ایک دور تھا سب جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے تھے‘ اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ میں کہوں گی کہ تب گھر کچے تھے مگر دل سچے تھے‘ سب کُشل منگل تھا... تو آپ غلط ہیں کیونکہ ایسا نہیں تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو آج بھی وہی نظام ہمارے معاشرے میں رائج ہوتا۔ اُس مشترکہ خاندانی نظام میں ایک دوسرے کے لیے تھوڑا بہت خلوص اور پیار تو تھا لیکن اس کے ساتھ بوجھ بہت تھے۔ اس میں مقابلے بازی تھی‘ ضد تھی‘ حسد تھا‘ جلن تھی‘ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم تھی۔ توجہ‘ پیار‘ اہمیت‘ دولت اور شہرت کوئی شے مساوی نہیں بٹتی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ لوگ رفتہ رفتہ اس نظام سے باغی ہوتے گئے۔ نئی نسل اس نظام کے حوالے سے سوال کرنے لگی۔ ڈیکارٹ کہہ گئے ہیں: Cogito, ergo sum یعنی میں اس لیے ہوں کیونکہ میں سوچتا ہوں۔ لوگوں نے جب سوچنا شروع کیا اور تمام گواہوں کے بیانات اور ثبوتوں کی روشنی میں معاشرہ اس نتیجے پر پہنچا کہ بہن بھائیوں اور ان کے بچوں سے زیادہ اہم اپنے بچوں کا مستقبل ہے اور یوں چند برسوں میں معاشرے نے یہ ریت بدل لی‘ اور بڑے خاندانوں کی جگہ چھوٹے اور زیادہ پُر سکون خاندانوں نے لے لی۔ اب ذرا ٹھہریے! جب ایک گھر کا نظام‘ جس میں دس‘ بیس‘ تیس افراد ہوں‘ انہیں اکٹھا رکھنا‘ خاندان کے انتظامی امور سنبھالنا‘ سب کو پالنا آج کی دنیا میں ممکن نہیں تو کیا چار صوبے پچیس کروڑ عوام کے انتظامی امور کو بہتر طور پر سنبھال سکتے ہیں؟ اس کا جواب یقینا نفی میں ہے۔ عوام تلک بنیادی سہولتیں جیسے صحت‘ روزگار اور تعلیم وغیرہ کے فقدان کی ایک بڑی وجہ ناکام اور بوجھل انتظامیہ ہے۔
ملکِ عزیز میں موجودہ‘ چار صوبوں پہ مشتمل ڈھانچہ 1970ء کی دہائی میں وضع ہوا تھا۔ اُس وقت ملک کی کُل آبادی چھ کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ آج یہ بڑھ کر تقریباً پچیس کروڑ ہو چکی ہے یعنی آبادی میں تو چار گنا اضافہ ہو چکا ہے مگر صوبوں کی تعداد اتنی ہی‘ یعنی چار ہے۔ اس تضاد نے گورننس‘ تعلیم‘ صحت کے نظام اور ملکی ترقی کو مفلوج کر دیا ہے۔ 1972ء کی مردم شماری میں صوبہ پنجاب کی آبادی تین کروڑ دو لاکھ تھی‘ 2023ء کی مردم شماری کے مطابق آج یہی صوبہ پنجاب بارہ کروڑ آٹھ لاکھ نفوس سے زائد آبادی کو سنبھال رہا ہے۔ آج پنجاب کی آبادی کئی یورپی ممالک کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ ہے‘ مگر اتنی بڑی آبادی کو تاحال ایک ہی صوبے میں رکھ کر سنبھالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس صورتحال میں شاید آدھا صوبہ بھی صحیح سے ترقی نہیں کر پا رہا۔ نہ عوام کو صحت کے اچھی سہولیات میسر ہیں اور نہ ہی تعلیم کی۔ باقی شعبوں کی صورتحال بھی ان سے مختلف نہیں۔آپ صوبائی دارالحکومت لاہور سے نکل کر جنوبی پنجاب چلے جائیں‘ یوں محسوس ہو گا کہ پچاس سال پرانی کسی دنیا میں جا پہنچے ہیں۔ مٹی اُڑاتی گلیاں‘ پینے کو گدلا پانی اور علاج کے لیے ٹوٹی پھوٹی ڈسپنسریاں۔
اگر پنجاب کو چھوٹے صوبوں میں تقسیم کر کے اس کے انتظامی امور سنبھالے جائیں تو عین ممکن ہے کہ اس سے گراس روٹ لیول تک ترقی ہو سکے۔ ہر گاؤں کی گلیاں پکی ہو سکیں‘ ہر گاؤں میں پینے کا صاف پانی مہیا ہو سکے۔ ہر چھوڑے بڑے قصبے کو جدید طبی سہولتیں مل سکیں گی۔ دیکھا جائے تو سرائیکیوں کا رہن سہن‘ بول چال‘ میلے ٹھیلے باقی پنجاب سے مختلف ہیں‘ اگر ان کیلئے ایک الگ صوبہ قائم کر دیا جائے‘ سرکاری امتحانوں میں الگ کوٹہ دے دیا جائے تو اس اقدام سے نہ صرف ان کے ملک اور حکومت سے گلے شکوے ختم کیے جا سکتے ہیں بلکہ پنجاب کے اس جنوبی خطے کو ترقی کی راہ پہ گامزن کیا جا سکتا ہے۔ ایسا ہی احوال دیگر صوبے کے دور دراز علاقوں کا ہے۔
لعل شہباز قلندر کی سوہنی دھرتی سندھ کی آبادی 1972ء میں ایک کروڑ پانچ لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ آج یہ آبادی تقریباً پانچ گنا بڑھ چکی ہے اور نظام وہی کا وہی ہے۔ کراچی جیسے میگا سٹی میں بھی‘ جو ملک کا معاشی حب ہے‘ مسائل سے نمٹنے کیلیے کوئی علیحدہ انتظامی اکائی آج تک نہیں بنائی گئی۔ کراچی‘ جو تقریباً سارے ملک کو پال رہا ہے‘ پر آبادی کا جس قدر بوجھ ہے یہ اسی صورت کم کیا جا سکتا ہے جب کراچی کو الگ کر کے علیحدہ صوبہ بنایا جائے۔ اگر سندھ کو مزید صوبوں میں تقسیم کر دیا جائے تو اس سے انتظامی امور کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
1972ء میں خیبر پختونخوا کی آبادی تقریباً ایک کروڑ تھی جو 2023ء کی مردم شماری تک بڑھ کر چار کروڑ پر جا پہنچی ہے۔ اسی مدت میں بلوچستان کی آبادی 23لاکھ سے بڑھ کر ایک کروڑ چار لاکھ پر پہنچ چکی ہے۔ اگرچہ بلوچستان کی آبادی دیگر صوبوں کے مقابلے میں کافی کم ہے لیکن بلوچستان کا رقبہ باقی صوبوں سے بہت زیادہ ہے۔ اتنے بڑے رقبے والے صوبے کو کوئٹہ جیسے شہر میں بیٹھ کر انتظامی طور پر بہتر انداز میں سنبھالنا ممکن نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں گورننس کی بہتری اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی آج تک ممکن ہی نہیں ہو پائی اور عوام پسماندگی کا شکار ہیں۔
ان اعداد او شمار کی روشنی میں چند باتیں انتہائی اہم اور قابلِ توجہ ہیں: 1970ء کی دہائی میں چھ کروڑ آبادی کے ملک کو چار صوبوں میں تقسیم کیا گیا تھا لیکن آج ملکی آبادی 25کروڑ سے بھی زائد ہو چکی ہے مگر صوبوں کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا‘ یہ اب بھی چار ہی ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک جیسے بھارت‘ نائیجیریا اور چین نے اپنی آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ انتظامی اکائیاں بڑھائیں مگر ہمارے ہاں اس جانب کوئی توجہ مرکوز نہیں کی گئی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری ہاں صوبائی حکومتیں صوبوں میں آبادی کا حجم زیادہ ہونے اور گورننس کے مسائل کی وجہ سے عوام تک بنیادی سہولتیں پہنچانے میں ناکام رہیں جس سے مقامی سطح پر محرومی اور پسماندگی کا احساس بڑھ رہا ہے اور گورننس روز بروز مزید مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر اب وقت آ گیا ہے کہ ملک عزیز میں مزید صوبے بنائے جائیں تاکہ گورننس مؤثر ہو‘ تعلیم اور صحت کا نظام بہتر ہو اور عوامی مسائل مقامی سطح پر حل ہو سکیں۔
ملک میں زیادہ صوبے بنائے جائیں گے تو زیادہ اضلاع بھی بنیں گے‘ زیادہ اضلاع بنیں گے تو زیادہ تحصیلیں بنیں گی۔ جب ملک میں چھوٹی چھوٹی تحصیلیں ہوں گی تو ہر تحصیل کو چلانے کے لیے نئے لوگ بھرتی ہوں گے۔ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنا دیا جائے گا تو راجن پور کے رہائشی کو اپنے چھوٹے سے سرکاری کام کے لیے سینکڑوں میلوں کا سفر کر کے لاہور نہیں جانا پڑے گا‘ جہاں اس کی فائل مٹی کی تہہ اور دیگر فائلوں کے انبار تلے دبی رہتی ہے۔
اگر 1970ء میں چھ کروڑ آبادی کے لیے انتظامی معاملات بہتر انداز میں چلانے کے لیے چار صوبوں کی ضرورت تھی تو اسی فارمولے کے تحت آج 24 کروڑ آبادی کے لیے کتنے صوبے درکار ہیں‘ یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ اہم بات ہے کہ نئی انتظامی تقسیم ایسی ہو کہ اگلی کئی دہائیوں تک کارآمد رہ سکے۔