یہ سطور شائع ہونے تک وزیراعظم نواز شریف کی صدر بارک اوباما سے اہم ملاقات ہو چکی ہوگی۔ یہ ملاقات نہ صرف پاک امریکہ تعلقات کے مستقبل کے لیے ایک سنگِ میل ثابت ہوگی بلکہ اس سے پاکستانی وزیر ِ اعظم کو ملک کے مستقبل کی غیر یقینی صورت ِ حال سے نمٹنے میں بھی مدد ملے گی۔ جب مغربی ممالک کے سیاسی رہنما اور فوجی افسر اپنے پاکستانی ہم منصبوںسے ملتے ہیںتو ان کے مابین ہونے والی گفتگو میں افغانستان کا مستقبل یا پاکستان کی کمزور ہوتی ہوئی ریاست اور اس پر دہشت گردوں کے حملے سرِ فہرست موضوعات نہیںہوتے بلکہ وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر بات کرتے ہیں۔ ا س کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی جوہری ہتھیار بنانے کے پروگرام کو تیزی سے آگے بڑھانے کی پالیسی ان کے ذہن میں بہت سے تشویش ناک سوال پیدا کرتی ہے۔ مغربی تجزیہ کاروں کے اندازے کے مطابق پاکستان کے پاس سو سے ایک سو بیس تک ایٹمی ہتھیار موجود ہیں ۔ اس طرح غیر روایتی ہتھیاروں کی تعداد کی اعتبار سے پاکستان کو اپنے حریف ملک بھارت پر‘ جس کے ساتھ وہ تین جنگیں لڑچکا ہے، برتری حاصل ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ بھارت کے پاس نوے سے سو کے درمیان ایٹمی ہتھیار ہیں۔ پاکستان کو میزائل پروگرام میں بھی بھارت پر برتری حاصل ہے ۔ اس کے پاس لانگ رینج میزائلوں کے علاوہ شارٹ رینج راکٹ اور جیٹ طیارے بھی ہیں جو غیر روایتی اسلحہ لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جلد ہی پاکستان سمندر سے ایٹمی میزائل فائرکرنے کی صلاحیت بھی حاصل کرنے والا ہے۔ یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں اس وقت پاکستان تیزی سے ایسے چھوٹے ایٹمی ہتھیار بنانے والا ملک ہے جو میدانِ جنگ میں استعمال ہوسکیں۔ امریکہ نے چھوٹے سائز کے ایٹمی ہتھیار‘ جو توپ اور ٹینک سے فائر کیے جاسکیں، پچاس کی دہائی میں بنالیے تھے۔ اب پاکستان یہ صلاحیت کامیابی اورتیزی سے حاصل کررہا ہے۔ کرسٹو فر کلارے ’’US National Bureau of Asian Research‘‘ میں شائع شدہ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں: ’’حالیہ برسوں میں ایٹمی ہتھیاروں میں ہونے والی سب سے اہم پیش رفت پاکستان کی طرف سے چھوٹے ہتھیاروں کی تیاری ہے جو میدان ِ جنگ میں استعمال ہوسکتے ہیں۔‘‘ مغربی ماہرین کے مطابق ایسے ہتھیاروں کے خطرات بہت مہیب ہیں۔ ان کے خیال میں سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ یہ حُجم میں چھوٹے ہوتے ہیں اور بہت زیادہ تعداد میں بنائے جاتے ہیں، اس لیے ان کے چوری ہونے کا خدشہ لاحق رہتا ہے۔ چونکہ پاکستان میں بہت سے دہشت گرد اور انتہا پسند گروہ سرگرمِ عمل ہیں، اس لیے یہ خطرہ اپنی جگہ موجود ہے کہ یہ چھوٹے ہتھیار ان کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر پاکستان اپنے حریف ملک کے ساتھ کسی جنگ میں کسی موقع پر سمجھے کہ وہ شکست سے دوچارہونے والا ہے تو وہ یہ چھوٹے ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کرسکتاہے۔ یہ بات قابلِ فہم ہے کہ چونکہ بھارت ایک بڑا ملک ہے اور اس کی جنگی مشین بھی زیادہ طاقتور ہے، اس لیے غالباً پاکستان روایتی جنگ میں بھارت کا مقابلہ نہیںکرسکے گا۔ اس لیے جنگ میں کسی موقع پر وہ بھارت کی فوج کے ایک جگہ جمع شدہ دستوں پر ایٹمی حملہ کر سکتا ہے؛ تاہم اس کے ردِعمل میں بڑے جوہری ہتھیاروں کا استعمال خارج ازامکان نہیںہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو برِ صغیر ایٹمی جنگ کے شعلوں سے بھسم ہوجائے گا۔ چونکہ پاکستان ’’ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے ‘‘ کے معاہدے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا‘ اس لیے جب بھی ان دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے بادل گہرے ہوتے ہیں تو پاکستان بھارت کے ساتھ مکمل جنگ سے‘ جس میں اُسے شکست ہوسکتی ہے، بچنے کے لیے دھمکی آمیز لہجہ اختیار کرلیتا ہے۔ ایک مغربی دفاعی ماہر کا کہناہے: ’’بڑے جوہری ہتھیاروں کی نسبت چھوٹے ہتھیاروں کو استعمال کرنے کا فیصلہ آسان ہوتا ہے۔‘‘ دوسری طرف پاکستان کے افسران اپنے مؤقف کی حمایت میں بہت سے دلائل دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ دہشت گردوں نے ہوائی اڈوں، فوجی تنصیبات اور دیگر حساس مقامات کو نشانہ بنایا ہے لیکن وہ کسی بھی صورت جوہری ہتھیار نہیں چرا سکتے کیونکہ پاکستان ان کی فول پروف سکیورٹی رکھتا ہے۔ تاہم یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کی چوری کوئی ’’معمول ‘‘ کی بات نہیں ہے بلکہ ایسا واقعہ کبھی دنیا میں پیش ہی نہیں آیا۔ دوسری طرف بھارتی فورسز کا رویہ بھی جارحانہ ہے۔ اُنھوںنے میدان جنگ کے لیے ایک منصوبہ تشکیل دے رکھا ہے جسے \'Cold Start\' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی بھاری جنگی مشین سرعت سے حرکت کرے، اور اس سے پہلے کہ پاکستان اپنی افواج کو متحرک کرسکے، بھارتی فورسز اسے شکست سے دوچار کردیں۔ دراصل پاکستان اور بھارت کا بارڈر اتنا طویل ہے کہ اسے ہر جگہ سے محفوظ بنانے کے وسائل نہیں ہیں؛ چنانچہ اسے یہ خدشہ لاحق رہتا ہے کہ بھارت Cold Start\'‘ منصوبے پر عمل پیرا ہوسکتا ہے۔ بھارتی حکام تردید کرتے ہیں کہ ان کے ہاں ایسا کوئی جارحانہ منصوبہ ہے۔ ان خدشات اور دوسری طرف سے کی جانے والی تردید کی وجہ سے اس مسئلے کا مذاکراتی حل دشوار نظر آتا ہے۔ اس وقت مغربی طاقتوں کے لیے یہ بات باعث تشویش نہیں کہ ان دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑ جائے گی، بلکہ اصل خطرہ یہ ہے کہ یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو زک پہنچانے کے لیے پراکسی جنگ لڑیں گے اور وہ ہاتھ سے نکل جائے گی اور حالات بے قابوہوجائیںگے۔ یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ ماضی میں پاکستان کے دفاعی اداروں نے جن انتہا پسند گروہوں کی سرپرستی کی تھی، اب وہ ان کے کنٹرول میں نہیںہیں، اس لیے وہ کسی بھی وقت سرحد پر ایسی صورت ِ پیدا کرسکتے ہیں جس سے ان دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑ جائے۔ اسی طرح اندرونِ ملک دہشت گردی کی کوئی کارروائی ہو سکتی ہے جیسے 2008ء میں ممبئی حملے‘ جن میں ایک سو چھیاسٹھ کے قریب بھارتی شہری ہلاک ہوگئے تھے اور ان حملوں میں لشکر ِ طیبہ کو مورد ِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ اسی طرح بھارت بھی بلوچ علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے پاکستان کو زک پہنچارہا ہے۔ حالیہ ہفتوں میں کشمیر میں بھارتی افواج اور سول اہداف پر انتہا پسندوںنے حملے کیے اور اس سے سرحدی تنائو میں اضافہ ہو گیا۔ یہ باور کرانا دشوار امررہا ہے کہ اصل خطرہ بھارت کی طرف سے نہیں بلکہ انتہا پسند تنظیموں کی طر ف سے ہے۔ حکومت کو عوام‘ جن کی بڑی تعداد ایٹمی ہتھیاروں کی حمایت کرتی ہے‘ کی طر ف سے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جب پاکستان کے پاس کافی بڑی تعداد میں جوہری ہتھیار موجود ہیں تو پھر مزید کیوں؟ ان سوالات کا تسلی بخش جواب کبھی نہیں دیا گیا ہے۔ جبکہ اسی دوران سرحد کے دونوں طرف عوام کی ایک بڑی اکثریت غربت کی دلدل میں دھنسی ہوئی ہے۔ پاکستان اور انڈیا کا توسیع پاتا ہوا راکٹ اور میزائل پروگرام اس خطے میں نہ تھمنے والی اسلحے کی دوڑ ہے ۔یہ ممالک ایک دوسرے پر اعتماد نہیںکرتے۔ اس وقت انٹر نیشنل سطح پر بھی کوئی سفارتی کوشش دیکھنے میں نہیں آرہی ہے جو انہیں اس خطرناک کھیل سے باز رکھ سکے؛ تاہم امیدکی جانی چاہیے کہ مغربی ممالک اس پورے معاملے کو دیکھیں گے اور ان دونوں ممالک پر‘ جو اب تک تین مرتبہ ایٹمی جنگ کے قریب آچکے ہیں، دبائو ڈالیںگے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور خطے کو جہنم بننے سے بچائیں۔