یورپی یونین ، ترکی اور آٹھ کروڑ مسلمان!

ترک فوج نے حکومت کو انتباہ کیا ہے کہ اگرچہ سیاست میں اسلامی شدت پسندی قدرے کم ہوئی ہے لیکن ملک کے استحکام کیلئے وہ آج بھی خطرہ ہے۔ فوج کا کہنا ہے کہ سیکولرازم کے بجائے اسلامی یا شرعی قانون کا نفاذ ترکی کو ہزاروں سال پیچھے دھکیل دے گا اور اس سے سیاسی ، سماجی اور تجارتی حلقوں کیلئے اندرون و بیرون ملک مشکلات پیدا ہوں گی۔آئی ایم ایف کی جانب سے ترکی کو ملنے والا اربوں ڈالر کا پیکیج بھی متاثر ہوسکتا ہے۔ترک فوج کے سربراہ نے ازمیر شہر کا دورہ کرتے ہوئے ترکی کے ایک سرکردہ اخبار حُریت کو انٹرویو دیا جسے ڈچ اخبارات نے اپنے تبصروں کے ساتھ شائع کیا ہے ۔فوج کے سربراہ نے کہا کہ ترکی میں اسلامی بنیاد پرستی کی لہر ایک بار پھر اٹھ سکتی ہے۔ یہ خطرہ بہرحال موجود ہے کیونکہ اس لہر کا مکمل خاتمہ ابھی نہیں ہوا، تاہم اس کی شدت میں کچھ کمی آئی ہے۔ اگر ترکی میں تمام بنیاد پرست پارٹیوں پر پابندی نہ لگائی گئی تو ترکی کے یورپی یونین کارکن بننے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ میرے حساب سے ترکی کا اہم ترین مسئلہ بھی یہی ہے۔ بعض ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ یورپی یونین اور عالمی تجارتی تنظیم میں مسلمانوں کی عدم شمولیت کی وجہ دراصل شراب اور سود کے گوشت کے استعمال اور ان کی تجارت کی مخالفت ہے۔ڈبلیو ٹی او کے یورپی اور امریکی ممالک چاہتے ہیں کہ مسلم ممالک اپنے رجعت پسندانہ قوانین کو بدل ڈالیں ، تجارتی قواعد کو آسان کردیں تاکہ ’’ حلال ،حرام ‘‘کی تخصیص ختم ہوجائے ۔ترکی کے ساتھ دہرا مسئلہ ہے۔ ایک یورپی یونین کی مکمل ممبر شپ اور دوسرا ڈبلیو ٹی او میں شمولیت۔ایک طرف ترقی یافتہ ممالک مختلف حیلوں اور بہانوں سے ترقی پذیر ممالک کیلئے اپنی تجارتی منڈیاں کھولنا نہیں چاہتے اور دوسری طرف مسلم ممالک پر غیر اخلاقی اور بے جا شرائط لگاکر انہیں تجارت کی عالم گیریت ، کھلی مارکیٹ اور فراخ دلانہ تجارتی تصورات کے فوائد سے محروم کردینا چاہتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ یورپی یونین اور امریکہ ترکی کوقبرص کا مسئلہ یونان کے ساتھ فوری اور مستقل بنیاد پر حل کرنے کیلئے زور دیتے رہتے ہیں۔قبرص کو یونین کی ممبر شپ کا جب عندیہ دیاگیا تو ترکی نے یورپی یونین کے اس رویے پر سخت احتجاج کیا اور کہا کہ قبرص ایک متنازعہ جزیرہ ہے، اس سے متعلق تنازع کے حل کے بغیر اسے یورپی یونین میں شامل نہیں کیاجاسکتا۔ترکی نے سب سے پہلے 1963ء میں یورپی یونین میں شرکت کی درخواست کی تھی حالانکہ اس سے قبل 1960ء میں امریکہ نے ترکی کو بلاتاخیر نیٹو کی رکنیت دے دی تھی کیونکہ سرد جنگ کے زمانے میں کمیونزم کے اثر کو یورپ میں پھیلنے سے روکنے کیلئے ترکی جیسے مسلمان ملک کی فوری شمولیت ضروری تھی۔اس میں یورپی یونین کا نظریاتی و تجارتی مفاد پوشیدہ تھا۔ آج اسی ترکی کو محض مذہبی تعصب کی بنا پر یورپی یونین میں شامل نہیں کیاجارہا حالانکہ 1963ء کے بعد کئی ممالک کو یورپی یونین کی رکنیت دی گئی ہے۔اس دوران ترکی پر ’’ الزامات‘‘ کی بوچھاڑ کردی گئی کہ ’’ تمہارا ہیومن رائٹس کا ریکارڈ اچھا نہیں‘ تمہارے ہاں جیلوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے ۔ترکی میں سزائے موت بدستور سایہ فگن ہے ‘‘۔ ترکی نے ہرآن یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ یورپی یونین کے معیار کے عین مطابق ہے۔ اس نے اپنے عمل ، اپنے نظریات اور اپنے طور طریقوں سے یہ ثابت کردیا کہ وہ ایک سیکولر اور غیر مذہبی ریاست ہے اور اس کی تہذیب و ثقافت وسطی ایشیا کے مسلمانوں اور اسلامی ممالک سے زیادہ یورپ سے ملتی جلتی ہے لیکن اس کے باوجود ترکی کو مذہبی تعصب کی وجہ سے پچاس سال بعد بھی یورپی یونین کی رکنیت نہیں دی گئی ۔ اب بھی ترکی یورپی یونین میں صرف مشاہدے (Observation) کے درجہ میں ہے۔ تاہم ترکی اور بین الاقوامی دبائو کی وجہ سے اب امید بندھ چلی ہے کہ آنے والے برسوں میں ترکی کو یورپی یونین کی مکمل رکنیت دے دی جائے گی۔ یہ اتنا آسان مرحلہ نہیں ہوگا کیونکہ مکمل رکن بننے کے امکانات کے پیش نظر یورپی ممالک بے چینی محسوس کررہے ہیں۔ایک اسلامی مملکت چاہے سیکولر نظام حکومت ہی کیوں نہ رکھتی ہو اس کی عیسائیوں کے غلبے والی یورپی یونین میں شمولیت روایتی یورپین اور عیسائیوں کیلئے ناقابل قبول بن رہی ہے۔یورپی یونین میں پہلے ہی مسلمانوں کی آبادی تقریباً دو کروڑ سے زائد ہے۔ اب اس میں مزید چھ کروڑ ستر لاکھ ترک مسلمانوں کا اضافہ یورپی یونین میں آبادی کے توازن کو بدل سکتا ہے۔اگر ترکی کو یورپی یونین میں شامل کرلیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ یورپ میں مسلمانوں کی تعداد تین فیصد سے بڑھ کر 20 فیصد ہوجائے گی جس کے معاشی ، سیاسی ، تجارتی ، سماجی اور ثقافتی اعتبار سے ڈرامائی اثرات مرتب ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی عوام آبادی کی ہیٔت میں اس قدر نمایاں تبدیلی اور اس شرح کی نسلی و مذہبی حقیقت کو قبول کرنے پر مائل نظر نہیں آتے۔ترکی کی شمولیت کا مسئلہ مسلمانوں میں تیزی سے ابھرتے ہوئی مذہبی بنیاد پرستی کے رجحانات سے اور پیچیدہ ہوگیا ہے۔یورپ کے سیاسی و سماجی قائدین اور حساس ایجنسیوں و تحقیقاتی اداروں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ القاعدہ اور دوسری بنیاد پرست اور انتہا پسند اسلامی تنظیموںسے دہشت گردی کا خطرہ بہت سنگین ہوگیا ہے اور ان تنظیموں سے لاحق خطرات کو بے اثر کرنے کیلئے کئی برس لگ جائیں گے جس کا یورپ متحمل نہیں ہوسکتا۔دوسری طرف ترکی کی رکنیت کی حمایت کرنے والی یورپی لابی یہ تاویل پیش کررہی ہے کہ ترکی ایک سیکولر مسلم مملکت ہے جس نے اپنے آپ کو یورپی یونین کی رکنیت کے قابل بنانے کیلئے اصلاحات کے ایجنڈے پر مکمل طور پر عمل کیا ہے۔ترکی کی رکنیت کے حامیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یورپی یونین میں ترکی کی رکنیت غربت کے شکار اس ملک میں خوشحالی لائے گی اور وہاں کے غریب عوام کے معیار زندگی میں اضافہ ہوگا اور بے روزگاری کی شرح میں زبردست کمی ہوگی۔اس وقت ترکی میں بائیس فیصد لوگ بے روزگار ہیں، یورپی یونین کی رکنیت کے بعد ترکی کی خوشحالی دوسرے مسلم ممالک کیلئے بھی مثال بن جائے گی۔ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی خیالات میں شدت پسندی سے جو نیا چیلنج آج درپیش ہے اسے صرف اسی وقت روکا جاسکتا ہے جب ان ملکوں کے غریب عوام کی خوشحالی میں اضافہ ہو۔ان تمام ’’ مک مکا ‘‘ بیانات ، خیالات اور نظریات کے باوجود ہنوز اسے کامیابی نہیں ملی کہ یورپی یونین کے کئی سرکردہ لیڈرترکی کی رکنیت کے مخالف ہیں۔جرمنی کے سرکردہ قدامت پسند قائد اسٹویئر نے جنہیں سابق چانسلر شروڈر کے مقابلے میں بہت ہی معمولی فرق سے شکست ہوئی تھی ،ترکی کی رکنیت کے بارے میں ایک وارننگ دیتے ہوئے ایک نیا تنازع چھیڑ دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ترکی کی رکنیت یورپی یونین کو تباہ کردے گی۔جرمن قائد کی یہ تقریر یاپالیسی بیان سارے یورپ کے دائیں بازو کے نظریات رکھنے والے اور دوسرے قدامت پسندوں کے نقطہ نظر کی ترجمانی کرتا ہے۔ فرانس کے سابق صدر سرکوزی نے بھی جو یورپی یونین کے آئین کی تدوین کرنے والی کمیٹی کے سربراہ تھے کہا ہے کہ ترکی نہ تو نظریاتی طور پر مغربی ممالک میں شامل ہے اور نہ ہی روایتی طور پرترکی کی رکنیت کے موضوع پر یورپ میں سیاسی ، نفسیاتی و ثقافتی اختلافات اس قدر جذباتی اور حساس ہوگئے ہیں کہ اس سے یونین کے رکن ممالک کے درمیان خلیج اور بھی وسیع ہوگئی ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اتاترک کی قوم اس خلیج کو پاٹنے کی کیسے ، کب اور کیونکر کوشش کرتی ہے …

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں