جیلیں توڑنا۔۔۔ القاعدہ کی نئی حکمت ِ عملی

کیا یہ محض اتفاق ہے کہ دنیا کے کچھ ممالک، جیسا کہ پاکستان، لیبیا اور عراق ، میں جیلیں توڑ توڑ کر قیدیوں کو رہائی دلائی جارہی ہے یا پھر یہ القاعدہ کی وہ نئی حکمت ِ عملی ہے جس کا اعلان کچھ عرصہ پہلے اس تحریک کے رہنما کی طرف سے سامنے آیا تھا کہ وہ گوانتاناموبے سمیت دنیا بھر کی جیلوں میں قید اپنے کارکنوں کو رہا کرائیں گے؟اس کا اعلان ایمن الظواہری ، جو مبینہ طور پر پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے میں کہیں روپوش ہے، کے سامنے آنے والے ایک ریکارڈ شدہ پیغام میں کیا گیا تھا۔ یہ آڈیو پیغام جولائی کے آخر میں انٹر نیٹ پر ڈالا گیا تھا۔ اس پیغام میں الظواہری نے امریکہ کی طرف سے گوانتاناموبے میں بھوک ہڑتال کرنے والے قیدیوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہت جلد ان سب کو رہائی دلائیںگے۔ انہوں نے کہا۔۔۔’’ہم خدا سے وعدہ کرتے ہیں کہ ان قیدیوں اور وہ جو دنیا کے دوسرے حصوںمیں جبر کا شکار ہیں، کی رہائی کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریںگے۔‘‘ جیلوں پر حملوںکے ان واقعات میں انٹر پول کو کچھ مماثلت نظر آتی ہے۔ گزشتہ ہفتے اس کی طرف سے ایک عالمی وارننگ جاری کی گئی تھی۔ ا س نے دنیا بھر کی ریاستوںکو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا وہ اپنی جیلوں کی نگرانی مزید کڑی کردیں کیونکہ القاعدہ کی طرف سے حملوں کا خطرہ ہے۔ انٹرپول کی وارننگ کے بعد امریکہ کی طر ف سے بھی اپنے شہریوں کودنیا کے دیگر ممالک میں سفر کے دوران محتاط رہنے کی ہدایت کی گئی اور دہشت گردی کے خطرے کے پیش ِ نظر دنیا بھر کے مسلمان ممالک میں اکیس امریکی سفارت خانوں کو بند کر دیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ پہلے مرحلے میں القاعدہ کی طرف سے کمزور جیلوں پر حملے کرتے ہوئے اپنے قیدیوں کو رہائی دلانا مقصود ہے تاکہ بڑے حملوںکے لیے جنگجوئوں کی مطلوبہ تعداد میسر آسکے۔ بائیس جولائی کو عراق کی القاعدہ شاخ نے ابوغریب اور تاجی نامی جیلوں پر حملے کیے اور آٹھ سو کے قریب قیدیوںکو رہا کر الیا۔ اس کے بعد عراق میں تشدد کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔ صرف جولائی میں سات سو کے قریب افراد ہلاک ہوئے۔ 27 جولائی کو لیبیا کے شہر بن غازی کی جیل پر حملہ کیا گیا اور دہشت گردی کے الزام میں حراست میں لیے گئے ایک ہزار کے قریب ملزمان کو چھڑوا لیا گیا۔ 29 جولائی کو پاکستان کے شمال مغرب میں واقع شہرڈیرہ اسماعیل خان کی جیل پر150 سے زائد بھاری ہتھیاروں سے لیس طالبان، جن کا تعلق بھی القاعدہ سے ہے، کے جنگجووں نے حملہ کیا ۔ یہ حملہ آور ایک درجن سے زائد گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر آئے تھے۔ اُنھوں نے جیل پر تین اطراف سے حملہ کیا اور 250 سے زیادہ قیدیوںکو چھڑوا کر لے گئے۔ اس کارروائی میں ازبک اور چیچن جنگجوئوں نے بھی حصہ لیا۔ ان واقعات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ سب کچھ الظواہری کی ہدایت پر کیا جارہا ہے کیونکہ اپنے قیدیوں، چاہے وہ یورپ اور امریکہ سمیت دنیا کے کسی بھی ملک میں قید ہوں، کو رہا ئی دلانا ان کا مقصد ہے۔ ایسا لگتاہے کہ اس وقت یہ گروہ مشرق ِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں پھیلی ہوئی افراتفری کا فائدہ اٹھاکر اپنے جانثاروں اور کارکنوںکو رہائی دلانا چاہتا ہے۔یہ پیش رفت عالمی امن کے لیے خطرناک ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ سب کچھ اُس وقت ہورہا ہے جب امریکہ اور نیٹو یہ دعویٰ کررہے ہیںکہ اُنھوںنے ڈرون حملوںاور دہشت گردی کے خلاف بہتر حکمت ِ عملی اپناتے ہوئے القاعدہ کا خاتمہ کر دیا ہے۔ جیل توڑنے کے مضمرات کو نظرانداز کرنا یا انہیں عام جرائم سمجھنا غلطی ہوگئی۔ ایک دفاعی تجزیہ کار پیٹر برگن کے مطابق 2006ء میں یمن کے دارالحکومت صنا میں جیل توڑکر کئی قیدیوںکو رہاکرایا گیا تھا، ان کی رہائی کے نتیجے میں عرب ممالک میں القاعدہ قائم ہوئی۔ افغانستان میں طالبان نے قندھارکی سارپوزہ (Sarposa) جیل پر دو مرتبہ ، 2008ء اور 2011ء میں، حملے کیے اور اپنے دوہزار کے قریب ارکان کو رہا کرالیا۔ رہا ہونے والے میں انتہائی خطرناک جنگ آزما کمانڈر بھی شامل تھے۔ اگر بغور دیکھاجائے تو جیلوں پر ہونے والے ان حملوںکا انداز ایک ساہی ہوتا ہے۔ ایسا لگتاہے کہ ’’اینٹی جیل شکن فورس‘‘ کو ایک طرح سے ہی تربیت دی جاتی ہے۔ عام طور پر 100 سے زائد جنگجو بھیس بدل کر، جیسا کہ پولیس کے یونیفارم میں، قصبے میں داخل ہوتے ہیں جبکہ اتنے ہی قصبے سے باہر مورچہ بندی کرلیتے ہیںتاکہ باہر سے سکیورٹی فورسز اندر داخل نہ ہو سکیں۔ پھر حملہ آور جنگجو خود کش بمباروں کے ذریعے مین گیٹ یا دیوار توڑ دیتے ہیں جبکہ سکیورٹی گارڈ ز کو ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ ان حملہ آوروںکے پاس جیل کا نقشہ پہلے سے ہوتا ہے۔ وہ پہلے اپنے ساتھیوںکی شناخت کرتے ہیں ، اس کے بعد دیگر قیدیوں کو بھی رہا کر ا دیا جاتا ہے(صرف مخالف فرقے والوں کو ذبح کیا جاتا ہے)۔ اس کے بعد انتظارکرتی ہوئی خالی گاڑیوں میں قیدی فرار ہو جاتے ہیں۔ پاکستانی طالبان اور اسلامی موومنٹ آف ازبکستان کے اشتراک سے ایک نئی تنظیم’’انصار السیر‘‘ (قیدیوں کے مددگار) وجود میں آئی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد ہی قیدیوںکو رہائی دلانا اور ان کے اہل ِ خانہ کی معاونت کرناہے۔ اپنے گرفتار شدہ ساتھیوںکی رہائی کے لیے ایک اور حربہ اہم شخصیات یا غیر ملکی سیاحوںکو اغوا کرنا ہے۔ وہ ان کے بدلے رقم اوراپنے ساتھیوںکی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں؛ تاہم اب حکومتیں ان کے مطالبات کو نہیں مانتیں، اس لیے جیلیں توڑنا ان کی نئی حکمت ِ عملی ہے۔جن ممالک میں یہ جیلیں توڑی جارہی ہیں، وہاں کی کمزور اور نااہل حکومتوںکو مورد ِ الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ ایک عالمی نوعیت کا معاملہ ہے کیونکہ رہاہونے والے جنگجو القاعدہ کی کمزور ہوتی ہوئی صفوں میں زندگی کا نیا خون داخل کردیںگے۔ اس سے ان کو مزید حوصلہ بھی ملے گا کہ اگر انہیں کبھی گرفتار کر بھی لیا گیا تو وہ رہاکرا لیے جائیںگے۔ اس سے القاعدہ کونئی بھرتی کرنے میں بھی آسانی رہے گی۔ ا س کا مطلب ہے یہ یورپ اور امریکہ کو احساس ہونا چاہیے کہ جنگ کا ایک نیا مرحلہ شروع ہونے والا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں