امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے گزشتہ دنوں بھارت کا دورہ کیا جہاں انہوںنے بھارت کے سرکردہ رہنمائوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے انہیںیقین دلایا کہ بھارت اور امریکہ اس خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ایک ساتھ کھڑے ہیں۔ موصوف نے یہ بھی فرمایا کہ پاکستان ممبئی حملوں اور پٹھان کوٹ حملے کے ملزموں کو عدالت میں لاکر ان سے متعلق جلد فیصلہ کرے۔نریندرمودی سے ملاقات کے دوران جان کیری نے انہیں بتایا کہ امریکہ جلد بھارت میں چھ نیوکلیئر ریکٹر تعمیر کرے گا، جو بھارت میں توانائی کی کمی اور دفاعی ضررویات کو پورا کرنے میں مدد دے سکیں گے، واضح رہے کہ امریکہ نے پہلے ہی بھارت کوسول نیو کلیئر سپلائی کرنے کا معاہدہ کیا ہوا ہے، لیکن اس مرتبہ ان دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ دفاعی معاہدہ طے پاچکا ہے جس کی ایک شق کے مطابق بھارت کے وہ تمام ہوائی اڈے خصوصیت کے سا تھ وہ اڈے جو جنگی جہازوں کے اترنے اور پرواز کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں، امریکہ کو استعمال کرنے کی اجازت ہوگی، اس طرح امریکہ اور بھارت کے درمیان باہمی تعلقات کے پس منظر میں ایک اہم ڈویلپمنٹ ہوئی ہے، جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ نریندرمودی کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا خوشخبری ہوسکتی ہے کہ امریکہ کے جنگی جہاز بھارت میں اتر سکیں گے، جس میں بھارت کی فضائیہ کے لئے جدید حربی سازوسامان بھی شامل ہوگا، جان کیری
نے اپنے قیام کے دوران ایک بار پھر پاکستان سے ڈو مورکا مطالبہ کیا ہے، خصوصیت کے ساتھ حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے جس کو امریکہ اور افغان حکومت مذاکرات کی میزپر لانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوئی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ بھی وہ انہیںمذاکرات کی میز پر لانے میں ناکام ثابت ہوں گے۔ حقانی نیٹ ورک کے علاوہ دیگر افغان جنگجو امریکی قابض فوج کے خلاف 2001ء سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ پاکستان نے بھی اس حوالے سے امریکہ اور افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے کے لئے بہت کوشش کیں تھیں، جوکامیاب ثابت نہیں ہوسکیں۔
پاکستان کے لئے امریکہ اور بھارت کا دفاعی معاہدہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس معاہدے کی رو سے جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بگڑ چکاہے، جبکہ بھارت کو اس معاہدے کے ذریعے تھوڑی بہت بالادستی بھی حاصل ہوئی ہے۔ امریکہ اس دفاعی معاہدے سے پہلے بھی بھارت کو جدید اسلحہ فراہم کررہاہے، جس میں بھارتی فضائیہ کے علاوہ بھارت کی نیوی کے لئے جدید سازوسامان شامل ہے، یقینا پاکستان کی عسکری قیادت اس دفاعی معاہدے کے تمام پہلوئوں پر غور کررہی ہوگی مگر ایک بات طے شدہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں ماضی کی طرح اب وہ گرم جوشی باقی نہیں رہی ہے، بلکہ نا قابل انکار حقیقت تو یہ ہے کہ امریکہ پر آئندہ بھروسہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ بھارت اور بنگلہ دیش کے تعاون سے پاکستان کے لئے اپنے گہرے سیاسی ومعاشی مفادات کی روشنی میں مسائل پیدا کرنا چاہتا ہے، بلکہ چین کی جنوبی ایشیا اور جنوب مشرق ایشیا میں سیاسی ومعاشی پیش رفت اور اثرات کو بھی ختم کرنا چاہتاہے۔ سائوتھ چائنا سمندر میں امریکہ کی مداخلت اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ چین کو بھی جاپان اور فلپائن کی مدد سے ہراساں کرنے پر تلا ہواہے، جہاں اس نے اپنے طیارہ بردار جہاز کھڑے کررکھے ہیں۔
امریکہ کے بھارت نواز رویے سے یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ امریکہ پاک چین اقتصادی راہداری کے بھی خلاف ہے، یہ منصوبہ پاکستان کی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوگا، اس منصوبے سے چین بھی مستفید ہوگا، بھارت نے پہلے ہی اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اس منصوبے کو ناکام بنانے اور بلوچستان میں دہشت گردی کو پھیلانے کے لئے اپنے خزانے کا منہ کھول دیئے ہیں اور حال ہی میں بھارت کی سرزمین سے ایک بلوچی ریڈیو بھی شروع کردیا ہے، جس کے ذریعے بلوچستان میں دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی اور نوجوان بلوچوں کی پاکستان کے خلاف برین واشنگ کرنے کی بھی کوشش کی جائے گی۔امریکہ کے ایما پر بھارت کا پاکستان کے خلاف یہ رویہ پاکستان کے اندورنی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔ اقوام متحدہ کو اس سلسلے میں پیش قدمی کرکے بھارت کو اس قسم کی حرکت کرنے سے روکنا چاہئے، ورنہ اس خطے میں کبھی بھی امن قائم نہیں ہوسکے گا۔ بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی طاقت ہیں، جبکہ دوسری طرف امریکہ اکثر یہ بھی کہتا رہتا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو آپس میں بات چیت کے ذریعے اس خطے میں امن قائم کرنا چاہئے، لیکن سوال یہ ہے کہ امن کیسے قائم ہوسکے گا؟ امریکہ کھل کر بھارت کے ساتھ کھڑا ہوگیاہے، جس کی وجہ سے انتہا پسند مسلمان دشمن نریندرمودی پاکستان کے لئے دہشت گردی پھیلاکر مسائل پیدا کررہا ہے، کیا اس طرح جنوبی ایشیا میں امن قائم ہوسکتاہے؟ کیا اس وقت جنوبی ایشیا میں جنگ کے بادل نہیں منڈلارہے ؟
دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں بھارت نہتے کشمیریوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ رہاہے، امریکہ اگر چاہے تو بھارت کو ظلم کرنے سے روک سکتا ہے،لیکن امریکہ صرف مقبوضہ کشمیر سے متعلق بیا ن دے کر اپنی ''ذمہ داری‘‘ پوری کردیتا ہے۔اس سلسلے میں امید یہ کی جارہی تھی کہ جان کیری بھارت میںاپنے قیام کے دوران نریندرمودی کو مقبوضہ کشمیر میں فوجی کارروائی کو روکنے کا مشورہ دیں گا اور پاکستان کے ساتھ اس متنازع مسئلہ پر بات چیت کا آغاز کرنے پر زور دیں گے، لیکن ایسا نہیں ہوسکا حالانکہ پاکستان نے دو مرتبہ سے زائد بھارت کو مقبوضہ کشمیر سے متعلق مذاکرات کی دعوت دی ہے جس کو بھارت نے بڑی رعونت کے ساتھ مسترد کردیا ہے۔ہر گزرتے دن کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بھارت کی قابض فوج ظلم و بربریت کا مظاہرہ کررہی ہے، لیکن بین الاقوامی کمیونٹی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس اہم انسانی مسئلہ پر خاموش ہیں۔ یہ خاموشی ایک دن ناحق خون بہنے والوں کی آواز بن کر اس خطے کو آگ وشعلوں کے حصار میں لے کر بھسم کرسکتی ہے، امریکہ کو سوچنا چاہئے کہ اس کا حل کیا ہے اور اس اہم مگر سنگین مسئلہ پر اس کی ذمہ داری کیا بنتی ہے؟