بات چیت کی راہ اپنائے۔
بقول سابق صدر پرویز مشرف نریندرمودی پاگل ہوگیا ہے، وہ مقبوضہ کشمیر میں حقائق سے آنکھیں چراتے ہوئے بھارت کے خلاف اٹھنے والی حالیہ لہر کو پاکستان کی حمایت سے تعبیر کرتے ہوئے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آزادی اور اپنے بنیادی حقوق کی تازہ خون آشام جد و جہد مقبوضہ کشمیر کے عوام کی خالصتاً داخلی اور اپنی تحریک ہے جو گزشتہ ایک ماہ سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود پوری طاقت کے ساتھ جاری وساری ہے۔ اب تک اس مثالی تحریک میں 70سے زیادہ نوجوان، بچے اور بزرگ جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ اس کے باوجود اب بھی حریت پسندوں کا قافلہ مقتل کی جانب رواں دواں ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اس مسئلے پر بھارتی دارالحکومت دہلی میں ایک سیمینار منعقد کیا تھا، جس میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ظلم وتشدد کو بے نقاب کیا گیا تھا۔ اس سیمینار کو جو انتہائی پر امن تھا، بی جے پی کے غنڈوں نے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ شنید ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں مخلوط حکومت کی سربراہ محبوبہ مفتی نے نریندرمودی کو ایک ای میل میں لکھا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات کنٹرول سے باہر ہو رہے ہیں، کشمیری عوام کی شہادتوں سے بھارت دنیا میں ظلم و تشدد کی علامت بن چکا ہے،
اس لئے کشمیر ی عوام کے علاوہ پاکستان سے بھی بات چیت کرکے اس کا کوئی حل نکالنا بہت ضروری ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون اور امریکہ نے بھی اس مسئلہ پر بھارت سے یہی مطالبہ ہے۔ لیکن میرا خیال یہ ہے کہ نریندرمودی پاکستان کے خلاف نفرتوں کی تمام سرحدوں کو عبور کرچکا ہے، وہ فی الحال مذاکرات کرنے کے لئے تیار نہیں ہے، اس کے نفرت سے بھرے ہوئے ذہن میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ فی الوقت پاکستان سے کشمیر کے مسئلے پر بات چیت نہیں ہوسکتی ، جبکہ کشمیریوں کی حالیہ تحریک کو بندوقوں اور پیلٹ گنوں کے زور پر دبایا نہیں جاسکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے امریکہ سمیت تمام ممالک کی جانب سے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے کی تجاویز کو مسترد کردیا ہے اور کشمیری مسلمانوںکے خلاف وہی ظالمانہ راستہ اختیار کر رکھا ہے جو اس نے 2002 ء میں بھارتی گجرات میں تین ہزار سے زائد مسلمانوں کو بڑی بے رحمی کے ساتھ قتل کرکے کیا تھا۔ یہ جنونی شخص اسی بہیمانہ روایت کو مقبوضہ کشمیر میں بڑی ڈھٹائی اور بے رحمی سے دہرا رہا ہے۔ چنانچہ ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا نریندر مودی پاکستان کے
خلاف جنگ کرنا چاہتاہے؟ غالباً اس کے جاسوس مشیر اجیت دوول نے اس کو یہی مشورہ دیا ہے۔ لیکن کیا نریندرمودی اس مشورے پر عمل درآمد کرتے ہوئے اس مہم جوئی کا راستہ اختیار کرنے کی ہمت رکھتا ہے؟ دونوں ممالک نیوکلیئر پاور ہیں، پاکستان بھارت کے ساتھ ہرگز جنگ کرنا نہیں چاہتا کیونکہ اگر ایک بار جنگ چھڑ گئی تو دونوں ممالک ایٹم بم کے استعمال سے تباہ ہو جائیں گے۔ پاکستان مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرادادوں کی روشنی میں کشمیری عوام کے حق رائے دہی کو عملی شکل میں دیکھنا چاہتا ہے، جس کا وعدہ لوک سبھا میں 1956ء میں آنجہانی وزیراعظم نہرو نے کیا تھا، لیکن بھارت نے اس پر عمل درآمد نہیں کیا جس کی بنا پر مقبوضہ کشمیر کے عوام آج تک بھارتی ظلم و بربریت کو برداشت کرتے ہوئے بھارت سے اپنا حق رائے دہی طلب کر رہے ہیں اور اس کے حصول کی خاطر اپنے نوجوانوں کی بے مثال قربانیاں پیش کر رہے ہیں۔ دراصل کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے، اس کے ناجائز قبضے کو اقوام متحدہ سمیت کسی نے بھی تسلیم نہیں کیا۔ اب امریکہ ایک بار پھر بھارتی قیادت سے کہہ رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ظلم بند کرے اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرکے حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کرے ورنہ جنوبی ایشیا میں غیر معمولی کشیدگی کی خرابی کی تمام ذمہ داری بھارت کی جنونی قیادت پر عائد ہوگی۔ ذرا سوچیے!