ہارٹ آف ایشیا کا نفرنس میں اپنی صدارتی تقریر میں افغانستان کے صدر اشرف غنی نے ایک بار پھر پاکستان کے خلاف بھارت جیسا لب ولہجہ اختیار کرتے ہوئے افغانستان کے اندر حالات کی خرابی اور زبوں حالی کا الزام پاکستان پر عائد کیا ہے۔ انہوںنے بڑی ڈھٹائی سے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان نے افغانستان کی مدد کے لئے پچاس کروڑ ڈالر کی جو رقم مختص کی ہے ، اس کو پاکستان دہشت گردی کے انسداد کے لئے استعمال کرے ۔اس طرح اشرف غنی نے عالمی سامراج کے ایما پر پاکستان سے متعلق جو تقریر کی ہے، اس سے ظاہر ہورہا ہے کہ اشرف غنی اور ان کی حکومت میں شامل بعض عناصر پاکستان سے دوستی اورتعلقات کوکوئی اہمیت نہیں دے رہے۔ بلکہ دہشت گردی کے حوالے سے افغانستان اور بھات دونوں مل کر پاکستان کو جہاں بے جا اور غیر ضروری تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں وہیں وہ پاکستان کو اس خطے میں تنہا بھی کرنے کی مذموم کوششیں بھی کررہے ہیں،حالانکہ ہارٹ آف ایشیا ایسا فورم نہیں تھا جہاں دہشت گردی کے حوالے سے اس طرح الزامات لگائے جاتے، اشرف غنی نے تقریر کرتے ہوئے اس حقیقت کو جان بوجھ کر نظر انداز کردیا تھا کہ پاکستان ہی وہ ملک ہے جو افغانستان میں سیاسی حالات کو بہتر بنانے میں مدد دے سکتاہے، جیسا کہ اس نے ماضی میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان دوحہ اسلام آباد اورمری میں مذاکرات کا اہتمام کیا تھا، ضرورت پڑنے پر پاکستان ایک بار پھر اپنا یہ مفاہمتی کردار ادا کرنے کو تیار ہے تاکہ افغانستان میں خانہ جنگی ختم ہوسکے اور اس خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر اپنا کردار ادا کرسکے۔ ساری دنیا اس حقیقت کو تسلیم کررہی ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی کے اسباب کو ختم کرنے میں پاکستان کا کلیدی کردار ہے، خود اشرف غنی اس حقیقت سے واقف ہیں،امریکہ کو بھی اس کا ادراک ہے، اس ہی لئے وہ دوسال قبل اقتدار سنبھالنے کے بعد فوراً پاکستان آئے تھے، فوجی اور سیاسی قیادت سے ملاقات بھی کی تھی اور افغانستان میں خانہ جنگی رکوانے کے لئے پاکستان سے مدد کی درخواست کی تھی، اشرف غنی کی اس حکمت عملی کو پاکستان کے علاوہ عالمی سطح پر بھی اور افغانستان کے اندر امن پسند لوگوں نے بہت سراہا تھا، لیکن بھارت کی در پردہ لابی جس کی سربراہی حامد کرزئی کررہا ہے اس نے اشرف غنی کی اس حکمت عملی کو عبداللہ عبداللہ کے ساتھ ملک کرناکام بنادیا، اب اشرف غنی خود بھارت اور عالمی سامراج کی لابی کا حصہ بن کر پاکستان کے خلاف زہر اگل رہے ہیں جس سے ان کی احسان فراموشی ظاہر ہورہی ہے، نیز ان حالات میں پاکستان افغانستان میں خانہ جنگی ختم کرانے میں اپنا موثر کردار ادا نہیں کر سکتا حالانکہ افغانستان میں سیاسی حالات کی خرابی سے پاکستان بھی متاثر ہورہاہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی حکومت ہر فورم پریہ کہتی ہے کہ پاکستان ہر ان اقدامات کی حمایت کرے گا جس سکے توسط سے افغانستان میں امن قائم ہوسکتاہے، لیکن پاکستان کی ان نیک خواہشات کا افغانستان کی جانب سے خیر مقدم نہیں کیا جارہا۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں بھی حکومت پاکستان کے مشیر جناب سرتاج عزیز نے ایک بار پھر پاکستان کے اس ہی موقف کا اظہار کیا تھا ، یعنی افغانستان میں امن کا قیام پاکستان کی بنیادی ترجیحات میں شامل ہے ، تاہم جب اشرف غنی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں اپنی تقریر کررہے تھے تو یہ بھول گئے تھے کہ یہ اہم کانفرنس جس میں 16سے زائد ممالک شرکت کررہے تھے، افغانستان کی بہتری، بہبود اور امن کے قیام کے لئے منعقد کی گئی ہے۔ اس سے قبل یہ کانفرنس گزشتہ سال پاکستان میںمنعقد ہوئی تھی جو انتہائی خوش اسلوبی سے انجام پذیر ہوئی تھی، اب تک اس ضمن میں چھ کانفرنس ہوچکی ہیں، اس سلسلے کی سب
سے پہلی کانفرنس استنبول( ترکی) میں منعقد ہوئی تھی، چنانچہ اشرف غنی نے اپنی تقریر میں پاکستان کے خلاف جو زہر اگلا ہے اس کو کانفرنس کے شرکاء نے پسند نہیں کیا ہے، بلکہ روس اور ایران نے اس کا بہت برا منا یا تھا، روس کے نمائندے نے کہاکہ سرتاج عزیز کی تقریر بہت مدلل تھی ، ایسا محسوس ہورہا ہے کہ افغانستان بھارت اور عالمی سامراج کی پشت پناہی سے پاکستان میں دہشت گردوں کے ذریعہ افراتفری پیدا کرنا چاہتا ہے، افغانستان میں ''را‘‘ کے علاوہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موسادبہت زیادہ فعال ہے، جو افغان خفیہ ایجنسی خاد کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہی ہے، بلکہ تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کی تربیت بھی کررہی ہے، ان کا ہدف بلوچستان ہے جہاں اس سال دہشت گردی کے انتہائی ہولناک واقعات ہوچکے ہیں، ان تمام افسوسناک اور انسانیت سوز واقعات میں افغانستان کی حکومت براہ راست شامل ہے، آرمی پبلک اسکول اور باچا خان یونی ورسٹی کے علاوہ بلوچستان یونی ورسٹی میں دہشت گردی کے تمام واقعات میں افغانستان ، بھیانک کردار ادا کررہا ہے، اور عالمی سامراج مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہا ہے، مسلمانوں کی اکثریت حالات کا ادراک کرنے سے قاصر ہے۔
دراصل اشرف غنی جان بوجھ کر اس حقیقت کو فراموش کررہے ہیں کہ افغان طالبان غیر ملکی افواج کے خلاف گزشتہ سولہ برسوں سے لڑ رہے ہیں، ان کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی فوجیں واپس چلی جائیں، اس کے بعد عام انتخابات کراکرجیتنے والی جماعت کو اقتدار منتقل کردیا جائے، لیکن افغان طالبان کا یہ مطالبہ افغانستان کی حکومت کے علاوہ عالمی سامراج کو منظور نہیں ہے، اس صورتحال کے پیش نظر افغانستان میں نہ تو امن قائم ہوسکتاہے اور نہ ہی خانہ جنگی رک سکتی ہے!سچی بات تو یہ ہے کہ عالمی سامراج بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتاہے، اس کا یہ ایجنڈا کسی سے پوشیدہ نہیںہے، یہی وجہ ہے کہ عالمی سامراج نے افغانستان کے اندر ڈیرے ڈال دیئے ہیں، وہ دہشت گردوں کی مالی مدد کررہا ہے، جبکہ الزام پاکستان پر لگایا جارہاہے کہ پاکستان دہشت گردی کو پھیلارہاہے، حالانکہ پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف موثر جنگ لڑی ہے، عوام اور فوج دونوں نے اس عفریت کو ختم کرنے میں بے مثال قربانیاں دی ہیں، اور اب بھی دے رہے ہیں، اس جنگ میں پاکستان نے 110بلین ڈالر خرچ کئے ہیں، اگر پاکستان کی ان قربانیوں کے باوجود عالمی سامراج پاکستان کو توڑنے یا کمزور کرنے میں بھارت کو اُکسا رہا ہے، تو وہ انشاء اللہ اپنے مذموم ارادوں میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکے گا۔