نیشنل ایکشن پلان اور دینی مدارس

گزشتہ دو سال سے افواجِ پاکستان آپریشن ''ضرب عضب ‘‘کے ذریعے دہشت گردوں اور ان کی کمین گاہوں کو صاف کرنے میں 80فیصد سے زیادہ کامیاب نظر آرہی ہیں۔ پشاور میں سکول پر حملے کے نتیجے میں 150سے زائد شہادتیں ہوئیں‘ جن کے نتیجے میں حکومت اور فوج نے مل کر نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا۔ ہر صوبے کی اپیکس کمیٹی کے ذریعے اس پلان پر عمل درآمد کا آغاز ہوگیا۔ 20نکاتی نیشنل ایکشن پروگرام میں ایک شق دہشت گردی اور مدارس کے آپس کے تعلقات اور مدارس کے کنٹرول کے حوالے سے بھی تھی۔ باقی شقوں پر کتنا عمل درآمد ہوا‘ اس سے قطع نظر، مذہب کے حوالے سے معاملات اور مدارس پر حکومتی پابندیوں کی اطلاعات سامنے آنا شروع ہوگئیں۔ اسی دوران وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان نے دہشت گردی میں ملوث مدارس کی تعداد کے حوالے سے مختلف بیانات دیئے۔ کبھی کہا گیا کہ دس یا پانچ فیصد مدارس دہشت گردی میں ملوث ہیں اور کبھی بتایا گیا کہ 200سے زائد مدارس ملوث ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حکومت کے لیے جو بھی مدرسہ دہشت گردی میں ملوث ہے‘ اس کا نام ظاہر کرنے، اس پر چھاپہ مارنے اوراس مدرسہ کو بند کرنے کے حوالے سے کیا امر مانع ہوا؟
اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان دینی مدارس کی وہ اجتماعی آواز ہے‘ جو مدارس کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے مشرف دور میں معرض وجود میں آئی۔ اتحاد تنظیمات مدارس نے مشرف دور کے پہلے تین سال حکومت کے ساتھ اس طرح چابک دستی سے مذاکرات کیے کہ 2003ء میں الیکشن سے پہلے وفاقی وزیر مذہبی امور ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید (سابق سیکرٹری اتحادتنظیمات مدارس پاکستان) سے یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ آپ اہل مدرسہ نے مدارس کا کیس اتنی خوبصورتی سے لڑا کہ حکومت مدارس کے ساتھ جو کچھ کرنا چاہتی تھی، کرنے میں ناکام رہی۔ اسی دور میں حکومت کو مدارس ریفارمز کے نام پر امریکہ سے 6ارب روپے ملے۔ وہ کہاں گئے؟کوئی اس کی تحقیق تو کرے۔
وزیر اعظم، آرمی چیف اوروفاقی وزیر داخلہ کے ساتھ اتحاد تنظیمات مدارس میں شامل پانچ دینی مدارس کے بورڈز کے صدور اور ناظم اعلیٰ کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کا نتیجہ وقت گزرنے کے ساتھ معلوم ہوگا۔ وزیر اعظم مدارس سے اس امر کے خواہاں ہیں کہ امن قائم کرنے کے لیے دہشت گردی اور فرقہ واریت کو ختم کیا جائے‘ مدارس حکومت سے تعاون کریں‘اگرچہ مدارس مثبت کردار ادا کررہے ہیں مگر امن قائم کرنے اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں اپنابھر پور کردار ادا کریں۔ اس موقع پر وزیر داخلہ نے بتایا کہ 177مدارس کو غیر ملکی فنڈنگ ملتی ہے‘ تین درجن سے زائد مدارس بند کردیئے گئے‘ جو غیر قانونی بنے ہوئے 
تھے۔وزیر داخلہ نے یہ بھی کہا کہ فرقہ واریت پھیلانے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ ایک دوسرے کو کافر اور واجب القتل قرار دینے، قتل پر اکسانے اور نفرت انگیز تقاریر کرنے پرریاست کارروائی کرے گی (یقیناًحقائق کی روشنی میں ریاست کو کارروائی کرنی چاہیے۔) اسی اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ مدارس کی بیرونی فنڈنگ کا طریقہ حکومت طے کرے گی‘ مالیاتی امور بینکوں کے ذریعے طے ہوں گے اور مدارس آڈٹ رپورٹ دیں گے‘ مدارس کی رجسٹریشن کے معاملات آسان تر بنائے جائیں گے جبکہ دینی مدارس کی قیادت نے وزیر اعظم کو نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے حوالے سے غیر مشروط حمایت کا یقین دلایا۔ 
سوالات یہ پیداہوتے ہیں کہ
1۔ دینی مدارس کی قیادت کیا دہشت گردی میں ملوث مدارس کو Disownکرے گی؟
2۔جن مدارس نے سپاہ وافواج پاکستان پر حملوں کو جائز اور شہید فوجیوں کے جنازے پڑھنے کو منع کیا تھا‘ ان کے حوالے سے کیا کیا جائے گا ؟
3۔حکومت مدارس میں موجود سہولت کاروں کو بخوبی جانتی ہے‘ ان کے حوالے سے کیا کارروائی کی جائے گی؟
4۔جو مدارس بیرونی فنڈنگ پر پراکسی وار میں مصروف عمل ہیں ان کی بیخ کنی کیسے ہوگی؟ 
یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کے بارے میں اب تک ہونے والے مذاکرات خاموش ہیں اور اگر یہ سوالات حکومت کی طرف سے نہیں اٹھائے گئے تو یقیناً یہ دینی قیادت کی کامیابی ہے۔ 
دہشت گردی روکنے کے لیے حکومت کالج اور یونیورسٹی لیول پر کیا اقدامات کررہی ہے؟ اس کا جواب ابھی تک حکومت کے پاس نہیں ہے، جبکہ دوسری طرف لاؤڈ اسپیکر پر پابندی صرف چھوٹی مساجد اور کمزور طبقہ فکر پر ہے۔ شاید باقی حکومتی رٹ سے باہر ہیں۔یہ امر یقینا حکومت کی دورخی کا مظہر ہے۔
حکومت واقعتاً دینی مدارس کی اصلاح کے حوالے سے سنجیدہ ہے تو میرے خیال میں مندرجہ ذیل اقدامات کرنے ہوں گے:
1۔مدارس کی رجسٹریشن کے لیے کوئی سا ایک محکمہ منتخب کرلیا جائے...محکمہ تعلیم، محکمہ اوقاف، محکمہ صنعت وتجارت یا محکمہ سماجی بہبود میں سے کسی ایک کو مدارس کے معاملات کے لیے بااختیار بنایا جائے۔ اس کے لیے نئے سرے سے قانون سازی کرکے 1860ء کے سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ کو تبدیل کیا جائے۔
2۔مدارس کے نصاب کے تعین کے لیے وفاقی سطح پر اعلیٰ دینی تعلیمی کمیٹی تشکیل دی جائے جو مدارس کے نصاب میں لازمی مضامین (قرآن، حدیث، فقہ، انگلش، مطالعہ پاکستان) اور اختیاری مضامین (فارسی، اردو، حساب، سائنس، جغرافیہ، سیاسیات اور معاشیات) کا تعین کرے اور تمام مدارس کے لیے مشترکہ نصاب تیار کرے۔ 
3۔حکومت ایسے ادارے تشکیل دے جہاں کسی بھی مدرسے کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد طلبہ کو کم از کم ایک سالہ نصاب سے گزارا جائے اور اس نصاب سے فارغ التحصیل علماء کو امام وخطیب مقرر کیا جائے۔نیز انہیں تربیت دینے والے غیر متشدد،فرقہ واریت سے پاک اور اکثریتی طبقہ کی بنیاد پر چنے جائیں۔
4۔وفاقی سطح پر متحدہ علماء بورڈ پنجاب کی طرز کا ادارہ تشکیل دیا جائے جوبے جا تکفیراور فرقہ واریت کو ختم کرنے کے لیے ضابطہ اخلاق برائے تحریر وتقریر تیار کرے۔
5۔مسلمان ممالک اگر جذبہ دینی کے تحت مدارس کی فنڈنگ کرنا چاہتے ہیں تو وہ فنڈ حکومت کے پاس آئے اور حکومت اس کو محکمہ زکوۃ /اوقاف کے ذریعے مدارس میں تقسیم کروائے۔ اگر فنڈ دینے والا ملک اپنے ہی مسلک کے مدارس کو فنڈدینے پر اصرار کرے ،تو اس کا مطلب واضح ہے کہ وہ اپنے مسلک کی ترویج و اشاعت کرنا چاہتا ہے۔
6۔اب تک آنے والی غیر ملکی فنڈنگ کا آڈٹ کیا جائے۔
دوسری طرف اہل مدارس کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اپنی قدامت کے تحفظ کے لیے اب بقدر ضرورت جدید تقاضوں کو اپنانا ہو گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں