جب سے آئی ایس آئی ایس (اسلامک اسٹیٹ ان عراق اینڈ سیریا)نے شمالی عراق کے زیادہ ترحصوں کو زیر ِنگیں کیا ہے، مغربی طاقتیں اور تجزیہ کار ایک امنڈتے ہوئے خطرے کو دیکھ رہے ہیں۔ وہ ان جہادی قوتوں کے نئے اور طاقتور ارتکاز کو ایک مہیب خطرہ مان رہے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ آئی ایس آئی ایس دراصل القاعدہ کا ہی نیا روپ ہے۔ تاہم یہ دونوں جائزے ہی درست نہیں۔ آئی ایس آئی ایس نہ تو القاعدہ ہے اور نہ ہی عالمی جہاد کا حصہ بن رہی ہے۔ اس کے کچھ اپنے مقاصد ہیں اور ان کا ہدف مغربی ممالک نہیں۔
بغداد کی طرف تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے آئی ایس آئی ایس نے شام اور عراق کی سرحدوں کو ختم کردیا ۔ انہوں نے بھاری تعداد میں جدید ہتھیارحاصل کیے اور تیل پیدا کرنے والے علاقوںپر قبضہ کرلیا۔ اس سے عالمی سطح پر تیل کی قیمت بڑھ گئی۔ اس کے بعد انہوں نے دنیا ئے عرب میں قبائلی، گروہی اور فرقہ واریت پر مبنی منافرت ابھار ی اور اسلامی انتہا پسندی کو نئے معانی دیتے ہوئے نوجوان مسلمانوں کو اپنی طرف راغب کیا۔ آج اس کی صفوں میں مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے تعلیم یافتہ مسلم نوجوان بھی بڑی تعداد میں شامل ہورہے ہیں۔ دراصل مغربی ممالک کو ایک خطرہ یہ بھی ہے کہ اگر اس عراقی جہاد میں حصہ لینے والے ان کے شہری واپس اپنے وطن آجاتے ہیں تو ان جہاد آزما لڑکوںسے کیسے نمٹا جائے گا؟ وہ مسلسل مسلم والدین سے اپیلیں کررہے ہیں کہ اپنے بچوں کو جنگ کا ایندھن بننے سے بچائیں اور ان کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھیں۔ آئی ایس آئی ایس سوشل میڈیا کو بھی بہت موثر طریقے سے استعمال کررہی ہے۔
یکم رمضان، تیس جون ، کو آئی ایس آئی ایس نے خلافت کے قیام کا اعلان کردیا۔ خلافت کا قیام جہادی گروپوں کی دیرینہ خواہش رہی ہے ۔ وہ جدید ریاست ، جمہوریت اور عوامی حقوق کو تسلیم نہیں کرتے۔ اپنے اپنے ممالک میں یہ گروہ حکومتوںسے اسی لیے برسر پیکار ہیں کیونکہ وہ وہاں سے روایتی ریاستی ڈھانچہ ختم کرکے وسیع اسلامی خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم ان ''کامیابیوں ‘‘ کے باوجود آئی ایس آئی ایس دنیا کے اس خطے میںکوئی نئی پیش رفت نہیں اور نہ ہی ایسے گروہوں کا وجود میں آنا کوئی انہونی یا انوکھی بات تھی۔ ایک اور بات، القاعدہ کے برعکس آئی ایس آئی ایس کو عالمی جہاد میں دلچسپی نہیں۔ یہ اپنے جنگجو کسی اور ملک میں نہیں بھیج رہی، ہاں دیگر ممالک سے جنگجو اس کی صفوںمیں ضرور شامل ہورہے ہیں۔ اسے بڑی حد تک طالبان ، جو 1990ء کی دہائی سے پاکستان اور افغانستان میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں، سے مشابہت دی جاسکتی ہے۔ طالبان کی طرح آئی ایس آئی ایس کامقصد ایک علاقے پر قبضہ کرتے ہوئے خلافت قائم کرنا ہے۔ یہ القاعدہ کی طرح لندن یا نیویارک کو بم سے اُڑانے کی دھمکی نہیںدیتی اور نہ ہی اس مقصد کے لیے فتوے جاری کرتی ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک آئی ایس آئی ایس کی صفوں میں تین ہزار غیر ملکی جنگجو شامل ہوچکے ہیں لیکن اس کا ہدف غیر مسلم نہیں بلکہ دیگر مسلمان، خاص طور پر اہل تشیع ہیں۔ اس کا ماٹو اس خطے سے اہل ِ تشیع کا خاتمہ اور خالص سنی خلافت کا قیام ہے۔ جس طرح طالبان نے جنوبی اور وسطی ایشیا میں اسلام کی جہت تبدیل کردی، بالکل اسی طرح آئی ایس آئی ایس مشرق ِ وسطیٰ میں اپنی مرضی کا اسلام نافذ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ آئی ایس آئی ایس مشرق ِ وسطیٰ کے دیگر علاقوں کا کنٹرول بھی چاہتی ہے ۔ اس کے ارادے یہ دکھائی دیتے ہیں کہ عراق اور شام کو زیر ِ نگین کرکے پھر دیگر خطوں کی طرف بڑھا جائے۔ پاکستانی طالبان بھی ملاعمر کو اپنا امیر مانتے ہیں۔ وہ بھی ان دونوں ممالک کو یکجا کرکے خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں۔
طالبان اور آئی ایس آئی ایس کے درمیان بہت سی دیگر قدریں بھی مشترک ہیں۔ آئی ایس آئی ایس کے سخت جان جنگجوئوں کی تعداد دس ہزار کے قریب ہے جبکہ طالبان جنگجوئوں کی تعداد بھی کبھی پچیس ہزار سے تجاوز نہیں کرپائی۔ دراصل جس طرح کی جنگ وہ کررہے ہیں، اس کے لیے بھاری بھرکم فوج کی ضرورت نہیں۔ جب ایک لاکھ پچاس ہزار سے زائد مغربی افواج اور اس سے کہیں زیادہ افغان دستے جنگ میں حصہ لے رہے تھے تو بھی بیس سے پچیس ہزار کے قریب طالبان ان کو مصروف رکھے ہوئے تھے۔ طالبان کی طرح آئی ایس آئی ایس کی صفوں میں بھی انتہائی شاندار کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم موجود ہے۔ اس کے سخت جان، پرعزم اور سفاک جنگجو اعلیٰ تربیت یافتہ جنگ آزما ہوتے ہیں۔طالبان کی طرح ان کے پاس بھی لاجسٹک کی سہولت موجود ہے اور وہ بہت تیزی سے حرکت کرسکتے ہیں۔ دونوں گروہ نئے خون کو خوش آمدید کہتے ہیں اوربھرتی ہونے والے نوجوانوں کی تربیت کے لیے محفوظ مقامات پر ٹریننگ کیمپ رکھتے ہیں۔
آئی ایس آئی ایس نے کئی سالوں کی تیاری، اسلحے کی سپلائی اور نوجوانوں کی بھرتی اور ٹریننگ کے بعد چند ہفتوں کے اندر اندر موصل اور کچھ اور اہم عراقی شہر فتح کرلیے۔ طالبان نے بھی اسی طرح تیار ی کی اور 1994ء میں چند ماہ کے اندر افغانستان کے جنوبی اور مشرقی علاقوں کو تسخیر کرلیا۔ ان دونوں گروہوں کی بنیادی حکمت ِعملی یہ ہے کہ کبھی یہ دشمن پر سامنے آکر کاری ضرب لگاتے ہیں تو کبھی گھات لگا کر وار کرتے ہیں۔ دونوں گروہ ہنگامی اقدامات کی بجائے طویل المدت اسٹریٹجی کے تحت لڑ رہے ہیں۔ دونوں وقت کا انتظار کرتے ہیں یہاں تک کہ حریف نرمی دکھائے اور پھر وہ اس پر ضرب لگائیں۔ 1996ء طالبان نے دوسال تک کابل کا گھیرائو کیے رکھا لیکن اُنہیں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیںملی۔ پھر انہوں نے مشرق میں چھاپہ مار کارروائیاں شروع کردیں۔ جب حریف کی توجہ اُس طرف ہوئی تو انہوں نے یکا یک کابل پر حملہ کرکے اسے فتح کرلیا۔
طالبان اور آئی ایس آئی ایس کی سب سے موثر حکمت ِعملی بیک وقت کئی شہروں اور قصبوں میں کارروائیاں شروع کرنا ہے۔ اس کے لیے ان کے پاس لاجسٹک اور بھرتی کی سہولت میسر رہتی ہے۔یہ مختلف جگہوں پر اپنی مرضی کا محاذ کھول سکتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں سرکاری افواج کنفیوژن کا شکار رہتی ہیں کیونکہ وہ اپنے وطن میں کھلم کھلا جنگ نہیں چھیڑ سکتیں۔ انہوں نے صرف جوابی کارروائی کرنا ہوتی ہے۔طالبان اور آئی ایس آئی ایس کو ملنے والی کامیابیوں کے پیچھے ایک راز یہ بھی ہے کہ حریف کو ان کی اگلی حرکت کاعلم نہیںہوپاتا۔
جس طرح آئی ایس آئی ایس نے شام اور عراق کی سرحد کو ختم کردیا ہے، بالکل اسی طرح طالبان بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان کسی بارڈر کو نہیں مانتے۔ اُن کی دونوں ممالک میں آزادانہ حرکت اور کارروائیاں جاری رہتی ہیں۔ آئی ایس آئی ایس نے شام میں تیاری کی اور عراق کے شہر فتح کرلیے۔ اسی طرح افغان طالبان پاکستانی علاقوں میں اپنی پناہ گاہوں میں رہتے ہیں اور پھر وہ اپنی مرضی سے لائن عبور کرکے افغانستان میں کارروائیاں کرتے ہیں۔ اسی طرح پاکستانی طالبان بھی آپریشن کی صورت میں افغانستان میں پناہ لے لیتے ہیں اور پھر موقع پاتے ہی واپس آکرتخریبی کارروائیاں کرتے ہیں۔ اس سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ آئی ایس آئی ایس اور طالبان جیسے گروہوں کو دوایسے ہمسایہ ممالک کی ضرورت رہتی ہے جہاں وہ سرحدی علاقوں کو کنٹرول کرتے ہوئے اپنی نقل و حرکت کو آزاد اور محفوظ رکھیں۔ اس وقت جبکہ پاکستانی فورسز شمالی وزیرستان میں آپریشن کررہی ہیں، یہ دیکھاجانا ہے کہ وہ اس طرح کی حرکت کو کس طرح روک پاتی ہیں۔ خبریں ہیں کہ اہم پاکستانی طالبان افغانستان میں پناہ لے چکے ہیں۔ اس آپریشن کی کامیابی صرف اس صورت میں ممکن ہے جب طالبان کو میسر اس ''سہولت‘‘ کاخاتمہ ہوسکے۔ بہرحال اگر پاکستان عراق جیسے حالات سے دوچار نہیں ہوسکا تو اس کی واحد وجہ اس کی عسکری قوت ہے۔ تاہم یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا اس مرتبہ اس فسادی گروہ کا خاتمہ ہوتا ہے یا پھر وہ افغانستان میں وقت گزار کر پھر پاکستانیوں کو ہلاک کرنا شروع کردیتے ہیں؟