"ASC" (space) message & send to 7575

ڈاکو راج

پراناالبم دیکھتے ہوئے چونک ہی تو اٹھے۔ لڑکیوں کی درس گاہ کی ایک دھندلی سی تصویر کو دیکھتے ہوئے بولے ’’ارے بھئی یہ تو سچ مچ وہی کالج ہے جہاں سلطانہ پڑھتی تھی‘‘ اور کہیں سہانے ماضی میں کھو گئے۔کراچی کا ذکر جب بھی آتا ہے شیخ محمد طارق یوسف چوہان راجپوت کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں جس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ اس شہر کے اچھے دن ان کی جوانی کی طرح چلے گئے ہیں، اور لوٹ کر نہیں آتے۔ ہنستے مسکراتے لوگ، سڑکوں پر رونق اور ہلا گلا، ایک دوسرے کا غم بانٹنے والے پڑوسی، چھٹی کے دن یوسف پلازہ کے سامنے حلوہ پوری کا ناشتہ، سڑک پر ٹیپ بال کی کرکٹ، ایک روپے کی چا ئے ،سردیوں کی رات کو ٹن ٹن کرتی مونگ پھلی بیچنے والوں کی آوازیں، صدر کی بریانی اور برنس روڈ کے کباب اور نہاری۔ پھر انھیں بے اختیار روشنیوں کے شہر کی وہ راتیں یاد آجاتی ہیں جب وہ اپنے نیم ( اگر ان لوگوں میں ہم خود شامل نہ ہوتے تو واللہ نیم کا لفظ استعمال نہ کرتے) آوارہ دوستوں کے ساتھ بلاخوف اور بلاوجہ مٹر گشت کیا کرتے تھے۔ اکثر میٹرک کے امتحان میں حساب کے اس تاریخی پرچے کا حوالہ دیتے ہیں جس کی (چاند) رات کو وہ نائٹ میچ کھیلنے چلے گئے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ انھیں اس پرچے میں فیل ہونے کا اتنا افسوس نہیں جتنا میچ ہارنے کا قلق ہے۔ دراصل مخالف ٹیم سلطانہ کے محلے کی تھی اور وہ اسے بری طرح ہرا کر اپنی دھاک بٹھانا چاہتے تھے۔ شکست کا الزام البتہ راقم الحروف پر ہے کہ اگر ہم ان کو اس دن بیٹنگ کرنے گیارہویں نمبر پر نہ بھیجتے (عام طور پر ان کا نمبر دسواں تھا) تو وہ باقی پچاس رن بقیہ دو اوور میں پورے کرکے محبوبہ کے سامنے سرخرو ہوجاتے (ان کا بیٹنگ اوسط تین اعشاریہ صفر ہے۔ انھوں نے کبھی کسی میچ میں چھکا تو کیا کبھی چوکا تک نہیں لگایا)۔خیر سے میچ ہارنے کے بعد چائے پراٹھے کا ناشتے کیا اور ایڈمشن کارڈ نکال کر امتحان دینے چلے گئے اور وہاں وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ کراچی کے وہ سہانے دن اب خواب ہوئے ، وہ شہر جو جہاں میں انتخاب تھا اب صرف بد امنی کے حوالے سے جانا چاہتا ہے، اسٹریٹ کرائمز، دہشت گردی، بھتہ خوری، ڈاکہ زنی ہر جرم ہی عروج پر ہے۔ جن کو اس شہر میں رہنے کی مجبوری نہیں وہ اسے چھوڑ کر نسبتاً پر امن شہروں کی طرف نقل مکانی کررہے ہیں۔ جن کے جمے ہوئے کاروبار ہیں وہ اب بھتہ خوروں سے بچتے پھرتے ہیں۔ بجلی کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کے بعد بھی کچھ بچ جائے تو بھتہ دے دو۔ ان سے بچ کر نکلو تو سڑ ک پر لٹ جائو۔ ویسے سچ تو یہ ہے کہ لٹنے کے لیے اب گھر سے نکلنے کی بھی ضرورت نہیں۔ لوٹنے والے خود ہی گھسے چلے آتے ہیں۔۔ ہنگامے، دھماکے، ہڑتالیں، احتجاج، شدت پسندوں کی یلغار اپنی جگہ‘ کراچی میں تو رہنا ہی ایک جنگ ہے۔ ڈاکوں اور رہزنوں سے لٹنے کے حوالے سے شیخ محمد طارق یوسف چوہان راجپوت کا ریکارڈ کچھ اتنا برا نہیں جتنا دیگر شعبوں میں ہے۔ ساری زندگی کراچی میں گزارنے کے باجوود ان سے صرف آٹھ موبائل فون چھینے گئے۔ تین مرتبہ رہزن دن دہاڑے نقدی لے گئے، دو گاڑیاں چوری ہوئیں اور اتنی ہی مرتبہ گھر میں ڈاکہ پڑا۔ محض ایک مرتبہ ان کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی۔ چار مرتبہ اے ٹی ایم استعمال کرتے ہوئے رقم سے محروم ہوئے، لے دے کر بیس ایک مرتبہ بھتے کی پرچی آئی جو انھوں نے چوں چرا کے ادا کردی مگر دل اپنے ہی شہر سے اُچاٹ ہوگیا۔ حالانکہ ا ب ایسی بھی کیا بات ہے جو کراچی میں رہتے ہیں وہ ان اعداد و شمار کو بالکل معمول کے مطابق تصور کرتے ہیں۔ ہمارے پاس تو ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ ایک دوست ایک ہی سڑک پر ایک گھنٹے کے دوران دو وارداتوں میں اتنے ہی موبائل فونز سے محروم ہوگئے۔ایک صاحب نقدی ، موبائل فون لے کر چمکتی ہوئی گاڑی میں گھر سے نکلے اور واپس رکشے میں آئے۔ گھر کے دروازے پر ہی رہی سہی رقم‘ جو بینک سے نکلتے ہوئے موزوں میں چھپائی ہوئی تھی‘ انجان راستو ں سے نمودار ہونے والے ڈاکوئوں کو دینی پڑی۔لیکن شیخ صاحب ہوشیار ہوگئے تھے، پانچ سو روپے سے زیادہ کا فون اور دھواں دیتی ہوئی لاش جیسی گاڑی استعمال کرتے ہیں۔ چند سال پہلے لاہور آئے تو ڈر کے مارے سڑک پر فون جیب سے نہ نکالتے تھے کہ کوئی منتظر نہ ہو۔جب کئی ماہ تک کوئی نئی واردات نہ ہوئی تو خوشی خوشی ایک مہنگا فون خرید لیا جس میں نہ صرف آواز صاف آتی تھی بلکہ فو ن کرنے والے کا نام بھی پڑھا جاتا تھا۔ ماڈل بھی صرف پانچ سال پرانا۔ترقی کی رفتار اور بڑھ جاتی اگر یہاں بھی ایسا ہی ایک واقعہ نہ پیش آجاتا۔ اب اسلام آباد کا رُخ کرتے ہوئے ان کی خوشی دیدنی تھی، سامان باندھتے ہوئے بھی گنگنا رہے تھے۔ ’لوگ کہتے ہیں کہ دارالحکومت میں بھی آج کل بڑے ڈاکے پڑتے ہیںـ‘ ہم نے انھیں سنی سنائی سناد ی جو انھوں نے سنی ان سنی کردی۔ ابھی تین دن ہی ہوئے تھے کہ دارالحکومت کے جس پوش علاقے کے ایک مکان میں ٹھہرے ہوئے تھے وہاں بھی ڈاکہ پڑ گیا۔ ڈاکو نقدی اور زیورات کے ساتھ ان کا وہ تاریخی فو ن بھی لے گئے جس سے اب محض ٹارچ کا کام لیا جا سکتا تھا۔ بوکھلا ہی تو گئے۔ پہلے تو سمجھے کہ یہ حادثہ انھیں کے ساتھ پیش آیا ہے، مگرآس پاس کے لوگوں نے بتایا کہ ڈاکوسے لٹنے والے ایک تم ہی نہیں ہو طارق‘ کہتے ہیں اگلے محلے میں کوئی جمیل بھی تھا۔پتہ چلا کہ علاقے میں ڈاکوئوں کا راج ہے۔ ہر روز کسی نہ کسی گھر سے لاکھوں روپے لوٹ لیے جاتے ہیں۔ یہ سفاک لوگ معمولی مزاحمت پر جان تک لے لیتے ہیں۔ بلکہ یہاں تک سنا کہ ایک واردات میں ایک غیرملکی سفارت کار تک زخمی ہوگیا ۔ سکیورٹی کے حالات دراصل صرف کراچی میں نہیں بلکہ پورے ملک میں ہی خراب ہیں۔ غیرملکی سرمایہ کار اسی لیے یہاں آنے سے کتراتے ہیں، اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کے حوالے سے پاکستان کا نمبر دنیا بھر میں چوتھا ہے۔ اسی سال میں اب تک ہزار سے زائد شہری دہشت گردی کا شکار ہوکر اپنی جان کھو چکے ہیں۔ اب یہاں کون آئے گا ان حالات میں؟ کراچی سب سے بڑا شہر۔ یہاں رہزنی، بھتہ خوری، اغوا اور ڈاکہ زنی کا رجحان بھی اسی تناسب سے کچھ زیادہ ہی ہے۔ کچھ دن پہلے استاد عرفان محمود آبادی کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا جب ایک سنسنان سے علاقے میں ایک معصوم شکل کے آدمی نے (جس کا قد بھی ان سے آدھا تھا) سگریٹ جلانے کے لیے لایٔٹر مانگا۔ ادھر انھوں نے قمیص کی جیب میں ہاتھ ڈالا‘ ادھراس نے اپنی پتلون کی جیب سے پستول نکال لیا‘ جسے دکھا کر ان کا بٹوہ، موبائل، بجلی کا بل، دھوبی کی رسید، آدھی کھائی ہوئی چاکلیٹ اور حد سے زیادہ میلی، جیبی کنگھی تک لے گیا۔شکر ہے کہ وقت کی کمی کی وجہ سے ان کی بو شرٹ نہ اتروائی ورنہ لوگوں کو پتہ چل جاتا کہ وہ پھٹی ہوئی بنیان پہنتے ہیں۔ لائٹر البتہ چھوڑ گیا۔ سگریٹ نہ پیتا ہوگا۔ شیخ صاحب کو اپنے شہر سے پیار ہے مگر امن و سکون کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں کہ کہیں ٹک کر آرام سے کام کرسکیں۔ ضروری نوٹ: سلطانہ کی شادی میچ جیتنے والی ٹیم کے وکٹ کیپر سے ہوئی، خیر سے چھ بچے ہیں ، بڑا لڑکا شیخ محمد طارق یوسف چوہان راجپوت سے بھی دو انچ لمبا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں