تلوار سر پر لٹک رہی ہے!

ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے سو دن کے اندر شام پر حملہ کر دیا ہے۔ جواز یہ پیش کیا گیا ہے کہ شامیوں نے خانہ جنگی کے دوران اپنے ایک سو لوگوں کو کیمیکل ہتھیاروں سے مار ڈالا اور عورتوں اور بچوں کو سانس لینا دوبھر ہو گیا۔ امریکہ کی اس مبینہ کارروائی کی مذمت وہی ملک کر رہے ہیں جنہیں امریکیوں سے پہلے سے شکایتیں تھیں مثلاً شام‘ ایران اور روس۔ ترکی ان ملکوں میں شامل ہو گیا ہے کیونکہ اسے کردوں سے شکایت ہے جو شام کے علاقے اور اپنے خود مختار خطے سے ترکیہ پر یلغار کرتے رہتے ہیں اور امریکہ سے امداد پاتے ہیں۔ شمالی کوریا نے اپنے ایٹم بم میزائلوں پر کس لئے ہیں اور وہ وائٹ ہاؤس اور کانگرس پر تلوار کی طرح لٹک رہے ہیں۔ اْس کا اعلان ہے ''ہم جنگ کے لئے تیار ہیں‘‘۔ اسے شکایت ہے کہ امریکہ‘ ساؤتھ چائنا سی کے دو ملکوں جنوبی کوریا اور جاپان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ پینٹاگان کا دعویٰ ہے کہ وہ امریکہ کا رخ کرنے والے کسی بھی میزائل کو مار گرانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اْس نے جنوبی چین کے سمندر میں جنگی جہاز داخل کر دیے ہیں‘ جن پر بیجنگ نے اعتراض کیا ہے۔
اقوام متحدہ نے کیمیائی اسلحے کی ممانعت کر رکھی ہے مگر اس کارروائی سے پہلے عالمی ادارے کی اجازت نہیں لی گئی۔ کانگرس سے بھی اجازت لینے کی ضرورت تھی مگر اسے نظر انداز کیا گیا۔ ادھر کیمیاوی اسلحے کے استعمال کی خبر آئی اور اْدھر صدر نے شعیرات نامی فوجی اڈے کو نشانہ بنا کر 59 کروز مزائل چلانے کا حکم دے دیا۔ کسی تحقیقات یا اس سے ملتی جلتی کسی کارروائی کی ضرورت نہیں تھی۔ صدرِ امریکہ نے اپنے الیکشن سے قوم کو دو لخت کیا تھا۔ اس اقدام نے دنیا کو دو حصوں میں بانٹ دیا۔ پہلا پتھر امریکہ اور روس کے تعلقات پر گرا۔
سب سے زیادہ فائدہ ابوبکر بغدادی کی خلافت داعش (ISIL) کو ہوا۔ اسے ایسے رضاکار مل گئے جو مرنے مارنے پر آمادہ تھے۔ انہوں نے پام سنڈے کو دو مصری گرجا گھروں پر جوابی حملہ کیا اور 45 افراد کو مار ڈالا۔ بغدادی کا بڑا موقف ہے کہ شام اور عراق ایک ملک تھے۔ مصر نے انگریزوں کے ساتھ مل کر سازش کی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد اسے دو ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔ صدر عبدل الفتح ال سیسی واشنگٹن میں تھے اور صدر ٹرمپ کی میزبانی کے مزے لوٹ رہے تھے۔ وہ گئے تو حملہ ہو چکا تھا۔ صدر نے ہنگامی حالت کا اعلان کیا جس کا بڑا مقصد بنیادی حقوق معطل کرنا ہے۔ اب چین کے صدر ژی جن پنگ اپنے پہلے امریکی دورے پر فلوریڈا میں تھے۔ دونوں لیڈروں نے تجارت بڑھانے کی بات کی۔ امریکہ کے بعد سب سے بڑی معیشت چین کی ہے۔ کرد‘ ترکیہ پر حملے کرتے رہتے ہیں جو عراق اور شام کی شمالی سرحد پر آباد ہیں۔ یمن‘ سعودی عرب کا ہمسایہ ہے مگر سرتابی کی سزا بھگت رہا ہے۔ جب امریکہ نے شام پر ہلہ بولا امام کعبہ پاکستان میں تھے۔ الشیخ صالح محمد بن طالب نے ایک جملہ ارشاد فرمایا۔ کہا: پاکستان‘ حرمین شریفین کی حفاظت کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان کا اشارہ پاکستان کی فوجی قوت کی جانب تھا‘ جس کا ایک سپہ سالار ریٹائر ہوتے ہی سعودیہ کے قائم کردہ 39 ملکوں کے اتحاد کا سربراہ بنا دیا گیا ہے۔وزیر دفاع کہتے ہیں کہ پاکستان کسی جارحانہ اقدام میں شریک نہیں ہو گا۔
ہم صحافیوں کے ذریعے عوام کو یہی بتایا جاتا رہا کہ امریکہ کو دمشق میں حکومت کی تبدیلی درکار نہیں‘ سیاسی اپوزیشن کی‘ جس کی حمایت امریکی کرتے ہیں‘ جدوجہد کی کامیابی مطلوب ہے۔ شام پر حملے کے بعد وائٹ ہاؤس نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ جب تک بشارالاسد شام پر قابض ہیں ملک میں امن بحال نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک موروثی چیف ایگزیکٹو کی حکومت بدلنے کی کارروائی نہیں تو اور کیا ہے؟ عراق کے اپوزیشن لیڈر مقتدیٰ الصدر نے بشار پر زور دیا ہے کہ وہ اقتدار سے الگ ہو جایئں۔ میاں نواز شریف سے بھی یہی مطالبہ کیا جا رہا ہے مگر کہنے اور کرنے میں بڑا فرق ہے۔ خلفشار مشرق وسطیٰ اور یورپ تک محدود نہیں اس میں افریقہ‘ آسٹریلیا اور دنیا کے اور خطے بھی مبتلا ہیں۔ مثلاً افغانستان اور مغربی ایشیا کے کئی دوسرے ملک‘ جنوبی امریکہ کی بہت سی قومیں۔ غرض جہاں کہیں سے امریکہ کے خلاف کچھ گڑبڑ ہوتی ہے چند ماہ بعد وہاں ''اپوزیشن‘‘ کی جدوجہد شروع ہو جاتی ہے۔ اندازہ لگایا گیا تھا کہ اگر ٹرمپ کو کامیابی حاصل ہوئی تو امریکہ دنیا میں جارحانہ انداز اختیار کرے گا۔ ثابت ہو گیا کہ یہ اندازہ غلط نہیں تھا۔ امریکی وزیر خارجہ ماسکو گئے‘ روسی وزیر خارجہ کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی اور اعتراف کیا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات ''پست ترین‘‘ سطح پر ہیں۔ انہوں نے تین گھنٹے اپنے روسی ہم منصب اور دو گھنٹے صدر پوٹن سے ملاقات کی جو ناکام رہی۔ اگلے دن روس نے شام کے خلاف مغربی طاقتوں کی قرارداد ویٹو کر دی۔
آزاد دنیا کا استعارہ اب بھی امریکی حکام کے استعمال میں ہے۔ وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے اس سے پہلے کہا تھا ''میرے خیال میں سب امریکی اور آزاد دنیا میں ہمارے اتحادیوں کو رات کی ضرب کے نتیجے پر خوش ہونا چاہیے‘‘۔ سی این این کے فرید زکریا (پیدائش ممبئی ) نے کہا: رات ٹرمپ نے گویا دوسرا جنم لیا۔ بہت سے قانون سازوں نے اس ضرب کو ایک عرصے سے واجب قرار دیا‘ مگر ڈیموکریٹ اس واقعہ پر نالاں تھے۔ نیو یارک سے سینیٹ کی رکن کرسٹین گلبرانڈ بو لیں ''لمبی مدت کی کسی حکمت عملی یا منصوبے کی عدم موجودگی میں بالخصوص کانگرس کی منظوری کے بغیر مشرق وسطیٰ کے باب میں یک طرفہ فوجی کارروائی گمبھیر تشویش کا باعث ہے‘‘۔ صدر پوٹن نے اس بات کی تردید کی ہے کہ شام نے اپنے دیہاتوں پر زہریلی گیس کی بارش کی۔
آنے والے چند دنوں میں صدر ٹرمپ کے لئے چیلنج یہ ہو گا کہ اس ضرب سے پیدا ہونے والی رفتار کو سیاسی کیش میں تبدیل کرنے کی کوئی راہ نکال سکتے ہیں اور لمبی مدت کی ایک حکمت عملی بنا سکتے ہیں یا نہیں‘ اس خانہ جنگی میں گھٹنوں تک پھنسے بغیر‘ جو چھ سال سے جاری ہے۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں