دھماکوں کے جنگل میں راستہ بنانا مشکل ہو رہا ہے۔ فرانس کی نیشنل انٹیلی جنس سروس کے ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ 7/7 کے بعد فرانس میں مقیم ہزاروں پاکستانیوں نے مغرب کے خلاف نفرت کا محاذ بنانے کے لیے انتہا پسندی کا راستہ اختیار کر لیا ہے اس لیے فرانسیسی حکومت کو چاہیے کہ وہ فرانس میں مقیم پاکستانی کمیونٹی پر نظر رکھے اور ان کی سرگرمیوں کو مانیٹر کرے تاکہ فرانس کو ان انتہا پسندوں کے حملوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ اس بیان کے ساتھ ہی فرانس بھر میں دہشت گردوں کے حملوں کے خدشے کے پیش نظر حفاظتی انتظامات کو پہلے سے بھی سخت کردیا گیا ہے (جیوے جیوے پاکستان)۔ ڈچ اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق فرانسیسی اخبار ’’لی فگارو‘‘ نے انکشاف کیا ہے کہ 7 جولائی کے لندن میں ہونے والے بم دھماکوں میں پاکستانیوں کے ملوث ہونے کے بعد فرانس کو بھی اس انتہا پسند گروپ سے خطرہ لاحق ہے۔ رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ مختلف راستوں سے پاکستانیوں کی فرانس میں آمدورفت میں اضافہ ہو گیا ہے جبکہ انتہا پسند گروپوں کی فرانس میں زیرِ زمین سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس حوالے سے انتہا پسند تنظیم لشکر طیبہ جسے پاکستان میں کالعدم قرار دیا جا چکا ہے‘ کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہوئے اخبار نے لکھا ہے کہ ان شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ فرانس میں رہنے والے پاکستانیوں نے مغرب کے خلاف اپنی نفرت کے اظہار کے لیے شدت پسندی‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا راستہ چُن لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے فرانس کی حکومت نے مختلف پبلک اور مصروف مقامات پر ویڈیو کیمرے اور دوسرے الیکٹرانک آلات نصب کیے ہیں۔ صرف دارالحکومت پیرس میں تقریباً بیس ہزار ویڈیو کیمرے نصب ہیں۔ اس کے علاوہ پوسٹ آفس‘ ریلوے سٹیشن‘ انڈر گرائونڈ‘ مصروف شاہراہوں اور شاپنگ سنٹروں پر بھی اسی طرح کے کیمرے نصب کر دیئے گئے ہیں جن کی کل تعداد 25 ہزار سے زائد بنتی ہے۔ فرانسیسی انٹیلی جنس ایجنسی ڈی سی آر جی نے کہا ہے کہ وہ پوری طرح چوکس ہیں اور حکومت اپنے فرائض کو بخوبی سمجھتی ہے۔ فرانس کی چھ کروڑ کی آبادی میں پچاس لاکھ سے زائد مسلمان ہیں جبکہ یہودی صرف چھ لاکھ ہیں۔ مسلمانوں کی یہ تعداد یورپ میں آباد کسی بھی ملک کے مسلمانوں سے زیادہ ہے۔ یورپی یونین کے ممالک میں دو کروڑ سے زائد مسلمان رہتے ہیں۔ صرف فرانس میں پچیس ایسی مساجد ہیں جن کا نظم و نسق انتہا پسند اسلامی گروپوں کے ہاتھ میں ہے۔ ان مساجد میں اشتعال انگیز تقریریں اور خطبے دیئے جاتے ہیں جو مسجدوں میں آنے والے نوجوانوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں کی طرح فرانس میں بھی مساجد کے پیش اماموں کو ماڈرن یا عصری تعلیم سے روشناس کروانے کی مہم زور پکڑ چکی ہے کیونکہ امام حضرات یورپی معاشرہ اور بالخصوص فرانسیسی سوسائٹی کے بارے میں قطعی لاعلم ہیں اور بعض مذہبی حوالوں کے جواز میں سخت غلط تاویل پیش کر دیتے ہیں؛ چنانچہ فرانس میں حکومت کی جانب سے انہیں ’’ٹریننگ‘‘ کے عنوان سے مختلف لٹریچر کا مطالعہ کروایا جا رہا ہے۔ فرانسیسی حکومت کی ایک رپورٹ کے مطابق فرانس میں مساجد اور مسلم تعلیمی اداروں کے سربراہوں کو اب اسلام کے مختلف مضامین کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک میں سیکولرازم کی تاریخ کا مطالعہ کرنا بھی ضروری ہے۔ وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ’’علمائے کرام‘‘ کو جو مضامین پڑھائے جائیں گے ان میں ڈی مونیٹک کے نظریات اور ابن کثیر کی تفسیر شامل ہوگی۔ ان مضامین کے علاوہ فرانسیسی مفکر‘ دانشور اور ماہرین تعلیم ایسے مضامین کا انتخاب کریں گے جن سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کی بُو نہ آتی ہو۔ علاوہ ازیں توحید‘ قانون شرعیہ کے اصول‘ فقہ اور مختلف فکر کے علماء کی تفاسیرِ قرآن بھی آئمہ حضرات کو مہیا کی جائیں گی۔ اس کا مقصد آئمہ حضرات اور علمائے کرام کی ’’معلومات‘‘ میں اضافہ کرنا اور ان کے اندر وسعت نظر پیدا کرنا ہے۔ ان دستاویزات کی تیاری میں حکومت فرانس کو عظیم فرانسیسی مفکر اور ریسرچ سکالر پائر لاری کا تعاون بھی حاصل ہوگا۔ دستاویزات میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ مساجد کے امام حضرات فرانسیسی معاشرے کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں اس لیے ان حضرات کو مختلف اسلامی موضوعات کی بنیادی معلومات مہیا کرنا ضروری ہو گیا ہے تاکہ وہ عہدِ حاضر کے تقاضے بخوبی پورے کر سکیں۔ اس کے علاوہ انہیں فرانسیسی زبان بھی سکھائی جائے گی تاکہ وہ قرآن و حدیث کی تعلیمات غیر عربی خواتین و حضرات اور فرانسیسی قوم تک بہتر انداز میں پیش کر سکیں۔ اماموں کو ملکی قوانین کے علاوہ فرانسیسی سماج کی روایات بھی سکھائی جائیں گی۔ فرانسیسی حکومت کا یہ پروگرام دو حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں امام بننے والے حضرات کو دو سالہ کورس کروایا جائے گا جبکہ دوسرے مرحلے میں چھ ماہ کی خصوصی تربیت دی جائے گی۔ فرانسیسی وزیر داخلہ نے نیوز ایجنسیوں کو بتایا کہ مسلم اماموں کا فرانسیسی تہذیب و تمدن اور زبان پر عبور بے حد اہم مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ ٹریننگ بعض شہروں میں شروع بھی کردی ہے جن میں پیرس‘ لیون اور مارسیل شامل ہیں۔ وزیر داخلہ نے اس بات سے اتفاق کیا کہ آسٹریلیا کی طرح فرانس کی یونیورسٹیوں میں بھی امام بننے کے خواہشمند طلبا کو سیکولر مضامین پڑھائے جائیں گے جن کے ذریعے انہیں فرانسیسی تہذیب اور ثقافت سمجھنے میں مدد ملے گی اور اسلام میں رواداری کو فروغ ملے گا۔ یہاں میں یہ بات بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ اماموں اور خطیبوں کو اس طرح کی تعلیم و تربیت دینے کے پروگرام کئی یورپی ممالک میں بے حد اہمیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ملکوں کے کئی سویلین کرسچن گروپ حکومت کی زیرِ نگرانی اماموں کو مغربی معاشرہ کی سیکولر طرزِ زندگی سکھانے والی تعلیم و تربیت اور ٹریننگ فراہم کرنے کی تجویز پر عمل کے لیے آگے آئے ہیں اور اس سلسلے میں اپنی خدمات حکومت کو پیش کی ہیں جس پر بعض مسلم گروپوں نے اعتراض بھی کیا ہے۔ اس طرح کے گروپس کا کہنا ہے کہ مسلم علماء اور مفکرین کو جو خاص مذہبی فرائض انجام دیتے ہیں مغرب تہذیب اور سیکولرازم سکھانے اور انہیں عیسائی مکتبۂ فکر کی جانب سے تربیت فراہم کرنے کی بات ناقابلِ فہم ہے۔ دریں اثناء ڈچ حکومت نے بیس صفحات پر مشتمل اپنی سفارشات جاری کی ہیں جن میں تجویز کیا گیا ہے کہ ہالینڈ میں اماموں اور مذہبی راہنمائوں کو اپنے فرائضِ منصبی انجام دینے کے لیے ڈچ زبان اور ڈچ سوسائٹی کے بارے میں مکمل آگاہی ہونی چاہیے۔ ’’جیّد علماء‘‘ کو مغربی معاشرے کے بارے میں آگاہی ہونی چاہیے یا نہیں؟ میں بھی سوچتا ہوں آپ بھی سوچئے‘ بے شک نہ میں عالم ہوں نہ فاضل‘ نہ جیّد‘ فقیہ نہ مفتی‘ نہ واعظ نہ مولوی‘ نہ مفسر نہ شارح‘ نہ امام اور نہ سوادِاعظم…