جس دوران پاکستان کے عوام، غیر ملکی سفارت کار اور عالمی رہنما دم سادھے وزیرِ اعظم پاکستان نواز شریف سے توقع کررہے تھے کہ وہ کئی ماہ کے تذبذب اور ہچکچاہٹ کے بعد بالآخر پاکستانی طالبان کے خلاف اعلان جنگ کرنے جارہے ہیں، اُنہوںنے سب کو یہ کہہ کر سکتے میں ڈال دیا کہ وہ پرامن مذاکرات کو ایک موقع دینا چاہتے ہیں۔ 29 جنوری کو پارلیمنٹ میں خطاب سے چند گھنٹے پہلے طالبان نے بڑے فخرسے اعلان کیا تھا کہ اُنہوںنے ہی وہ دھماکہ کیا جس میںکراچی میں رینجرزکے تین اہلکار ہلاک اور کئی زخمی ہوگئے تھے ۔ جنوری کے آغاز میں طالبان کی طرف سے سڑک پر نصب شدہ بم پھٹنے سے کراچی کے اہم ترین پولیس افسر چوہدری اسلم شہید ہوگئے تھے۔ اس وقت دوکروڑ کی آبادی کے اس اہم ترین کا عملی طور پرکنٹرول ان طالبان کے ہاتھ میں ہے جن کا ہیڈکوارٹر پندرہ سومیل دور شمال میںہے۔گزشتہ چند ماہ کے دوران، جب حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے گڑگڑا رہی تھی، فوج پر بھی حملوں میں شدت آگئی ۔ 20 ستمبرکو ایک خود کش حملہ آورنے جوکچرا اکٹھا کرنے والے کے بھیس میں تھا، راولپنڈی میں فوج کے ہیڈکوارٹرکو نشانہ بنایا جو انتہائی محفوظ جگہ سمجھی جاتی ہے۔ اس حملے میں سات فوجی جاں بحق اورچونتیس زخمی ہوئے جبکہ پانچ شہری بھی جان سے گئے ۔ اس سے ایک دن پہلے بنوں چھائونی پر حملے میں چوبیس فوجی جاں بحق ہوگئے تھے۔
اسی طرح ملک بھر میں مختلف مقامات پر ایک سنی انتہا پسند گروہ، لشکرِ جھنگوی، جس کے طالبان سے قریبی تعلقات ہیں، فرقہ وارانہ بنیادوں پر سینکڑوں اہلِ تشیع کو ہلاک کرچکا ہے۔گزشتہ ماہ کوئٹہ کے نزدیک شیعہ زائرین کے قافلے پر خود کش حملہ کیا گیاجس میں بائیس افراد ہلاک ہوئے۔ اسی طرح اقلیتوںکو بھی نشانہ بنانا معمول ہے جن میں مسیحی برادری سر فہرست ہے۔ اس وقت پاکستان میں نہ صرف طالبان کے زیرکنٹرول شمال بلکہ پورے ملک میں تشدد کے غیر معمولی واقعات پیش آنا روز کا معمول بن چکا ہے۔ہیومین رائٹس واچ اپنی سالانہ رپور ٹ میں لکھتا ہے:'' پاکستان بھر میں انتہا پسند گروہ انتہائی دیدہ دلیری سے قتل و غارت کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں جبکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے یاتو ان سے اغماض برتتے ہیں یا ان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنی کارروائیوںسے باز آجائیں‘‘۔اس رپورٹ کے مطابق طالبان کے حملے جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں لیکن ریاست کسی رد ِ عمل کا اظہار نہیںکررہی۔
طالبان نے اب تک پولیو کے قطرے پلانے والے بیس کے قریب رضاکاروں کو، جن میں زیادہ تر خواتین تھیں، ہلاک کردیا ہے جبکہ مسٹر بل گیٹس جن کی تنظیم پاکستان کو پولیو سے پاک ملک بنانے کے لیے فنڈزمہیا کرتی تھی‘ کاکہنا ہے کہ وہ اپنے پروگرام کو معطل کر رہے ہیں۔ اُنھوںنے 22 جنوری کونیویارک میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ ''پاکستان میں جاری تشدد شیطنت کی انتہا ہے‘‘۔ نواز شریف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سات ماہ میں طالبان کو بات چیت کرنے کی تین مرتبہ پیش کش کی لیکن ہر مرتبہ اُنہوںنے بہت حقارت سے اسے ٹھکرادیا ؛ تاہم بہت سے افراد کا خیال ہے کہ اس بارمعاملہ مختلف ہوگا۔ اس وقت کم و بیش روزانہ کی بنیاد پر فوج کی اعلیٰ قیادت وزیرِ اعظم کو باورکراتی ہے کہ انتہا پسندوںکا صفایا کرنے کے لیے حتمی فیصلہ کرنے کا وقت آچکا ہے، لیکن حکومت کے خیال میں پہلی ترجیح کے طور پر فوجی کارروائی کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنا ضروری ہے۔ نیوزرپورٹس کے مطابق نوازشریف کی حکمران جماعت، پی ایم ایل (ن) کے بہت سے ارکان فوجی کارروائی کے حق میں ہیں لیکن کچھ سیاسی اور مذہبی جماعتیں اس کی مخالف ہیں۔
اس دوران جب فوجی کارروائی کے لیے ماحول گرم ہورہا تھا، تیرہ ہزار کے قریب قبائلی افراد اپنے خاندانوں سمیت شمالی وزیرستان سے ہجرت کرتے ہوئے محفوظ مقامات کی طرف ہجرت کرچکے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اس بار لوگ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ معاملہ مختلف ہوگا؟ دراصل وزیر اعظم نوازشریف نے باضابطہ طور پرطالبان کو بات چیت کی پیش کش کی اوراس مقصد کے لیے چاررکنی کمیٹی بھی بنادی جس میں دو معروف صحافی شامل ہیں۔اس طرح انہوں نے طالبان تک رسائی حاصل کرنے کی سنجیدہ کوشش کی ہے۔ اس دوران جبکہ یہ کوشش جاری ہے، ہمیں یہ علم نہیں کہ حکومت کس حدکو سرخ لکیر سمجھتی ہے اورطالبان کواسے عبورکرنے کی اجازت نہیںدی جائے گی۔ ایک اور ابہام سیز فائز کے حوالے سے ہے کہ کیا طالبان اس کی پابندی کریں گے؟اب تک کا تجربہ بتاتا ہے کہ طالبان نے کبھی اپنے مقصد‘پاکستان کے سیاسی ڈھانچے کو تباہ کرکے اپنی تشریح کردہ شریعت کے نفاذ‘سے پیچھے ہٹنے کا عندیہ نہیںدیا۔حال ہی میں ان کے ترجمان کا بیان میڈیا میں شائع اورنشر ہوا کہ شریعت کے نفاذ پرکوئی سودے بازی
نہیںکی جائے گی ۔ تو پھرسوال پیدا ہوتا ہے کہ مذاکرات کس موضوع سے شروع کیے جائیں گے؟کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ کیا مذاکرات کا مطلب ہتھیار ڈالنا ہے؟
اگر حکومت انتہا پسندوںکے خلاف کارروائی کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے بہت سے 'معروضات‘ کو مدِ نظر رکھنے کی ضرورت ہوگی ۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ پاکستان طاقتور فوج رکھتا ہے لیکن فوج چاہتی ہے کہ سیاسی حکومت آپریشن کی ذمہ داری قبول کرے ۔ اس کے علاوہ یہ بھی خدشہ ہے کہ آپریشن شروع ہونے کے بعد طالبان کی طرف سے خودکش حملوں میں شدت آجائے گی؛ چنانچہ میاں نوازشریف کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ عوام کو جنگی بنیادوں پر متحرک کریں تاکہ وہ کسی بھی ہنگامی صورت ِ حال کے لیے تیار رہیں۔آپریشن کی صورت میں بے گھر ہونے والے افراد کی رہائش کا انتظام بھی کرنا ہوگا۔حکومت کو اس بات کا بھی احساس ہونا چاہیے کہ اگر وہ مذاکرات کی پیش کش کرتی رہے اور طالبان اپنی کارروائیوںسے باز نہ آئیں تو اس سے ریاست کی کمزری کا اظہار ہوگا۔ اس سے پہلے پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری وزیراعظم کوباور کراچکے ہیںکہ وہ چیمبرلین نہیں بلکہ چرچل بن کر میدان میں آئیں تو پوری قوم ان کے ساتھ ہوگی۔ اگر اس وقت پاکستانی قیادت کمزوری دکھاتی ہے تو اسے دفاعی طور پر ناقابلِ تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا۔