اب اس بات کی تصدیق ہو گئی ہے کہ بلوچستان میں ''را‘‘ اپنے زر خرید ایجنٹوں کے ذریعہ دہشت گردی کرا رہی ہے۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جناب ثنااللہ زہری نے بھی بلوچستان میں ''را‘‘ کی موجودگی اور اس کی اس صوبے میں گھنائونی سرگرمیوں کا پردہ چاک کیا ہے؛ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ''را‘‘ کے بلوچستان میں ایجنٹوں کی تعداد ایک فیصد سے زیادہ نہیں ہے، اب انہیں کہیں بھی پناہ نہیں مل رہی ہے، بھارت کے انتہا پسند ہندو وزیر اعظم نے براہمداغ بگٹی کی تعریف کرکے اُس کے بھارتی ایجنٹ ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ ادھر بلوچستان کے طول و عرض میں بھارتی وزیر اعظم کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں‘ جن میں بلوچستان کے عوام نے بھرپور شرکت کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ اپنی حب الوطنی کا ثبوت دیا۔ مودی کے خلاف نکالی گئی ریلیوں میں اس کا پُتلا جلایا گیا اور بھارتی پرچم کو نذر آتش کیا گیا۔ بلوچستان کے عوام نے مودی کے خلاف جلسے جلسوں منعقد کرکے اور ریلیاں نکال کر اس انتہا پسند مسلمان دشمن کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ پاکستانی پرچم تلے نہ صرف متحد ہیں بلکہ اس صوبے سے ''را‘‘ کے ایجنٹوں کو نکال کر دم لیں گے۔
بھارتی وزیر اعظم مودی کو یہ غلط فہمی تھی کہ بلوچستان میں حالات خراب ہیں اور وہاں کے عوام وفاق کے خلاف ہیں‘ لیکن اس کی یہ غلط فہمی اس کے خلاف نکالی گئی ریلیوں نے دور کر دی ہے، اور اسے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ بلوچستان وفاقِ پاکستان کی ایک مضبوط اکائی ہے اور بلوچ عوام معاشی‘ سیاسی اور معاشرتی زندگی میں آزاد ہیں۔ بلوچستان میں خدانخواستہ ایسی صورتحال نہیں ہے اور نہ رہی ہے جیسا کہ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں ہے، جہاں بھارت کی سات لاکھ سے زائد قابض فوج نہتے کشمیریوں کے خون سے ہولی کھیل رہی ہے۔ جموں و کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک متنازعہ علاقہ ہے جہاں کے عوام عرصہ دراز سے اپنا حق رائے دہی طلب کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس بلوچستان ایک متنازعہ علاقہ نہیں ہے اور نہ ہی کبھی رہا ہے۔ اس کو متنازعہ بنانے کے لئے بھارت نے ماضی میں بہت کوشش کیں‘ اور اب بھی کر رہا ہے۔ اربوں روپیہ چند بلوچ ایجنٹوں میں تقسیم کیا گیا ہے، تاکہ وہ یہاں دہشت گردی کرا کے پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کریں، لیکن اس کو اپنی ہر سازش میں منہ کی کھانا پڑی ہے۔
جب اس انتہا پسند‘ مسلمان دشمن بھارتی وزیر اعظم کو بلوچستان میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تو اس نے آزاد کشمیر میں انسانی حقوق کے بارے میں واویلا کرنا شروع کر دیا، تاکہ بین الاقوامی کمیونٹی کی توجہ مقبوضہ کشمیر سے ہٹ جائے‘ جہاں اس کی قابض فوج نہتے کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں موازنے کا نہ تو کوئی جواز ہے اور نہ ہی کوئی منطق۔ آزاد کشمیر میں نہ تو پاکستان کی حکومت کے خلاف کوئی تحریک چل رہی ہے اور نہ ہی کوئی ایسی صورتحال ہے، جسے تشویشناک کہا جا سکے۔ آزاد کشمیر کے عوام اپنی مذہبی، سیاسی اور معاشرتی اقدار کے تحت آزاد زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اگر کسی کو شبہ ہے تو بہ آسانی آزاد کشمیر میں آ کر اپنی آنکھوں سے مذکورہ بالا حقائق کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔ بین الاقوامی کمیونٹی نے مودی کے آزاد کشمیر سے متعلق بے بنیاد، لغو بیان کو مسترد کر دیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ نریندر مودی مقبوضہ کشمیر میں اپنی مسلمان دشمن پالیسیوں کی وجہ سے پھنس گیا ہے۔ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے خلاف اٹھنے والی لہر کو پاکستان کی ''مداخلت‘‘ سے تعبیر کر رہا ہے، اور اس مسئلہ پر بات کرنے کے بجائے طاقت اور تشدد کے ذریعہ اس تحریک کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی قابض فوج کو نہتے کشمیریوں پر مہلک ترین ہتھیار استعمال کرنے کا اختیار دے دیا ہے اور بھارتی فوج یہ خدمت بخوبی سرانجام دے رہی ہے‘ لیکن اس کے باوجود ایک ماہ سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد بھی کشمیریوں کی تحریک آزادی
میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ پاکستان اس مسئلہ پر بھارت سے بات چیت کرنا چاہتا ہے، جبکہ امریکہ کی بھی یہی خواہش ہے کہ اس مسئلہ پر بھارت فی الفور پاکستان سے مذاکرات کا آغاز کرے اور وہاں نہتے کشمیریوں پر ظلم و تشدد بند کرے، لیکن بھارت نے پاکستان کی جانب سے مذاکرات کی پیش کش کا مناسب جواب نہیں دیا، بلکہ کہا ہے کہ وہ اپنی شرائط پر بات چیت کرے گا‘ جو پاکستان کو منظور نہیں ہے۔ اب تو بھارتی دانشور بھی مودی کی مقبوضہ کشمیر سے متعلق پالیسی پر تنقید کر رہے ہیں اور اس کو مشورہ دے رہے ہیں کہ کشمیریوں پر تشدد کا راستہ چھوڑ کر پاکستان سے مذاکرات کئے جائیں۔ ان بھارتی دانشوروں کا خیال ہے کہ طاقت کے بہیمانہ استعمال سے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو اپنا ہم خیال نہیں بنایا جا سکتا، مذاکرات ہی وہ واحد راستہ ہے جو حالات کی اصلاح کا سبب بن سکتا ہے، ورنہ خون خرابے سے قابض بھارتی فوج پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے‘ بلکہ مرتب ہو رہے ہیں۔ اس اندیشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ مودی پاکستان کے خلاف کسی قسم کی مہم جوئی نہ کر بیٹھے۔ ان کے ذہن میں رہے کہ ایسا کوئی اقدام اس کے اپنے ملک کے لئے تباہ کن ثابت ہو گا۔