کابل سے لے کر واشنگٹن تک دنیا کے ہر دارالحکومت میں حکومتیں، دفاعی اور خفیہ ادارے اور میڈیا ہائوسز یہ سوال تواتر سے پوچھ رہے ہیں کہ اگلے سال افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج، جو بارہ سال تک لڑنے کے باوجود جنگ نہیں جیت سکیں، کے انخلا کے بعد کیا ہو گا؟ اگرچہ افغانستان کے حالات کے بارے میں بہت سی معلومات اور انٹیلی جنس رپورٹس دستیاب ہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ وہاں کس قسم کی صورت حال پیش آئے گی‘ حتیٰ کہ افغان باشندے بھی یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ ان کے ملک کے حالات کیا رُخ اختیار کریں گے۔ یہ بات اہم ہے کہ اگلے سال اپریل میں افغانستان میں صدارتی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ افغانستان کے مستقبل کا بہت حد تک دارومدار ان انتخابات کی شفافیت پر ہو گا۔ فی الحال افغانستان کے بارے میں جو پیشین گوئیاں کی جا سکتی ہیں‘ یہ ہیں کہ انخلا کے بعد بہتر ی کے امکانات کیا ہیں یا خراب تر صورت حال کیا ہو سکتی ہے یا صورت حال کو بدترین ہونے سے بچانے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ ایک برس سے ہم کامیابی کی جو کہانیاں سن رہے تھے وہ یہ تھیں کہ نیٹو افواج انخلا سے پہلے پہلے ساڑھے تین لاکھ جوانوں پر مشتمل افغان فورس تیار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی اور وہ فورس اتنی طاقتور ہو گی کہ اپنے ملک کی سکیورٹی کے مسائل حل کر سکے۔ بظاہر یہ ایک عمدہ حل دکھائی دیتا تھا، جیسا کہ ہمیں باور کرا گیا، کہ جب نیٹو افواج افغانستان کی سرزمین سے جائیں تو یہاں انسداد دہشت گردی کے لیے ایک مضبوط فورس موجود ہو۔ عام طور پر فوجی انخلا قدرے آسان مرحلہ ہوتا ہے لیکن افغانستان سے انخلا اس لیے مشکل ثابت ہو رہا ہے کہ گزشتہ بارہ ماہ کے دوران طالبان کے حملوں اور افغان حکومت کے اہل کاروں کی ہلاکتوں میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب امریکی افواج یہاں سے مکمل طور پر چلی جائیں گی تو پھر کیا عالم ہو گا۔ افغان فورس میں شامل جوانوں میں سے 80 فیصد ناخواندہ ہیں جبکہ سالانہ بیس فیصد جوان ملازمت چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔ اکثر کیسز میں وہ ہتھیاروں سمیت طالبان سے مل جاتے ہیں۔ گزشتہ سال مغربی افواج کی افغانستان میں تعداد 150,000 تھی جو اب گھٹ کر 87,000 رہ گئی ہے۔ اگلے موسم بہار تک ان دستوں کی تعداد چالیس ہزار محدود ہو جائے گی جبکہ اگلے سال کے اختتام تک افغان فورسز کو تربیت فراہم کرنے والے کچھ امریکی فوجیوں کے سوا تمام مغربی فوجی دستے افغان سرزمین چھوڑ چکے ہوں گے۔ اس وقت دنیا کے سامنے یہی سوال سب سے تشویشناک ہے کہ پھر کیا ہو گا؟ اس وقت افغان فورس کا جانی نقصان اتنا زیادہ ہو رہا ہے کہ افغان وزارت دفاع درست اعدادوشمار نہیں بتاتی مبادا ڈیوٹی سرانجام دینے والوں کی حوصلہ شکنی ہو؛ تاہم وزارت دفاع کے ترجمان محمد ظاہر اعظیمی کے مطابق گزشتہ مارچ سے لے کر اکتوبر تک 1273 پولیس کے افسران اور 770 پولیس رضاکار ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس عرصے میں طالبان نے ملک کے چونتیس صوبوں میں سے تیس میں 6600 کے قریب حملے کیے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ طویل جنگ اور نیٹو فورسز کی طرف سے جدید اسلحے کا استعمال بھی طالبان کی قوت کو کم نہیں کر سکا ہے۔ میرے خیال میں اگلے بارہ ماہ میں مندرجہ ذیل تبدیلوں کی ضرورت ہے‘ جن میں سے سب سے اہم سیاسی عوامل اور معروضات کی تبدیلی ہے۔ اس کا اظہار اگلے اپریل میں صدارتی انتخابات میں ہونا چاہیے۔ افغانستان میں درکار سیاسی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ اُن انتخابات کا انعقاد آزادانہ اور منصفانہ ماحول میں ہو تاکہ تمام سیاسی دھڑے حکومت کے مینڈیٹ کو تسلیم کر لیں۔ طالبان کے حملوں سے زیادہ اس بات کا خطرہ ہے کہ اگر افغانستان میں انتخابات کے نتیجے میں مستحکم حکومت وجود میں نہ آئی تو افغان معاشرہ مزید انتشار کی طرف لڑھک جائے گا۔ اس لیے اس وقت مغربی طاقتوں کے پیش نظر یہ بات ہونی چاہیے کہ اگلے انتخابات میں دھاندلی یا بے جا حمایت کا کوئی تاثر نہ ابھرنے پائے ورنہ ایک ہولناک خانہ جنگی کے خدشات ظاہر ہو رہے ہیں۔ افغان آئین کے مطابق حامد کرزئی ایک اور مدت کے لیے صدارتی امیدوار نہیں بن سکتے لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ اپنا حمایت یافتہ نمائندہ منتخب کرانے کی کوشش کریں۔ اس وقت صدارتی عہدے کے سولہ امیدوار میدان میں نظر آتے ہیں۔ کرزئی لامحالہ یہی چاہتے ہوں گے کہ ایسا شخص منتخب ہو جو اُن کی اور ان کے وسیع خاندان کی نہ صرف جان کی حفاظت کی ضمانت دے بلکہ انہیں بدعنوانی کے الزامات سے بھی بچائے۔ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ وہ اپنے بھائی قیوم کرزئی یا اپنے وزیر خارجہ زالمے رسول (Zalmai Rasul) کو صدر دیکھنا چاہتے ہیں۔ خدشہ ہے کہ وہ مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے انتخابات میں دھاندلی کریں گے۔ اگر انتخابات میں 2009ء جیسی یا کم و بیش اُسی طرح کی دھاندلی دکھائی دی تو پھر افغانستان کا سیاسی استحکام ایک خواب بن جائے گا۔ اس سے پہلے 2009ء میں دھاندلی کے بعد بڑی مشکل سے خانہ جنگی کو روکا گیا تھا، لیکن اس مرتبہ روکنا ناممکن ہو جائے گا۔ افغانستان میں انتخابی عمل کی کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہو گا کہ امیدوار نسلی کارڈ کس طرح کھیلتے ہیں۔ 2009ء میں حامد کرزئی بڑی مشکل سے جیت پائے تھے کیونکہ انہیں جنوب اور مشرقی علاقوں میں رہنے والی پشتون آبادی کی حمایت میسر تھی اور اُن کی خوش قسمتی تھی کہ ان علاقوں میں ووٹنگ کا ٹرن آئوٹ سب سے زیادہ تھا۔ اسی وجہ سے غیر پشتون آبادی، جیسا کہ تاجک، ازبک، ہزارہ اور دیگر قبائل‘ نے ان نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس وقت امریکی مداخلت کی وجہ سے شمالی علاقوں سے امیدوار عبداﷲ عبداﷲ دوسرے مرحلے کے انتخابات سے دستبردار ہو گئے تھے اور کرزئی صاحب کے لیے راہ ہموار ہو گئی۔ خدشہ ہے اگلے اپریل میں بھی یہی منظر دہرایا جائے گا لیکن اس مرتبہ کسی بھی ایسی حرکت کے نتائج نہایت تباہ کن ہوں گے۔ اس مرتبہ غیر پشتون باشندے آسانی سے نتائج تسلیم نہیں کریں گے جبکہ امریکہ کے پاس بھی کوئی اختیار نہیں ہو گا جس کے تحت وہ مخالف امیدواروں کو کسی تصفیے پر قائل کر سکے۔ یہ امکان بھی بہت دھندلا ہے کہ امریکہ مالی امداد کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنی بات منوائے گا؛ چنانچہ دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں جو خدشات پائے جاتے ہیں اُن میں سے سب سے مہیب یہ ہے کہ انتخابی عمل میں دھاندلی کی وجہ سے مختلف افغان دھڑے آپس میں لڑنا شروع کر دیں گے جبکہ طالبان ان سب پر پل پڑیں گے۔ اس طرح دنیا کا بدترین خدشہ سچ ثابت ہو جائے گا؛ چنانچہ اس وقت دنیا کے سامنے سب سے اہم کام یہ ہے کہ وہ حامد کرزئی کو سمجھائے تاکہ وہ کسی بھی ایسی حماقت سے باز رہیں‘ کیونکہ اس کے نتیجے میں نہ صرف افغانستان بلکہ پورا خطہ ناقابل بیان تباہی سے دوچار ہو جائے گا۔ آنے والے دنوں میں افغانستان میں سیاسی عمل نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اگر ان انتخابات کے نتیجے میں کوئی مستحکم حکومت سامنے آتی ہے تو طالبان کے حملوں کا خطرہ پھر بھی موجود رہے گا؛ البتہ سیاسی حکومت کم از کم سیاسی قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر سکے گی۔ اس طرح طالبان کے لیے کابل پر قبضہ آسان نہیں رہے گا۔